لتا منگیشکر اور میں



کچھ فنکار شاعری اور موسیقی کو سیکھ کر گاتے ہیں، کچھ فنکار اسے جان کر سمجھ اور پرکھ کر، مگر کچھ فنکار ایسے ہیں جنھوں نے جو بھی گایا اسے اپنا بنا کر گایا۔ اچھا گانے والے بیشمار ہیں، مگر تاثیر اور طاقتِ پرواز ہر آواز کے نصیب میں نہیں ہوتی۔ میں تھیوری آف رینڈم نیس پر یقین رکھتا ہوں، قسمت پر بھی اعتقاد ہے، لیکن ایک ہی چیز بیک وقت اور بارہا سبھی کے دل کو چھو لے تو یہ محض اتفاق نہیں معجزہ ہی کہلا سکتا ہے۔
لتا کی وفات کی خبر پر جو پہلا فقرہ ذہن میں گونجا وہ اسی کے گیت کے بول تھے کہ تم نجانے کس جہاں میں کھو گئے، ہم بھری دنیا میں تنہا ہو گئے۔ افسوس کا لفظ اکثر میرے جذبات کا احاطہ نہیں کرپاتا تو دن بھر چاہ کر بھی کچھ اظہار نہ کر سکا، کچھ بھی لکھنے لگتا تو اظہار تشنہ اور الفاظ بیحد حقیر معلوم پڑتے ہیں۔
موسیقی اور بالخصوص پرانے گیتوں کیساتھ میری انسیت کا ادراک رکھنے والے دوست احباب اور رشتے داروں نے باقاعدہ رابطہ کر کے مجھ سے یوں تعزیت کی، جیسے انھیں گمان ہو کہ میرا لتا جی کیساتھ کوئی غائبانہ تعلق ہو۔ جُرمِ الفت پہ ہمیں لوگ سزا دیتے ہیں۔ کیسے نادان ہیں شعلوں کو ہوا دیتے ہیں۔ ہاں تعلق تو ہے۔مگر یہ دنیا اور زندگی بہت عجب ہے۔ دو دن کیلئے مہمان یہاں معلوم نہیں منزل ہے کہاں
یقین نہیں ہوتا کہ وہ آواز واقعی چلی گئی جو کہتی تھی کہ مجھے سب اپنے غم دیدو اگر مجھ سے محبت ہے۔
جو کہتی تھی کہ ہم پیار میں جلنے والوں کو چین کہاں،آرام کہاں، کیا اسے چین مل گیا؟
اسکی دھڑکن رُک گئی جو کہتی تھی "دل کی اے دھڑکن ٹھہر جا مل گئی منزل مجھے"۔ کیا واقعی اسے منزل مل گئی؟
یہ زندگی اُسی کی ہے جو کسی کا ہو گیا۔ کیا وہ خود کسی کی نہ ہو سکی جو چلی گئی۔
رہیں نہ رہیں ہم، مہکا کریں گے بن کے کلی، بن کے صبا باغِ وفا میں۔
ہاں وہ ابھی بھی یہیں کہیں مہک رہی ہے۔ میں سُن سکتا ہوں اسے۔
مشکل ہے بہت مشکل چاہت کا بھلا دینا، اس آواز کیساتھ چاہت اور آشنائی کب ہوئی اور کیسے زندگی کا اٹوٹ حصہ بن گئی، شاید ہوش سنبھالنے سے بھی پہلے ریڈیو یا ٹیپ ریکارڈر کی معرفت۔ یہ اسکے عہد کا وہ دور تھا جب بزرگ اسکے گائے "دل اپنا اور پریت پرائی" اور "گزرا ہوا زمانہ آتا نہیں دوبارہ" پر سر دھنتے اور نوجوان اسی کی آواز میں گوری کلائیوں میں ہری ہری چوڑیاں پہنی اپنی محبوبہ کو کبوتر کے ہاتھ سندیسے بھجوانے کا تصور کیا کرتے تھے۔ شادیوں میں ڈھولک پر "دیدی تیرا دیور دیوانہ" اور "مہندی لگا کے رکھنا" بجا کرتا۔
گلی محلے، ریڈیو، ٹی وی اور فلم الغرض ہر جگہ یہ آواز لازم و ملزوم تھی۔ چچا مرحوم پرانے گیتوں اور فلموں کے رسیا تھے، ان کی بدولت ہم بچوں کو بھی ورثے میں یہ سوغات حاصل ہوئی۔ آپ یوں فاصلوں سے گزرتے رہے، دل سے قدموں کی آواز آتی رہی ۔ کچھ دل نے کہا! کچھ دل نے سنا؟ کچھ بھی نہیں! ایسے بھی باتیں ہوتی ہیں۔ میرے لیے یہ سب کچھ نیا اور دلچسپ تھا۔
مفت میں مل جانے والی اس لگژری کو ہمیشہ فار گرانٹڈ لیا لیکن لتا کی آواز بیک وقت تنہائیوں اور محفلوں میں زادِ راہ بن گئی،
آ گیا جو کسی پہ پیار، کیا کیجئے
بظاہر وہ آواز سامع کو بہلاتی۔ مگر وہ ہمارے ناتجربہ کاری کے دور میں شعور کا خزانہ تھی۔
وہ ایک عجیب داستان سنانا شروع کرتی جو نجانے کہاں سے شروع اور کہاں ختم ہوتی تھی مگر سننے والے کو انجان منزلوں کی سمجھ آنے لگتی۔
