ھم اور ہمارے مذھبی تہوار

10:26 PM 0 Comments


مجھے یاد ھے کہ بچپن میں ہم عید میلادالنبی ﷺ بہت سادگی سے مناتے تھے، نبی پاک ﷺ پر سلام و درود بھیجا جاتا تھا. گھروں میں قران کے سپارے پڑھے جاتے تھے، عقیدت و سوز بھری نعتوں کی محفلیں منعقد ہوتی تھیں، رات کو چراغاں ھوتا تھا. دیئے جلائے جاتے. اور اپنے گھر میں کچھ میٹھا پکا کر خود ہی کھا کر خوش ہو جاتے تھے. مگر اب اس کو اتنے بڑے تہوار کی شکل دے دی گئی ھے. تہوار اور خوشی کی آڑ میں ناچ گانا، ڈھول دمّکے، بلند آواز ساؤنڈ سسٹم پر میوزیکل دھنوں سے ترتیب دی ہوئی ڈانس پر اکساتی بلند آواز نعتیں. مقابلے پر دیگیں پک رھی، بے انتہا کھانا اور رنگا رنگ چیزوں کی تقسیم میں پیسے کی بے دریغ نمود و نمائش. پھر شام میں ون وھیلنگ کرتے بغیر سلنسر کے موٹر سائیکل اور ہلڑ بازی اور بے ھنگم پن.    


ھم لوگوں کا طرز_عمل یہ بن چکا ھے کہ اب ھمارے اقدام کسی ایک کی محبت میں کم اور کسی دوسرے کی مخالفت و نفرت میں زیادہ ہوتے ہیں. سادگی، تقوی، میانہ روی اور برداشت چھوڑ کر، دوسرے مسالک سے لاگت بازی اور ان کے تہواروں سے زیادہ بڑھ چڑھ کر ڈنکے کی چوٹ پر اپنے تہوار منعقد کرنا ہمارا کلچر بن گیا ھے.  شائد آپ لوگوں کو اس کا کوئی نقصان نظر نہ آتا ہو. لیکن یہ سب کچھ ہمارے معاشرے میں بڑھتی انتہا پسندی اور شدت پسندی کی بنیادی وجہ بنتا جا رھا ھے، آئے روز مختلف مسالک کے علماء اور رہنماؤں کی ٹارگٹ کلنگ، مساجد و درباروں پر حملے، بزرگ و برتر ھستیوں کی شان میں گستاخیاں اور نفرتوں کے دیگر اظہارات بھی اسی طرز_فکر کا شاخسانہ ھیں. جبکہ صرف سادگی اور میانہ روی اپنا کر بآسانی ماحول کو ماڈریٹ رکھا جا سکتا ھے.     


میں فیصل آباد مین سٹی میں رہتا ھوں، بچپن سے اب تک سالہا سال ہر مسلک اور ہر تہوار کی بتدریج بڑھتی ہوئی شدت کو اپنی گنہگار آنکھوں سے دیکھ رھا ھوں. میری ذاتی اور اندرونی فیلنگ یہی ھے کہ ھم لوگ اپنے نبی ﷺ کی تعلیمات سے ہٹ کر کسی اور ہی ڈائریکشن میں محنت کر رھے ہیں.     


ھم بھول چکے ھیں کہ ہمارے نبی ﷺ نے ہمیں سادگی، تقویٰ، میانہ روی، پرہیزگاری، حقوق العباد، بردباری، رواداری، برداشت اور استقلال کا درس دیا تھا. ھم تو سراسر ان کی تعلیمات کے الٹ چل رھے ہیں. اگر واقعی ان کی تعلیمات پر چل رھے ہوتے تو آج پوری دنیا میں خوار نہ ہو رھے ہوتے. 

0 comments:

اقبال کا فلسفہءِ خودی

12:58 AM 0 Comments

اقبال کے نزدیک خودی ناصرف انسان بلکہ ہر مخلوق کے اندر موجود ایک تعمیری صلاحیت کا نام ھے، اس صلاحیت میں توسیع بھی ممکن ھے اور اسکی افزائش و تربیت بھی ممکن ہے. یہ تربیت (1) اطاعت_الہی، (2) ضبط_نفس اور (3) نیابت_الہی جیسے مراحل سے ممکن ہے.

اقبال نے اپنی شاعری میں خودی کو مختلف نظریات سے جوڑ کر بیان کیا ھے. کہیں خودی کا تعلق عشق سے، کہیں فقر سے، کہیں غیرت سے، کہیں خوداری سے، کہیں فطرت سے جوڑا. بیشتر جگہوں پر اقبال خودی کو براہ_راست خدا اور عشق_حقیقی سے عبارت کرتے بھی نظر آتے ھیں.