وہ اپنے دلِ ناداں سے محوِ گفتگو ہوتی اور سننے والے کو آرزو، جستجو ، دشت و صحرا میں بھٹکنا، اپنے ہی دریا میں موج پیاسی ہونا، اپنا سایہ رُوبرو ہونا، مصیبت، قیامت، ارماں اور چار سو پھیلی دھڑکن کی سمجھ آنا شروع ہو جاتی
سر راہ چلتے چلتے اسکی باتیں فسانوں کا روپ دھار لیتیں۔ شبِ انتظار کے چراغ اسکے ساتھ جلتے جلتے بجھ جاتے۔
وہ اپنے صنم کو خط لکھنے بیٹھتی اور سننے والے کی چشمِ تصور میں دِل کی گلی اور شہرِ وفا کا نقشہ کھنچنے لگتا
وہ طلسماتی انداز میں غیروں پہ کرم اور اپنوں پہ ستم کا شکوہ کرتی ہے اور سننے والے کو کرم، ستم، ظلم، بھرم ،قسم، بےدردی، منظورِ نظر، اقرار، وار، تھرکتے شانوں اور بے موت مرنے کا ادراک ہو جاتا ہے
وہ پروانے کو کہیں دیپ اور کہیں دل جلنے کی کہانی سناتی۔ قسمیں وعدے نبھانے کی ، جنم جنم ملتے رہنے کی باتیں، کبھی خاموشیوں کے گنگنانے ، تنہائیوں کے مسکرانے، ہوا کی سرگوشیوں کی باتیں۔ دور تک نگاہ میں گُل کھلاتے خواب دیکھنے کی باتیں۔ خُود کو دھواں بنا کر فِضا میں اُڑانے کی باتیں۔
میرے لیے یہ سب بیحد منفرد تھا۔ وہ آواز میرے لڑکپن اور نوجوانی کی یاد بن گئی اور مرتے دم تک رہے گی، اب سوچوں تو اس آواز سے ادا ہوئے لفظوں سے کیسی کیسی تصویریں بن جایا کرتی تھیں۔
دل ڈھونڈتا ہے پھر وہی فرصت کے رات دن، جب جاڑوں کی نرم دھوپ اور آنگن میں لیٹ کر آنکھوں پر کھینچ کر تیرے دامن کے سائے کو، اوندھے پڑے رہیں ،کبھی کروٹ لیے ہوئے۔
یاں گرمیوں کی رات جو پروائیاں چلیں، ٹھنڈی سفید چادروں پہ جاگیں دیر تک، تاروں کو دیکھتے رہیں چھت پر پڑے ہوئے۔
برفیلی سردیوں میں کسی بھی پہاڑ پر، وادی میں گونجتی ہوئی خاموشیاں سنیں، آنکھوں میں بھیگے بھیگے سے لمحے لیے ہوئے۔
ہر کسی کو گمان ہوتا تھا کہ یہ آواز صرف اُسی کے لیے ہے۔ تُو اب سے پہلے ستاروں میں بس رہی تھی کہیں، تجھے زمیں پر بلایا گیا ہے میرے لیے
کبھی وہ آواز لوری بن کر تھپتھپاتی۔آج کل میں ڈھل گیا، دن ہوا تمام، تُو بھی سوجا سو گئی رنگ بھری شام۔ آ جا ری آ نندیا تُو آ۔
بہت رات بیتی چلو میں سلا دُوں، پَوّن چھیڑے سرگم میں لوری سنا دوں،
دھیرے سے آجاری اکھین میں نندیا ۔ لُکا چھپی بہت ہوئی سامنے آ جا ناں۔
کبھی سارے جہاں کی اُداسیاں اس آواز میں سمٹ آتیں۔ کتنی اکیلی کتنی تنہا سی لگتی۔ اسقدر بھی کوئی کسی کا دیوانہ نہ بنے، تیرِ نظر کا نشانہ نہ بنے۔ لیکن یہ میری زندگی اک پاگل ہوا، آج اِدھر کل اُدھر میں کسی کی نہیں۔
لیجنڈ کا لفظ اس ایک آواز کیلئے بیحد چھوٹا ہے
سچ پوچھیے تو پچھلی تین نسلوں کو خود اندازہ نہیں کہ اردو کے ڈھیروں الفاظ کا درست تلفظ لاشعوری طور پرہمیں ان گیتوں سے سیکھنے کو ملا ہے،
زمانے کے کتنے ہی جذبات، احساسات اور سچویشنز کا شعور ہمیں اسکے گیتوں میں برتے گئے الفاظ کے بھرپور اور عین تاثرات کی ادائیگی سے حاصل ہوا۔ جو شاید کسی اور کے کہے سے دل میں یُوں ہرگز نہ اترتا۔ کوئی ایک ایکسپریشن ہو تو بتاؤں۔
جو اسکی آواز میں سن لے کہ “دیپک بغیر کیسے پروانے جل رہے ہیں کوئی نہیں چلاتا اور تیر چل رہے ہیں۔ تڑپے گا کوئی کب تک بے آس بے سہارے” اسے انتظار کی کیفیت و ماہئیت سمجھ کیوں نہ آئیگی؟
"ریت کی ہیں دیواریں جو بھی چاہے گرا دے، ڈوبی جب دل کی نیّا سامنے تھے کنارے” سن کر کیا مایوسی کی تصویر نہیں بن جاتی؟
”دو پل کے جیون سے اک عمر چرانی ہے، زندگی اور کچھ بھی نہیں تیری میری کہانی ہے” سن کر مایوسی رفوچکر ہو جاتی، اور اسکی جگہ ایک ناسٹلجیاکا جذبہ لے لیتا ہے