اس سلسلے میں کچھ اھم چیزیں جو کل یوم_اقبال کے حوالے سے سیکھنے کا موقع ملا وہ یہ کہ
(1) -
 اقبال نے انفرادی خودی کی بات بھی کی اور اجتماعی خودی کا تصور بھی پیش کیا. اجتماعی خودی کو بیخودی سے بھی عبارت کیا گیا ھے

(2) -
اقبال وطن اور ملک کی بجائے ھمیشہ امت اور ملت کی بات کرتے نظر آتے ہیں. اس کے ساتھ ہی وہ تکمیل_ خودی کے لئے ملت اسلامیہ کی ضرورت پر زور دیتے ہیں.

(3) -
خودی کا بھٹک جانا، یا بے ترتیب ہو جانا سراسر شیطانیت ھے

غرض یہ کہ خودی کا نظریہ، اقبال کے فلسفۂ زندگی کا بہت بنیادی نکتہ ھے. خودی کا لفظ اقبال غرور کے معنی میں هرگز استعمال نہیں کرتے، بلکہ اس کا مفہوم احساسِ نفس یا اپنی ذات کا تعین ہے

0 comments:

رشتے محض گمان سے قائم نہیں رہ سکتے

12:21 AM 0 Comments

رشتے محض گمان سے قائم نہیں رہ سکتے، ان کو اپنی ذات اور انا کا ایندھن جلا کر زندہ رکھنا پڑتا ھے. اس میں بھی ہر انسان کی اپنی Capacity ھے کہ کہاں تک اور کب تک ایندھن مہیا کر پاتا ھے. ہر انسان کی صلاحیتیں فرق ھوتی ھیں. خواہ وہ صلاحیت خود جلنے کی ھو، یا اپنے لئے کسی دوسرے کو جلتا دیکھتے رہنے کی ھو.

0 comments:

شارٹ ٹرم محبت

12:07 AM 0 Comments

محبت دلچسپ کتابی موضوع ھے. لیکن کتابوں سے اگر نکلیں تو رشتوں کے سیمنٹ میں محبت پانی کی مانند ھوتی ھے. جو خشک ھو کر ختم ھو جانے پر بھی سیمنٹ کو اسکی مضبوطی کھونے نہیں دیتی،

محبت کی بہت سی اقسام میں سے ایک ھے شارٹ ٹرم محبت . یہ ان لوگوں کو ھوتی ھے جو اظھار محبت ہی کو محبت سمجھتے ھیں ان کے نزدیک لفظی اظہار کر دینے سے محبت کی شروعات ھو جاتی ھے مگر پھر وہ خود ہی اپنے کہے لفظوں کو سنبھال نہیں پاتے. اپنی کہی باتوں کو کسی میّت کی مانند سہارا دینے کو خود لڑکھڑا کر کبھی اِدھر گرتے ھیں تو کبھی اُدھر. ان کے موم سے بنے دل جو کبھی  ہلکی سی آنچ پر پگھل گئے تھے، ذرا سی ٹھنڈک پر فورا جم بھی جاتے ھیں

--
اکتوبر 2013

0 comments:

خلوص

1:17 AM 1 Comments

ھم لاتعداد مرتبہ یہ لفظ استعمال کرتے ہیں. آج میں "خلوص" کی ایک مختلف تعریف پیش کرنے کی کوشش کرتا ہوں. احباب کی ملامت سہنے کے لئے پہلے سے تیار ہوں. سوچنے کی بات ھے کہ خلوص آخر ہوتا کیا ھے؟ مجھے لگتا ھے کہ خلوص ایک ایسے جذبے کا نام ھے، جو کسی بھی رشتے کے آغاز میں بےدریغ برتا جاتا ھے. اس کو پیار، محبت جیسے جذبوں کے ساتھ مکس کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے. ھر نیا رشتہ شروع میں انتہائی پرخلوص ہی ہوتا ھے. لیکن خلوص میں ایک فارمیلٹی ہوتی ھے، خوامخواہ کا پروٹوکول ہوتا ھے. خلوص رشتوں کو قید کرتا ھے، آزاد نہیں رھنے دیتا، رشتوں کو وزنی بناتا ھے، رشتوں کے پر کاٹ کے رکھتا ھے، خود کو اور دوسرے فریق کو بھی آزادانہ پرواز سے روکتا ھے. بے ساختگی سے روکتا ھے. خلوص کی عمر کم ہوتی ھے، لانگ ٹرم رشتوں میں فریںکنیس بڑھنے کے بعد خلوص غائب ھونا شروع ہو جاتا ھے، اور اس رشتے کی اصل ماہیت اور ہیئت نمودار ہونا شروع ہو جاتی ھے.

میاں بیوی کی مثال لے لیجئے، شادی کے کچھ سالوں بعد، جب رشتہ پروان چڑھ چکتا ھے. بہت سی سوشل بائنڈنگ بھی آ جاتی ھے بیچ میں. بچے بھی ہوتے ہیں درمیاں، ایک دوسرے کے بغیر رہنا ناممکن لگنے لگتا ھے، میاں بیوی ایک دوسرے کے لئے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں. لیکن تب دونوں کے بیچ خلوص کا پردہ نہیں رھتا. جس بات پر پیار آئے، بلا جھجھک پیار کا اظہار کرتے ہیں، جس بات پر غصہ آئے ، دل کھول کر غصہ بھی نکالا جاتا ھے. کیا نارمل حالات میں آپ نے آج تک کسی شوہر کو کہتے سنا کہ وہ اپنی بیوی سے بہت مخلص ھے (یہ کہنے کی ضرورت ہی نہیں ہوتی). یا کبھی کسی باپ یا ماں کو یہ کہنے کی ضرورت پیش آئی کہ وہ اپنی اولاد کیساتھ مخلص ہیں.

ھم اپنے جگری یاروں کے ساتھ کوئی فارمیلٹی نہیں برتتے، منہ پر بیستی، منہ پر عزت، اور کسی بھی بات پر بے ساختہ "yes" یا "no" کرتے ہیں، اسی کو ھم اچھی اور دیرپا دوستی سمجھتے ہیں. لیکن جن دوستوں کے ساتھ پرخلوص ہوں، ان کے ساتھ آپ ایسا جگری یاروں والا برتاؤ بھی نہیں کر سکتے.
 "
نرم آوازیں، بھلی باتیں، مہذب لہجے
پہلی بارش میں ہی یہ رنگ اتر جاتے ھیں
"

1 comments:

ادباء کے ذاتی کردار کی اہمیت

1:14 AM 0 Comments

شاعر اور ادیب حضرات ناچاھتے ہوئے بھی، اپنی تحریروں سے پڑھنے والے کے ذھن میں لاشعوری طور پر اپنا ایک مقدس خاکہ بنا جاتے ہیں. ان کی سوچوں سے بکھری خوشبو سے پڑھنے والوں کی زندگی کی فضا معطر ہوئی رہتی ھے. ہر کتاب کے پیچھے چھپی اس رائیٹر کی تصویر اس کی سوچوں کی عکاس بن کر پڑھنے والے کے دل پر نقش ہو جاتی ھے. 
 
مگر یہ بھی سچ ھے کہ جن ادباء کے اشعار و افکار ہم ذوق و شوق سے پڑھتے ہیں، ان کی سوچ کو پسند کرتے ہیں، ان کی حقیقی زندگی کو بھی ان کی تحریروں سے پرکھ کر آئیڈیلائز کرنا شروع کر دیتے ہیں. اور کیوں نہ کریں؟، جو شخص پوری قوم کو ایک درس دے رھا، یا قوم سے سوال کر رہا، یا اپنے الفاظ سے قوم کو جھنجھوڑنے کی کوشش کر رھا، اس کو خود بھی تو اپنے ذاتی کردار کا جواب دہ ضرور ہونا چاہئے. 
 
ابھی کل ہی عابی مکھنوی سے بات ہو رھی تھی کہ: "بہت برا ھے وہ آدمی جو لفظوں کے حقوق ادا نہیں کرتا"
 
تو انہی معتبر ھستیوں میں سے اکثر کے اصل مکروہ چہرے جب بے نقاب ہوتے ہیں، جب پتا چلتا ھے کہ کتابوں اور تحریروں میں اچھا اچھا چھاپ کر اپنی خود کی زندگی میں تو وہ اپنی تصنیفات سے ٹپکتی سوچ کی خود آپ ہی سب سے بڑی نفی ہیں...... تو ان کے ایک ایک لفظ، ان کی ہر ہر تحریر سے، ان کے ہر ہر شعر سے گھن آنے لگتی ھے، چاھے انکی تصنیفات علم و ادب کے تقاضوں کے مطابق کتنی ہی معیاری اور با وزن کیوں نہ ہوں. ان کی تصویر کی وقعت بھی شوبز کے کس مسخرے سے بڑھ کر نہیں رھتی.
 
بے اثر اور بااثر ادب کا فرق ہی وہاں سے شروع ھوتا ھے جناب، جب آپ کو لکھاری کے ذاتی کردار کا مطالعہ کرنے کا موقع ملے . مجھے اشفاق احمد کے لفظوں میں کیوں تاثیر محسوس ہوتی ھے، اور وصی شاہ مجھے ایک اداکار سے بڑھ کر کیوں محسوس نہیں ھوتا. اور فیس بک پر ادبی نوٹنکیاں کرنے والے تو بیشمار مل جاتے ہیں ..... خیر ہر بندے کی اپنی چوائس ھے، ہر شخص پر ادب کے اثرات بھی فرق ھیں. اکثر لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ ادب دھیرے دھیرے ہمارے معاشرے پر اپنی افادیت کیوں کھوتا جا رہا ھے. وجہ شائد اسکی یہ بھی ھے کہ الیکٹرانک و سوشل میڈیا اب عام عوام کو وقتا فوقتا ان کی آئیڈیل شخصیات کے اصل رنگ دکھاتا رہتا ھے.
 