“مگر کیا کریں اپنی راہیں جدا ہیں“ سن کرسمجھ آگئی گویا دو میں سے کسی ایک فریق کے قصوروار ہوئے بنا بھی راہیں جدا ہو سکتی ہیں
”دور سے دل کی بُجھتی رہے پیاس، ٹوٹنے والے دل ہوتے ہیں کچھ خاص” سن کر لگتا ہے وہ خاص دل میرا ہی تو ہے اور اکھیوں کا آس پاس رہنا کیوں ضروری ہے۔
”تیری دو ٹکیاں دی نوکری میرا لاکھوں کا ساون جائے رے” سمجھا دیتا ہے کہ اک فطری جبلت کی تسکین نہ ہو پائے تو ساون لاکھوں کا اور چنگی بھلی نوکری دو ٹکے کی ہو سکتی ہے 🙂
میں تم میں سما جاؤں، تم مجھ میں سما جاؤ- سچ کہئے کیا یہ سن کر چشمِ تصور میں دو وجود سرائیت کرتے دکھائی نہیں دیتے؟
“کیا کہنا ہے، کیا سننا ہے، مجھکو پتا ہے، تمکو پتا ہے، سمے کا بندھن تھم سا گیا ہے” سن کر وقت جہاں تھما ہوا محسوس ہوتا ہے وہیں سبھی الفاظ اور اظہار بے معنی سے لگنے لگتے ہیں
"مسکراؤں کبھی تو لگتا ہے جیسے ہونٹوں پہ قرض رکھا ہے" سن کر یقین جانئیے اپنے ہی ماضی ءِقریب کی سبھی خوشیاں مجبور و مقروض سی لگنے لگتی ہیں.
وہ زندگی کو پیار کا گیت کہتی ہے تو سچ لگتا ہے ، وہ کہے کہ اٹھائے جا انکے ستم اور جئے جا، یونہی مسکرائے جا، آنسو پئے جا - تو سن کر لگتا ہے کہ پیار بس تکلیف سہنے کا نام ہے۔
"پیاس بھڑکی ہے سرِشام سے جلتا ہے بدن"- کیا پیار جلنے کا نام ہے؟
"اب تو ہے تم سے ہر خوشی اپنی" ۔ سننے والے کیلئے پیار کو وارفتگی میں بدل ڈالتا ہے
مگر پھر وہ تان لگاتی ہے کہ "پردہ نہیں جب کوئی خدا سے بندوں سے پردہ کرنا کیا" تو پیار سے بے خوف اور نڈر شے کوئی اور نہیں لگتی
وہ حسرتوں کے داغ محبت میں دھونے کا یوں ذکر کرتی ہے کہ خود دل سے دل کی بات کہہ کر رو اٹھنے کو جی کرتا ہے۔
جب وہ کہتی ہیں کہ میری آواز ہی پہچان ہے گر یاد رہے، سن کر یقین ہو جاتا ہے کہ نام اور چہرہ بدل جائے گا مگر یہ آواز واقعی کبھی نہیں بھلائی جا سکتی
اُن آنکھوں کی مہکتی خوشبو کیسے دیکھی جا سکتی ہے؟ صنم سے مدھر چاندنی میں ملنے کا سماں کیا ہوتا ہے؟ رات بھیگی بھیگی اور مست فضاوں میں پیارے سے چاند کا دھیرے دھیرے اٹھنے کا منظر کیسا ہوتا ہے؟ سِلّی سِلّی برہا کی رات کا جلنا کیا ہوتا ہے؟ نیناں رم جھم کیسے برس سکتے؟
یہ عجوبہ ہے، کہ وہ کونسا کام ہے جو یہ آواز نہیں کر سکتی؟
کبھی وہ جل بن مچھلی بن جاتی، کبھی ملہار گاتی کوئل، کبھی دشمن سپیرے کی بین پر رقص کرتی ہوئی ناگن۔
وہ انارکلی ہے، چاندنی ہے, خوش رنگ حنا
کشمیر کی کلی، نورجہاں، کبھی ہیر، کبھی سوہنی
کبھی جُولی ہے، کبھی بوبی
کبھی رادھا تو کبھی مِیرا۔۔
کبھی سیتا اور گیتا ہے تو کبھی ڈریم گرل۔
کبھی شعلے کی بسنتی بن جاتی ہے تو کبھی بین کرتی رُدالی۔
وہ محبوب سے ملنے کو پنکھ لگا کے اُڑ سکتی ہے۔ ڈفلی کی تھاپ پر تھرک سکتی ہے،
کبھی ہاتھوں میں نو نو چوڑیاں پہن کر ساجن کو مجبوری سمجھاتی دوشیزہ، وہ کسی اور کے در پہ آئی اپنے ہی راجہ کی بارات پر ناچ سکتی ہے۔
بندیا چمکا کر، چوڑی کھنکا کر وہ بھولی داستان سنا کر نظر کے سامنے گھٹا کو برسا سکتی ہے۔ ٹھنڈی ہوائیں لہرا کے رُت جواں بنا سکتی ہے۔محبوب کے لیے پلکوں کی جھالر بُن سکتی ہے۔
جی میں آئے تو محبوب کے دامن میں سر جھکا کے روتی رہے، روتی رہے۔ چاہے تو دل کو دل کے اتنا قریب لے آئے کہ دھڑکنیں دھڑکنوں میں مل جائیں۔