قلم کا استعمال ایک طاقت ھے. اور کوئی بھی طاقت ملنے کے ساتھ ذمے داریاں بھی عائد ہوتی ہیں. اگر وہ ذمے داریاں پوری نہ کی جایئں گی تو کوئی شک نہیں کہ بہترین تخلیقی ادب کے بھی معاشرے پر بےاثر رھنے کا شکوہ سراسر بیکار ھے.

0 comments:

انٹرنیٹ پر دو طرح کے لوگ

1:18 AM 0 Comments

قلمی دوستی اور اب سوشل میڈیا پر میں نے دو طرح کے لوگ دیکھیے ہیں 

1 -
پہلی قسم: (جو اپنی موجودہ زندگی سے کچھ خاص مطمئن نہیں ہوتے.) ایسے لوگ انٹرنٹ پر زیادہ تر اپنا وہی روپ دکھانے کی کوشش کرتے ہیں جو ان کے دل میں اپنی خود کی آئیڈیل اور پسندیدہ شخصیت ہوتی ھے. لیکن پھر اسی ماڈل شخصیت پر حالات و واقعات کا wrapper بھی چڑھتا جاتا ھے. بہت زیادہ جھوٹ بھی نہیں بولا جا سکتا، اس لئے کچھ ادھورے سچ اور کچھ آدھے سچ بول کر ایک خاکہ سا پیش کیا جاتا ھے. جو عموما چاھے جانے کے لائق ہوتا ھے. ایسے لوگوں کی فرینڈ لسٹ عموما لمبی چوڑی ہوتی ھے. اور یہ انٹرنیٹ رابطوں میں حد درجہ پرسنالٹی کونشئیس ہوتے ہیں. فیس بک پر ان کی تمام تر کوششیں گھوم پھر کر اپنی عزت بیستی اور اپنے امپریشن سے متعلق ہوتی ہیں

2 -
دوسری قسم: (جو اپنی موجودہ زندگی سے نسبتا خوش ہوتے ہیں) دوسری طرح کے لوگ پوری کوشش میں لگے رھتے ہیں کہ فیس بک پر بھی اپنی اصل شخصیت کے ساتھ نمودار ہوں. ایسے لوگوں کی فریندلسٹ اکثر چھوٹی ہوتی ھے. یہ خود بھی دوستوں کے معاملے میں selective ہوتے ہیں. اور ان سے بھی کم لوگ ہی دوستی کرنا پسند کرتے ہیں، اور یہ اسی میں مطمئن بھی رھتے ہیں. اصل اور حقیقی نظر آنے کے چکر میں اکثر لوگوں کو ناراض بھی کرتے رھتے ہیں. ان کو فیس بک پر اکثر نہ اپنی عزت کا خیال ہوتا ھے نہ دوسروں کی. یہ عموما بدتمیز مشھور ہوتے ہیں، اور حقیقی زندگی میں بھی اکثر معاملات میں باغیانہ سوچ رکھتے ہیں. اور خوامخواہ اپنی ذاتی زندگی کو انٹرنیٹ پر زیر_بحث نہیں لاتے

0 comments:

"گداگر" - افسانہ

1:33 AM 0 Comments

قرطبہ روڈ پر پچھلے دو دن کی طرح، آج بھی وہ اپنی اس جگہ پر دکھائی نہیں دے رھی تھی، اور اس کے بغیر فٹ پاتھ کا وہ حصہ جیسے خالی خالی محسوس ہو رہا تھا____ وہ پچھلے دو دن سے غائب تھی ___ کہاں چلی گئی وہ؟ روز کی طرح اپنے ہاتھ پھیلائے اور ادھ کھلے منہ کے ساتھ آسمان کی طرف چہرہ کئے وہ بڑھیا آج بھی اپنی جگہ سے غائب کیوں تھی؟___  تیزی سے سگریٹ کے کش لگاتے ہوئے باسط نے آج تیسرے روز بھی اس بھکارن کی کمی کو سرسری سا محسوس کیا، لیکن اسکے پاس وقت زیادہ نہیں تھا، اسے جلدی سے گھر پہنچنا تھا، اس کی بیوی رابعہ کا اصرار تھا کہ آج باسط اپنی تمام ضد چھوڑ کے ہر حال میں اسکے ساتھ ڈاکٹر کے کلینک پر ضرور چلے گا. آج اک بار پھر، وہ لنچ میں کچھ بھی نہ کھانے کے باوجود، پیٹ میں ہلکا سا درد اور طبعیت میں نکاھت سی محسوس کر رھا تھا . سگریٹ کے آخری کش بھرتے ہوئے اس نے سگریٹ کا باقی ماندہ ٹکڑا ڈیش بورڈ پر رکھی ایش ٹرے کی جانب اچھال دیا. دونوں ہاتھ سٹیرنگ پر جمائے  اور پاؤں ایکسلریٹر پر رکھے وہ ٹریفک سے الجھتا ہوا گھر کی جانب رواں دواں تھا. انجانے میں، آفس کی تمامتر حشر سامانیوں اور اپنے گھر پر حالیہ دنوں میں چلنے والی بے تکی بحث و تکرار پہ مبنی ٹینشن زدہ فلم کے بیچوں بیچ لمحے بھر کو اک بار پھر پچھلی سڑک کی نکڑ پر روزانہ دفتر سے واپسی پر پائی جانے والی اس بڑھیا کے خیال نے اسے آ لیا___ وہ آج ادھر کیوں نہیں تھی؟____کہیں مر تو نہیں گئی بیچاری؟__ پاگل بڑھیا !! مرنا ہی تھا، آخر شدید سردی میں بھی باریک کپڑوں میں ادھر ہی بیٹھی رہتی تھی ____ کیا بھیک مانگنے کے لئے ضروری ھے کہ اپنی جان پر ضرور ہی ظلم کیا جائے؟____ لیکن میں کیوں اس کو سوچ رھا ھوں؟؟___ میں نے تو آج تک اس کو دیکھ کر نہ اپنی گاڑی کبھی روکی اور نہ ہی ایک روپیہ تک اس کو کبھی بھیک میں دیا، تو پھر اسکا اتنا احساس کیوں؟___  میں جب خود ہی پریکٹیکل نہیں ھوں تو پھر مجھے کیوں ہمہ وقت محض نظریاتی طور پر اچھا بننے اور  اچھا سوچنے کا شوق رھتا ھے؟__ میں اتنا فیک کیوں ھوں؟___ کیا واقعی میری سوچ اور فعل میں تضاد ھے؟__ آج تو میرے دفتر کے ایک کولیگ نے بھی سیاست پر ہونے والی بحث کے دوران مجھے یہی بات کہہ دی ____ کیا واقعی میرے ساتھ کوئی مسئلہ ھے؟___ شائد رابعہ ٹھیک ہی کہتی ھے میرے بارے میں___وہ بھی پتا نہیں کیا کیا سوچتی ہو گی ___ شادی کو ایک سال ہونے کو آیا، اور ابھی بھی ہم خوشی کی اس خبر سے محروم ھیں، جس کی خواہش ہر نوبیاہتا جوڑے کو ہوتی ہے __ بڑھیا کے بارے میں سوچتے سوچتے اک بار پھر اس کا ذہن اپنی ہی ذات، اپنے گھر اور اپنے آفس کے خیالات کی نذر ہو گیا.

ڈاکٹر منصور رشتے میں باسط کے دور کے اک عزیز اور بزرگ ڈاکٹر تھے، اور آج ان کے کلینک پر ضرورت سے کچھ زیادہ ہی رش تھا، مگر رابعہ  نے چونکہ اپوائنٹمنٹ لے رکھی تھی لہٰذا زیادہ انتظار کی زحمت نہ اٹھانا پڑی.____ باسط میاں ! جتنا ایزی تم لے رہے ہو ،تمہارا معاملا اتنا آسان ہرگز نہیں ہے. ڈاکٹر منصور نے باسط کی میڈیکل رپورٹس کا بغور جائزہ لیتے ہوئے، چشمہ ناک کی نوک پر ٹکائے اور چشمے کے عقب سے آنکھیں باسط پرجماتے ہوئے کہا ____ جیسا کہ تم نے بتایا کہ شادی سے ایک سال پہلے بھی تمھیں معدہ کی تکلیف کا مسئلہ درپیش رھا ___ تب بھی تم نے کاہلی اور لاابالی پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے کوئی مناسب علاج معالجہ نہیں کرایا، تب تو وہ تکلیف کسی نہ کسی طرح خود بخود رفع ہو گئی تھی، لیکن اب کی بار جب تکلیف حد سے بڑھ گئی ہے، تب تم اتنے دن بعد میرے پاس آ رہے ھو. نہ تم اپنی خوراک کا کوئی مناسب خیال رکھتے ھو، اور جیسا کہ رابعہ بھی بتا رہی ہے کہ باہر کے کھانے کثرت سے کھا کھا کر تم نے اپنا یہ حال کر لیا ہے____ تمھیں یہ لائف اسٹائل بدلنا ہو گا میرے بھائی ___ تم خود اپنے آپ سے دشمنی کر رہے ہو . منصور صاھب کی سرزنش کے جواب میں باسط صرف 'ہوں ہاں' اور 'جی جی' کے علاوہ کچھ نہ بول سکا.

ڈاکٹر منصور نے دوائیاں اور ڈھیر سا پرہیز کاغذ پر لکھ دیا، اور واپسی کے سفر میں رابعہ اس کاغذ کو لے کر بہت پر عزم دکھائی دے رہی تھی، جیسے اسے کرنے کو کوئی پراجیکٹ مل گیا ہو. باسط کے دماغ میں البتہ کچھ اور ہی چل رہا تھا ____ آخر ڈاکٹر منصور نے مجھے "لاابالی" کا خطاب کیوں دے ڈالا؟___ وہ آخر جانتے ہی کیا ہیں میرے بارے میں؟___کم از کم رابعہ کے سامنے ان کو یوں بات نہیں کرنی چاہئے تھی____ شادی کو ابھی کچھ ہی تو عرصہ ہوا ھے، اور پہلے ہی میرے بارے میں رابعہ کی رائے شاید کچھ اتنی اچھی نہیں بن رہی._____ اس کو پہلے ہی میری اکثر باتوں سے اعتراض رہتا ہے، وہ مجھے  غیر ذمے دار سمجھتی ہے، اب تو ڈاکٹر صاحب کی سند بھی حاصل ہو گئی اسے. ___ لیکن ___ کیا سچ یہی نہیں کہ میں واقعی اک لاابالی سوچ کا مالک انسان ھوں؟___ میں ھوں تو اک غیر ذمے دار شخص ہی ___ وہ انہی سوچوں میں گم تھا اور بے اختیار اس کا ہاتھ ڈیش بورڈ پر رکھے سگریٹ کے پیکٹ کی جانب بڑھا ہی تھا کہ رابعہ نے فورا ہاتھ بڑھا کر وہ پیکٹ پہلے ہی اٹھا لیا ____ آپ آج سے سگریٹ بالکل نہیں پئیں گے._____ پل بھر کو سڑک سے نظریں ہٹا کر اس  نے خفت بھری نظروں سے رابعہ کو دیکھا ___لیکن آخر کیوں ؟؟____ یہ اچانک سگریٹ پر غصہ کیوں؟؟ ٹریفک زیادہ تھی اسے فورا اپنی توجہ واپس سڑک کی جانب مبذول کرنا پڑی. بس آپ نہیں پئیں گے سگریٹ___یہ بھی آپ کی بیماری کی ایک جڑ ھے___ جب دیکھو سگریٹ پھونکتے رھتے ھیں ___ آپ کو کیوں سمجھ نہیں آتی کہ اب آپ اکیلے نہیں ہیں، آپ پر اب اپنے علاوہ بھی کسی کی ذمے داری ھے___کل کو ہمارے بچے ھوں گے ___کیا اثر لیں گے وہ آپ سے؟ رابعہ نے پیکٹ کو دوسرے ہاتھ میں پکڑتے ہوئے دروازہ کی جانب کر کے سگریٹ کا پیکٹ باسط کی پہنچ سے دور کر دیا. باسط  نے بچوں کی طرح بلبلاتے ہوئے کہا، اچھا آج آخری بار تو پینے دو ____ کل سے نہیں پیوں گا.... مگر رابعہ بضد تھی ___ نہیں آج بھی نہیں، اور کبھی بھی نہیں___ یہ کہتے ہوئے اس نے سگریٹ کا پیکٹ دروازے کے شیشے سے باہر سڑک پر پھینک دیا. اس پر باسط چلا اٹھا___ اف یہ بیویاں!! شادی کو ایک سال ہوا نہیں، اور ان کی من مانیاں شروع ___ نکاح کر کے گویا مالک ہی بن بیٹھتی ہیں ___ایک تو پہلے ہی میری طبعیت ٹھیک نہیں ، اس پر تمہارے لیکچر بھی سنوں ___ اس کے بلند ہوتے لہجے کی درشتگی کو جیسے گاڑی کے دروازوں اور شیشوں تک نے محسوس کیا، باہر رواں ٹریفک کے باوجود، دم بھر کو گاڑی میں اک سناٹا سا طاری ہو گیا____کچھ دیر کو دونوں کے بیچ کوئی بات نہ ہوئی. دونوں ہی اپنی اپنی حرکت پر کچھ نادم تھے، کوئی بات کرنا چاہتے تھے، لیکن کر نہیں پا رھے تھے. باسط کو غلطی کا احساس تو فورا ہی ہو چکا تھا، مگر کچھ دیر کو اسے بھی اپنی مردانہ برتری قائم رکھنے کی لئے خاموش ہی رھنا پڑا. ____ کیا یار!!! __اب___ میں کیا بات کروں اس سے ____شادی کے بعد کیا کیا ارمان لئے دلہن پیا کے گھر آتی ہے____ میں نے آج تک کیا ہی کیا ہے اس کے لئے؟___ بچے بھی تو نہیں ہیں، جن سے دل بہلا سکے___سارا دن گھر پر میرا انتظار، کیا صرف اس لئے کہ میں شام  کو آؤں اور جھگڑا کر کے اس کا موڈ خراب کر دوں؟__وہ اب رابعہ سے بات کرنا چاہ رھا تھا، لیکن کوئی ڈھنگ کی بات ذھن میں نہیں آ رہی تھی___اتفاق سے گاڑی قرطبہ روڈ سے گزارتے ہوئے، باسط کو جانے کیا خیال آیا اور اس نے سڑک کے خالی فٹ پاتھ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے رابعہ سے کہا، ____تمھیں پتا ھے کہ وہاں فٹ پاتھ پر اس جگہ ایک بڑھیا روز آفس سے واپسی پر مجھے بیٹھی نظر آتی تھی___ رابعہ نے بھی ارادتا اس موضوع میں اپنی دلچسپی ظاہر کرتے ہوئے فٹ پاتھ کی طرف دیکھا. ___اچھا پھر؟؟___آپ یقینا اس کو خیرات وغیرہ دیتے ھوں گے؟___ باسط شاید اس سوال  کے لئے تیار نہیں تھا____ نہیں خیرات تو میں نہیں دیتا لیکن !!! وہ روز ادھر بیٹھتی ھے اور میں نے اس بات کو کبھی اھمیت نہیں دی تھی، لیکن پچھلے کچھ دنوں سے وہ ادھر نظر نہیں آ رھی ____ عجیب عورت تھی وہ، کبھی بولتے نہیں دیکھا اس کو، بس منہ کھولے سر آسمان کی طرف کئے بیٹھی رہتی تھی ___ تمام سردیوں میں، حتی کہ شدید دھند بھری شاموں میں بھی ادھر بیٹھی ہوتی تھی، اور سردی سے بچاؤ کا کوئی مناسب انتظام کئے بغیر____اور ___ اور کچھ دن ہوئے وہ غائب ھے___  شاید اس نے بھیک کے لئے اپنی جگہ بدل لی ھو، شاید کسی اور سڑک پر بیٹھنے لگی ھے جہاں زیادہ پیسے مل جاتے ھوں ____ لیکن !!! شاید وہ مر گئی ھے___ پتا نہیں اس کا کوئی خاندان بھی ھے یا نہیں؟___ بچے بھی شاید ھوں گے اسکے !!! باسط انجانے میں پتا نہیں کیا کیا بول رھا تھا، اور باسط کے ان خیالات کو جان کر رابعہ دم بخود اپنے شوہر کو یوں دیکھ رہی تھی جیسے کوئی ماہر_نفسیات مزید اک اور نئی بیماری کے ادراک پر اپنے پاگل مریض کو دیکھتا ھے. وہ کافی کچھ کہنا چاہتی تھی مگر صرف اتنا ہی بول پائی __آپ کو اگر اب وہ بڑھیا ملے تو ضرور اس کی جھولی میں کچھ روپے ڈال دینا،___کیا پتا اسی کی دعا ھمارے لئے کام کر جائے.