صنم کی بانہوں میں آکر جسکے قدموں تلے زمانہ ہے۔ ہر آنسو کو پیے، ہونٹوں کو سیے دل میں مگر جلتے رہے چاہت کے دِیے۔ کل کے افسانے نہ چھیڑ کر صرف اِس ایک رات کی باتیں کرنے والی۔ پیار میں جینے کی تمنا اور مرنے کا ارادہ رکھنے والی۔ کوئی میری آنکھوں سے دیکھے تو سمجھے کہ تم میرے کیا ہو۔ مگر دنیا کرے سوال تو ہم کیا جواب دیں۔
”یہ کہاں آگئے ہم” کی صدا سامع کو اک انجان وادیوں کےسفر پر گامزن کردیتی ہے اور اگلے ہی لمحے ‘یونہی ساتھ چلتے چلتے’ سن کر گویا کسی ہمسفر کا ساتھ بھی مہیا ہو جائے۔
پیار سے پکار لو جہاں ہو تم - تُو جدھر کا رخ کرے گا میرا سایہ ساتھ ہو گا۔ لگتا ہے وہ جا کر بھی کہیں آس پاس ہی رہے گی۔
ہم نے کچھ باغیانہ شعور پا کر اسے پرکھنے، موازنے، نیچا دکھلانے، اسکا عکس دھندلانے کی بیحد کوشش کی مگر ہر محاذ پر خود کو ناکام پایا۔ وہ ایک نشہ ہے جس کی ہر کچھ وقت بعد روح کو ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ وہ چپ رہیں تو میرے دل کے داغ جلتے ہیں، جو بات کر لیں تو بجھتے چراغ جلتے ہیں۔
جیسے وہ پکارتی ہے کہ وادیاں میرا دامن راستے میری بانہیں، جاؤ میرے سوا تم کہاں جاؤ گے۔ کیا ان الفاظ کی گونج سے چھٹکارہ ممکن ہے؟
جب بھی وہ کہتی ہے آؤ تمہیں چاند پہ لیجائیں پیار بھرے سپنے دکھائیں - سن کر ہم بھی محوِ سفر ہو لیتے ہیں۔ چلو دلدار چلو چاند کے پار چلو کہ موسم ہے عاشقانہ۔ کاش ایسا سماں نہ ہوتا، کچھ بھی یہاں نہ ہوتا، میرے ہمراہی جو تم نہ ہوتے۔
اسکی عجب فرمائشیں ہیں۔ کبھی میں کہوں، کبھی تم کہو۔ کہ میں نے تجھے چُن لیا تُو بھی مجھے چُن۔ تھوڑی سی زمیں، تھوڑا آسماں، تنکوں کا بس اک آشیاں۔ خاموش سا افسانہ پانی سے لکھا ہوتا، نہ تم نے کہا ہوتا نہ ہم نے سنا ہوتا۔ دوریاں سب مٹا دو، من میں لگی جو اگن وہ سجن تم بجھا دو- الفت میں زمانے کی ہر رسم کو ٹھکراؤ، پھر پاس میرے آؤ۔ وعدہ نہ توڑ۔ تجھ سے ناراض نہیں زندگی! تمہاری نظر کیوں خفا ہو گئی،
نجانے ایک دل میں اتنے بہت سے جذبے کیسے سمٹ سکتے ہیں جو روح بن کر سماعتوں میں گھل جائیں
کسی راہ میں کسی موڑ پر
تیری راہوں میں کھڑے ہیں دل تھام کے، ہم ہیں دیوانے تیرے نام کے
ہزار راہیں مڑ کر دیکھیں کہیں سے کوئی صدا نہ آئی
بڑی وفا سے نبھائی تم نے ہماری تھوڑی سی بیوفائی
اِس موڑ سے جاتے ہیں کچھ سست قدم رستے، کچھ تیز قدم راہیں
میں اگر بچھڑ بھی جاؤں کبھی میرا غم نہ کرنا، میرا پیار یاد کر کے کبھی آنکھ نم نہ کرنا، تُو جو مڑ کے دیکھ لے گا میرا سایہ ساتھ ہو گا۔
جو نہ بن سکے میں وہ بات ہوں، جو نہ ختم ہو میں وہ رات ہوں، ہے اسی میں پیار کی آبرو
تیرا جانا دل کے ارمانوں کا لٹ جانا۔
لتا جی آپکو کیسے بھلایا جا سکتا ہے؟
ان رسموں کو ان قسموں کو، ان رشتے ناطوں کو میں نہ بھولوں گا
سمجھے گا کون یہاں درد بھرے دل کی زباں، جائیں تو جائیں کہاں
رینا بیتی جائے نندیا نہ آئے۔ تمھیں یاد کرتے کرتے جائے گی رین ساری، تم لے گئےہو اپنے سنگ نیند بھی ہماری۔
رُلا کے گیا سپنا میرا۔
وہی ہے غمِ دل وہی ہے چندا تارے، وہی ہم بے سہارے،
چاند پھر نکلا مگر تم نہ آئے جلا پھر میرا دل کروں کیا میں ہائے!
کھلتے ہیں گُل یہاں، کھل کے بچھڑنے کو
شاید پھر اِس جنم میں ملاقات ہو نہ ہو
خوشیاں تھیں چار دن کی، آنسو ہیں عمر بھر کے
تنہائیوں میں اکثر روئیں گے یاد کر کے
وہ وقت جو کہ ہم نے اک ساتھ ہے گزارا
حافظ خدا تمہارا
------
- خرم امتیاز (8 فروری 2022)

خالق

 

 میرا خدا کی ذات پر پختہ یقین ہے، اور میں خدا کو پسند بھی کرتا ہوں، مگر اسلئے نہیں کہ اس نے مجھے بنایا، یا یہ زندگی دی۔ بلکہ اسکی بنائی دنیا اور یونیورس اور اس میں چھپے انگنت راز، پیٹرن اور منطق (جتنا بھی ہم اپنی محدود عقل اور سوچ کیساتھ سمجھ پاتے ہیں) ۔۔۔ ان سب نے مجھے بیحد متاثر کیا ہے۔ بھلا میں اس خدا سے نفرت کیسے کر سکتا ہوں جس نے میوزک تخلیق کیا۔

مگر خدا کے کانسیپٹ کو لیکر دنیا اور سوسائیٹی کو جس طرح آپریٹ کیا جاتا رہا اور اب بھی کیا جا رہا ، اس سے مجھے اتفاق محسوس نہیں ہوتا۔

ہمیں خدا (اپنے خالق) سے کیا چاہئے، اسکی تو سینس بنتی ہے، مگر یہ سوال کہ خدا کو ہم سے کیا چاہئے؟  اس پر میں آج تک خود کو قائل نہیں کر پایا کہ خدا کو واقعی ہم سے وہی سب کچھ درکار ہے جو ہمیں سکھایا اور بتایا جاتا ہے۔ یعنی اس کے آگے جھکو، سجدہ کرو، فلاں فلاں حرکت روٹین سے کرو، فلاں کلمات پڑھو، اس کی خوشی کیلئے بھوکے رہو، اور اس کے غیض و غضب سے بچنے کیلئے فلاں کام نہ کرو۔ مزید یہ کہ خدا جس انسان سے محبت کرتا ہے، تم بھی اسکے ساتھ محبت کرو۔

جبکہ خدا خود کہتا ہے کہ وہ کسی کا رشتے دار نہیں نہ کوئی اسکا رشتے دار ہے۔ اسکے کوئی جذبات نہیں۔ اس کائنات کا حجم اور اسکے پیچھے چھپے راز اور ہر ہر تخلیق کی ایگزسٹنس کی منطق دیکھیں تو جسقدر بڑی ذات خدا کی ہے، ذروں جیسی انسانی مخلوق کے کسی عمل سے اس کے ہرٹ ہونے، ناراض ہونے، غیض و غضب کا شکار ہونے یا کسی کو سزا دینے کی میری نظر میں کوئی سینس نہیں بنتی۔ اسی طرح اسکے کسی بات پر خوش ہونے، محبت کرنے اور انفرادی طور پر کسی کو نوازنے کی منطق بھی نہیں بنتی۔ پھر بھلا کوئی خدا کا فیورٹ کیسے ہو سکتا ہے۔ یہ فیورٹ بننے اور بنانے والی صرف ہماری اپنی انسانی سوچ ہو سکتی ہے۔

ہم جتنا مرضی انکار کریں مگر جس بھی مذہب کو اٹھا کر دیکھ لیں، ہم انسان خدا کو اپنے ہی جیسا جذباتی مگر بہت بڑا، طاقتور انسان سمجھنے پر مصر ہیں جو انفرادی طور پر ہر انسان سے ڈیل کر رہا۔

جبکہ اس ننھی سی دنیا کے ذرے برابر انسان کے  مائکروسکوپِک عمل کے جوابی ردعمل اور ہر اِن پٹ کی منطقی آؤٹ پُٹ دینے کیلئے اتنے عظیم اور لامتناہی سسٹم کے خالق کے بنائے انگنت قوانینِ قدرت ہی کافی ہیں۔ ایسی ذات کی پسند و ناپسند بھی منطق بیسڈ ہونی چاہئے ناں کہ پرسن سپیسیفک۔

مجھے مذاہب کی جو تعلیمات متاثر کرتی ہیں، اُن میں حقوق العباد جیسے کانسیپٹس کی سوسائٹی اور معاشرت کیلئے پرفیکٹ سینس بنتی ہے۔ اور اس کی بات سبھی مذاہب کسی ناں کسی صورت کرتے ہیں۔ مگر اسکی عدم فراہمی پر بھی حساب کتاب کرنے کیلئے خدا کو خود حرکت میں آنے کی بالکل ضرورت نہیں۔ اَن دیکھی شے پر یقین کی وجہ ہمارے علم کی کمی ہے۔ اگر ہر وقوعے کے وقوع پذیر ہونے کے پیچھے کے تمام حالات و واقعات و وجوہات کی ہر لڑی کا ادراک ہمیں حاصل ہو جائے تو کسی کیساتھ بھی کچھ اچھا یا برا ہونے کی منطق بھی ہم پر واضح ہو جائے گی۔

 

جدید معاشرت بغیر کسی مذہب کو فالو کیے اِن حقوق اور انصاف کی فراہمی اور اسکے نفاذ میں آگے بڑھ ہے، اور میری سوچ کو خوراک خوراک اور بڑھاوا اس فیکٹر سے ملتا ہے کہ اوورآل دنیا کی ترقی (اگر زندگی کے مختلف شعبہ جات میں پراگریس کرنا، علم و ٹیکنالوجی کی گروتھ، ھیومن رائٹس، سِوِک سینس، کمیونٹی سٹینڈرڈز، Gender equality، قوانین کی بالادستی اور انصاف کے نفاذ وغیرہ کو ترقی سمجھا جائے تو اِس ترقی) میں فی الحال مذاہب کا کردار یا کارفرمائی نہ ہونے کے برابر دکھائی دیتی ہے۔ بالخصوص مذہب کا بینر اٹھانے والوں یا مذہب کی اجارہ داری والے علاقوں کی صورتحال اور بھی زیادہ مخدوش دکھائی دیتی ہے۔