باسط صاحب ! آپ اپنا زیادہ سے زیادہ صدقہ کیا کریں، صدقہ بلاؤں کو ٹال دیتا ہے _____ اگلے دن اسکے کولیگ اعجاز نے اچانک اسکی توجہ اپنی طرف مبذول کرالی. اعجاز جو کچھ دنوں سے باسط کی صحت کو لے کر پیدا ہونے والی پریشانیوں کو پڑھ رہا تھا، جب اعجاز کے استفسار پر باسط نے اسکو اپنی حالیہ پریشانیوں کی کچھ تفصیل بتائی تو اعجاز نے اپنے تئیں باسط سے یہ صدقہ والی بات شروع کر ڈالی ____ پہلے تو باسط سے کوئی جواب نہ بن پڑا، پھر گویا ہوا ____ نہیں اعجاز بھائی، آپ غلط سمجھ رھے ہیں، میں تو اکثر چیریٹی وغیرہ کرتا رہتا ھوں، زکوات بھی ہر سال باقائدگی سے ادا کرتا ہوں.____ اس پر اعجاز نے اپنی بات کی مزید وضاحت کر ڈالی ____ لیکن باسط صاحب! صدقہ کے لئے صدقہ کی نیت بہت ضروری ہے. میں آپ کو ایک بات بتاؤں، میں نے بزرگوں سے سنا ہے کہ اللہ کے نزدیک یہ روز کچھ نہ کچھ صدقہ کرنے کا ایک انداز انتہائی پسندیدہ ہے. آپ چاہے روز پانچ ، دس روپے ہی صدقہ کی نیت سے کسی ضرورت مند کو دے دیں، الله اس سے بہت خوش ہوتا ھے اور یہ روز مرہ میں آنے والی مصیبتیں ٹل جاتی ہیں.____ ؛لیکن اعجاز صاحب! اگر پیسے دینے ہی ہیں تو بندہ کسی مستحق شخص کو دے، یہ دس پندرہ روپے پیشہ وارانہ بھکاریوں پر وار دینے سے تو کوئی فائدہ نہیں. اعجاز بھی جیسے اس دن باسط کو قائل کرنے کے مکمل موڈ میں تھا، کہنے لگا ____ یہ مت دیکھئے کہ کوئی مستحق ھے یا نہیں__ظاہر ھے جو مانگ رہا ھے وہ ضرورت مند تو ضرور ہی ھے ___ باقی نیتوں کے حال تو اللہ ہی جانتا ھے، ھم آخر کون ھوتے ہیں دوسروں کی نیتیں ٹٹولنے والے___ آپ بس اپنی طرف سے صدقہ کی نیت کر کے کسی بھی فقیر مسکین کو کچھ روپے دے دیا کریں. آپ کو آپ کی نیت کا اجر مل جائے گا. جواب میں باسط صرف یہی کہہ سکا ___  بیشک اعجاز بھائی!! بالکل درست فرمایا آپ نے.