اسلام - ایک لبرل دین

 اسلام کی شروعات میں یہ اُس زمانے کے حساب سے تبدیلی کا دین تھا۔ ایک ایسا لبرل مذہب تھا جس نے چودہ سو برس پرانی قدامت پسند روایات کی حوصلہ شکنی کی تھی۔ اِس کے انقلابی پن اور مقبولیت کی سب سے اہم وجہ اسکا ہلکا پھلکا ہونا اور عام آدمی کے مطلب اور آسانی کیلئے سیدھی سادی بات کرنا تھا۔ جو ایک بَدو کو بھی سمجھ آ جاتی تھی۔

مگر وقت گزرنے کیساتھ اس میں اکابرین کا بوجھ شامل ہوتا گیا۔ آج کے مسلمان کو اپنے ایمان کیلئے اللہ کے احکامات کیساتھ ساتھ صدیوں پر محیط اسلامک ہسٹری، اکابرین کے کردار، انکے طرزِ عمل، طرزِ زندگی پھر انکی رنگ برنگی تشریحات (جنہیں عہدِ حاٖٖٖٖٖٖضر کے مسائل پر میپ کرنا جوئے شیر لانے کی مترادف ہے) کو بھی ساتھ ساتھ اٹھائے رکھنا اور اکثر انکا دفاع بھی کرنا پڑتا ہے۔ آج خود کو مذہبی کہلوانے والا طبقہ ہی قدامت پسند روایات کا سب سے بڑا محافظ بنا دکھائی دیتا ہے۔
دوسری جانب مُلا نے اپنی افادیت اور ضرورت کو ناگزیر بنانے کی خاطر مذہبی علم کی ایسی دیوار کھڑی کر دی ہے کہ آج ایک پڑھے لکھے شخص کو بھی دین کی بات سمجھنے کیلئے علماء کی مدد درکار ہے۔

خدا

 جس طرح سائنس و دیگر مضامین میں رٹا لگا کر نمبر مل جاتے ہیں۔ اسلامیات میں بھی کانسیپٹ بلڈنگ کی بجائے رٹے پر ہی فوکس ہوتا ہے۔ اسلامی ہسٹری کی غیر متنازعہ چیزیں فلٹر کر کر کے نصاب بنا لیا جاتا۔ بچہ یاد کر کے نمبر لے لیتا، مگر جب وہی بچہ معاشرے میں مذہب اور مسلک کے نام پر وبال برپا دیکھتا تو کتابی دین اور معاشرے میں اسکا امپیکٹ اور اثرات اسے کنفیوز کرتے ہیں۔ نتیجتا وہ یاں تو شدت پسندی اڈاپٹ کر لیتا ہے یا پھر مذہب بیزار بن جاتا۔

مذہبی تعلیمات اور خدا بارے کانسیپٹس جو کتابوں میں سکھلائے جاتے ہیں ان میں سے اکثریتی کانسیپٹس کو عہدِ حاضر کیلئے obsolete اور غیر متعلقہ بنانے میں خود وہ کتابیں کردار ادا کرتی ہیں جو سینکڑوں ہزاروں برس قبل کسی مخصوص زمان و مکاں و حالات کے زیرِ اثر تحریر ہوئی تھیں۔ ہزاروں برس قبل عرب کے صحرائی کلچر کی مثالیں یا قرونِ اولی کے قصے آج ٹیکنالوجی بھری جدید لائف سٹائل کی حامل دنیا اور کائنات پر لاگو کرنا ممکن دکھائی نہیں دیتا۔ چند پسماندہ ممالک کے سوا کوئی انکو فکشن سے بڑھ کر اہمیت نہیں دیتا۔ اور یہ بات دنیا کے سبھی مذاہب پر صادق آتی ہے۔
ایک طرف ہم کہتے ہیں کہ اللہ انسانوں جیسی خصوصیات نہیں رکھتا، مگر آپ جس مرضی عالم کو پڑھ/سُن لیں، آپکو اندازہ ہو گا وہ خود خدا کو ایک بہت طاقتور اور بڑے انسان جیسی ہی کوئی جذباتی مخلوق تصور کرتے ہے، جو دور اُوپر کہیں بس حساب کتاب کرنے اور انعام و اکرام بانٹنے کیلئے بیٹھا ہے۔ میرے بھیا حساب کتاب تو بذاتِ خود ایک انسانی اور مادی شے ہے۔ خالقِ کائنات و جن و انس کی ذات تو ان میٹیریلسٹک محرکات، ذاتیات اور جذبات سے مبرا ہے۔ ہزاروں برس قبل رائج محدود نالج کے مطابق اگر کچھ مثالوں سے خدا کے تصور کو سمجھانے کی کوشش کی گئی تھی تو اسکا یہ مطلب تو نہیں کہ اب اگلے ہزاروں سال انہی پرانی محدود مثالوں پر ہی کانسیپٹ پکا کیے رکھیں۔
ہم بچپن میں کوئی سوال اٹھاتے تو ہمارے بڑے بزرگ ہمیں ڈانٹ ڈپٹ کے چپ کرا دیتے تھے (اور ہم احتراما خاموش رہتے) کہ ایسا سوچنے سے بھی گناہ ہوتا۔ اب میں سمجھ سکتا ہوں کہ جب بڑوں کے پاس کسی سوال کا جواب نہیں ہوتا تب پہلے مرحلے پر ڈانٹ ڈپٹ ہی ہوتی، پھر ڈراوے سے، خوف اور مار سے سوالات کا گلا گھونٹا جاتا ہے۔
آج ایک طرف ہم اپنے بچوں کو جدید علم کی دنیا میں فری تھنکرز بنانے کیلئے کوشاں ہیں، دوسری جانب ان کے اٹھائے ننھے سے سوالات کا جواب بھی دینے سے قاصر ہیں۔ میری دس سالہ بیٹی پوچھتی ہے کہ اسے سمجھ نہیں آتی کہ
Why all the times God is so personal and judgmental about his own creatures؟
ایک حقیر سے انسان کی کسی حرکت پر خدا غبضبناک کیونکر ہو سکتا ہے؟ اسی طرح خدا کا انسان پر صدقے واری ہونا یا ماؤں جیسا پیار کرنا بھی سمجھ سے بالاتر ہے۔
بس جی بزرگوں نے کہہ دیا، کتابوں میں لکھا ہے تو یقینا ایسا ہی ہو گا۔ مگر جب آپ اپنی پوری زندگی میں ایک بار بھی اسکی عملی مثال دیکھ نہیں پاتے تو ایسے کانسیپٹ ساری زندگی کیسے اپنے ساتھ باندھ کر رکھ سکتے ہیں؟

دعائیں

 دعاؤں پر یقین اور اللہ کے ہوتے ہوئے کیا اچھا ہوسکتا تھا مگر نہیں ہوا، اور کیا برا نہیں ہونا چاہئے تھا مگر وہ ہو گیا۔
اس بارے میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ خدا کی ذات ان سبھی چھوٹی انسانی سوچوں اور منطقوں سے مبرا اور کہیں اوپر ہے۔

اس نے ہمیں ایک بہت بڑے اور انٹیلیجنٹ سسٹم میں اتارا ہے، جہاں ہر شے لاجیکل اور قوانینِ فطرت کے ماتحت ہے۔ ایک خوردبینی جاندار کی کارستانیوں سے لیکر بین الاقوامی سیاست اور اس سیارے سے باہر کی لامتناہی دنیا بھی قوانینِ فطرت کے عین مطابق چل رہی۔
جو ان قوانین کے مطابق حالات کو دیکھتا اور سمجھتا ہے، اس کیلئے کچھ بھی اچنبھے کی بات نہیں۔
میرا نہیں خیال کہ اسقدر انٹیلیجنٹ سسٹم کو بنانے کے بعد بھی خدا ہم چیونٹی سے بھی بے ضرر انسانوں کے ننھے منے انفرادی مسائل اور پریشانیوں کی گتھیاں سلجھانے کا کام کرتا ہو گا۔ جو ہونا ہے اسی سسٹم کے تحت اور کسی کوشش اور حرکت کے نتیجے میں ہی ہونا ہے۔
دعاؤں کو شاید ہم نے ایک ٹُول سمجھ رکھا ہے، کہ جب مکمل بے بسی اور معاملات آؤٹ آف کنٹرول دکھائی دیں تو ہم قوانینِ فطرت کے الٹ اپنی کسی ڈیمانڈ کو دعا کی صورت پورا ہوتے دیکھنے کے متمنی ہو جاتے۔ سنی سنائی معجزاتی روایات اس سلسلے اور یقین کو بڑھاوا دینے کا کام کرتے ہیں۔ مگر آج تک اپنی گنہگار آنکھوں سے کچھ بھی غیر منطقی اور قوانینِ فطرت کے الٹ ہوتا نہیں دیکھا۔ دعاؤں کی کامیابی و ناکامی خدا کی ذات کو جانچنے کا کوئی پیمانہ ہرگز نہیں ہو سکتی۔

مڈل کلاس

وبا لاکھوں شہریوں کے روزگار کیساتھ ساتھ سلمان کی نوکری بھی کھا گئی تھی۔ تین ماہ سے بیروزگار سلمان آج بھی کرونائی گرمی میں ماسک لگائے کام کی تلاش میں شہر کے بازاروں کی خاک چھانتا پھرا۔ لگتا تھا صرف وہی نہیں پورا شہر کسی معاشی عفریت سے نبردآزما ہے۔ کوئی آٹے کو رو رہا تھا تو کوئی چینی کو اور کسی کو پیٹرول نہیں مل رہا۔ شام کو جب گھر لوٹا، اہلِ خانہ کے کسی سوال کا جواب اسکے پاس نہیں تھا۔ کافی عرصے بعد اس رات سے لوڈ شیڈنگ کی شروعات بھی ہو گئی۔ پسینے میں شرابور سلمان اور اسکی بیوی سوتے بچوں کو ہاتھ کا پنکھا جھل رہے تھے۔ تبھی سلمان نے مہینوں سے جاری اپنی چپ کا روزہ توڑتے ہوئے بیوی کو اپنے معاشی بحران سے آگاہ کیا۔ الفاظ زبان میں اٹک رہے تھے۔ اندھیرے میں پسینہ آنکھیں جھلسا رہا تھا، اشک اندر ہی اندر کہیں گر رہے تھے۔ چند بے بس سسکیاں سوالیہ نشانوں کی طرح گونج رہی تھی۔ جنکا کوئی جواب نہیں تھا
اگلی صبح ناشتہ کیے بغیر سلمان نے پھر بازار کا رخ کیا، رستے میں اچانک اس نے اپنا ماسک اتار کر جیب میں رکھ لیا اور بغیر ماسک پہنے بازار کی بھیڑ میں گھس گیا۔

سروائیول

ملک صاحب آپکا بہت شکریہ کہ بوجوہ لاک ڈاؤن سکول بند ہونے پر بھی آپ ہر ماہ باقاعدگی سے بچے کی فیس جمع کراتے ہیں۔ فیس کی رسید پکڑاتے ہوئے سکول ایڈمنسٹریٹر سہیل تشکر بھرے انداز میں گویا ہوا۔
"سہیل بھائی، بھلے سکول بند ہیں، بجلی و دیگراخراجات آپکو ادا نہیں کرنا پڑ رہے، مگر سکول کی عمارت کا کرایہ تو دینا پڑ ہی رہا ہو گا ناں۔ پھر بچوں کی فیس آپکو ملنا تو اس لیے بھی ضروری ہے کہ آپ نے اپنے سٹاف کو تنخواہیں جو دینا ہوتی ہے۔ گو کہ اِس صورتحال میں ہم کاروباری اشخاض خود بڑی مشکل سے گزارہ کر رہے ہیں، مگر کوشش ہے کہ وبا ختم ہونے تک یہ سسٹم کسی طور سروائیو کرتا رہے۔ سبھی کو تنخواہ ملتی رہے۔ اساتذہ بیروزگار نہ ہوں۔ سب کے گھر کا چولہا چلتا رہے"۔
"بالکل ملک صاحب اس مشکل میں یہ بات اگر ہم پڑھے لکھے لوگ نہ سمجھیں گے تو پھر کون سمجھے گا"
فیس جمع کرا کے وہ سکول سے نکل رہے تھے تو گیٹ پر تعینات پرانا گارڈ اور سکول میں چھوٹے بچوں کو سنبھالنے والی آیا ملک صاحب کی جانب لپکے۔
"صاحب جی، کچھ ہماری بھی مدد کر دو۔ قسم سے گھرکا خرچہ چلانا دوبھر ہو گیا ہے، سکول والوں نے تین ماہ سے تنخواہ نہیں دی اور کام بھی لئے جا رہے ہیں، تنخواہ کا سوال کرو تو اس مشکل گھڑی میں نوکری سے فارغ کرنے کی دھمکی لگا دیتے ہیں"

ؤالدین

زندگی بیحد مختصر ہے، یہ کوئی ریہرسل نہیں چل رہی کہ کسی کی غلطی یا غلط فیصلے کی سزا کوئی دوسرا زی روح چپ چاپ بھگت کر اپنی زندگی کو جہنم بناتا رہے۔ بزرگ بھی اکثر و بیشتر غلطیاں کرتے ہیں اور اکثر انھیں بھی درستی کی ضرورت ہوتی ہے۔ محض کسی کے احترام میں اپنی زندگی تیاگ دینا اولڈ فیشن ہو چکا ہے۔
بنیادی طور پر والدین اٹھارہ سال کی عمر تک کے بچے کو پالنے کے ذمے دار ہیں۔ اور یہ بچوں پر کوئی احسان ہرگز نہیں بلکہ یہ اُن بچوں کو اِس دنیا میں لانے کے فیصلے کا کفارہ ہے کہ انھیں اب دنیا کی باگ ڈور سنبھالنے کے قابل بنانا بھی انھی والدین کی ذمے داری ہے جو اسے دنیا میں لیکر آنے کی وجہ بنے۔
مگر ہمارے ہاں والدین خود کو بچوں کا مالک تصور کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں کا فنانشل سماجی سسٹم اسقدر کھوکھلا ہے کہ یہاں بچہ پیدا کرنے کا بنیادی محرک ہی دراصل اپنے "بڑھاپے کا سہارا" پیدا کرنا ہوتا ہے۔ جبھی ہر کسی کو لڑکا چاہئے جو کماؤ پوت بن سکے۔ وہ اپنے بڑھاپے کے اس سہارے کو اپنے بڑھاپے تک سنبھال سنبھال کے رکھنا چاہتے ہیں۔ جبھی لاشعوری طور پر بچے کو آزاد ہوتا یا فیصلے کرتا دیکھنا ہی نہیں چاہتے، اور اٹھارہ سال کے بعد بھی ان کی زندگی کا ہر فیصلہ کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں۔ انگنت زندگیاں ایسے ہی متصادم فیصلوں کی ںذر ہو جاتی ہیں
اِن شارٹ ہمارے ہاں insecurities کا کلچر رائج ہے، والدین خود بھی insecure ہوتے ہیں، اور وہ اپنی اولاد کو بھی اپنے بغیر insecure رہنے کا عادی بناتے ہیں۔

ڈیپریشن

 ہم اپنے نوجوانوں کو سمجھانے میں ناکام رہے ہیں کہ زندگی اسقدر بے وقعت نہیں جتنی انھیں محسوس ہو رہی ہے۔ مزید یہ کہ ہم بھاشن دیتے ہیں کہ خدا کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں۔ بہتری آئے گی۔ امید قائم رکھو۔ محنت جاری رکھو وغیرہ وغیرہ ۔۔۔ اب اس بے حس اور اخلاقی طور پر پاتال پذیر معاشرے میں ہمیں خود اپنی یہ باتیں بے وزن معلوم ہونے لگی ہیں۔ جب بار بار کی امید کے بعد بھی مایوسی اور اندھیرا ہی مقدر دکھائی دیتا ہے تو زندگی دھندلی اور اسکے لوازمات بے معنی معلوم ہوتے ہیں

سگریٹ نوش کی بیوی


کیا آپ نے کبھی اس عورت کی اذیت کا اندازہ کیا جسے سگریٹ حتی کہ اسکی تک بدبو سے بھی چڑ ہوتی ہے مگر اُسے ساری زندگی  کسی چَین سموکر کیساتھ گزارہ کرنا پڑتا ہے اورنام نہاد کمپرومائز کی بدولت وہ علیحدگی کا تصور بھی نہیں کر سکتی