یہ آخر آجکل ہو کیا رہا ھے؟___ ہر کوئی مجھے لیکچر ہی دینے بیٹھ جاتا ھے ___ میں کیا کوئی چھوٹا بچہ ھوں، جسے یہ صدقہ و خیرات کی باتیں پتا نہ ھوں؟____ لیکن اعجاز نے بات تو ٹھیک ہی کی ____ اس نے کچھ غلط تو نہیں کہا_____ اور میں نے بھی تو اس سے جھوٹ ہی بولا کہ میں چیریٹی کرتا رھتا ھوں____ مجھے نہیں یاد کب آخری بار میں نے کسی مستحق کی پیسوں سے امداد کی ہو____ میں نے تو پچھلے سالوں میں صرف اپنا بینک بیلنس بڑھایا ھے___ لیکن کیا میرا بینک بیلنس بڑھنے سے مجھے ہی کوئی فائدہ ہوا؟؟ بے دھیانی میں گاڑی چلاتے چلاتے اس کی نظر فٹ پاتھ پر بیٹھی بڑھیا پر پڑی جو آج واپس اپنی پہلی والی جگہ پر موجود تھی، اسی انداز سے بند آنکھوں کے  ساتھ آسمان کی طرف منہ کئے ہوئے   ____ پتا نہیں کیوں باسط کو پہلی بار اسے دیکھ کر اک خوشی کا احساس ھوا. لیکن یہ کیا __ بڑھیا کے سر پر ایک سفید پٹی بندھی ہوئی تھی، جس پر کچھ لال پیلی دوائی کا نشان واضح نظر آ رہا تھا.___مزید غور کرنے پر اسکے ہاتھ __ اور پاؤں پر بھی ایسی ہی کچھ پٹیاں بندھی ہوئی نظر آئیں، باسط کو یہ سمجھنے میں ایک لمحہ بھی درکار نہیں تھا کہ بڑھیا کچھ دن ادھر فٹ پاتھ پر موجود کیوں نہیں تھی؟ یقینا کسی گاڑی نے اس کو روندھ ڈالا تھا. اور وہ پتا نہیں کس حال میں رھی، کہاں رہی اتنے دن. باسط کو احساس بھی نہیں ھوا کہ کب اس نے بریک لگا کر گاڑی سڑک کے کنارے کھڑی کر لی تھی. کیا مجھے اس بڑھیا کے پاس جانا چاھئے؟ ____ کیوں؟ ___ میں نے تو آج تک اس طبقہ کےلوگوں سے کبھی سلام تک نہیں لیا. میں کیسے اور کیا بات کروں گا________اف!! کیا میں اک  طبقاتی امتیازات کا شکار انسان ہوں؟ اور مجھ میں یہ چیز کب سے موجود ھے؟ ___میں تو دوستوں کی محافل میں بڑھ چڑھ کر تبدیلی اور انقلاب کی باتیں کیا کرتا ھوں____ باسط  نے پھر ایک نظر بڑھیا کو دیکھا، وہ وہیں اپنی جگہ کسی کی بھی موجودگی سے بے نیاز، خاموش اور ساکت بیٹھی تھی، بڑھیا کے سر پر بندھی پٹی اور خاموشی باسط کا سکون غارت کر رہی تھی، باسط نے دونوں بانہیں اور سر، کار کے سٹیرنگ پر دھر دیے____ ایک سلو موشن ویڈیو فلم اس کے سر میں چل رہی تھی ____ ڈاکٹر منصور اپنا موٹے شیشوں والا چشمہ پہنے ہوئے، رابعہ ہاتھ میں سگریٹ کا پیکٹ پکڑے  ہوئے، اور اعجاز کی آواز ان دونوں کے عقب سےگونجتی ہوئی____ھم آخر ھوتے کون ہیں دوسروں کی نیتیں ٹٹولنے والے؟؟_____تمھیں بدلنا ھو گا اپنا لائف سٹائل____ تم پہلے ہی بہت دیر کر چکے____ ___ھمارے ہونے والے بچے کیا اثر لیں گے آپ سے؟___ ___آپ کو اگر اب وہ بڑھیا ملے تو ضرور اس کی جھولی میں کچھ روپے ڈال دینا،___کیا پتا اسی کی دعا ھمارے لئے کام کر جائے ____اور___ صدقہ بلاؤں کو ٹال دیتا ہے

وہ بے اختیار اٹھا اور گاڑی کا دروازہ کھول کر فٹ پاتھ پر پچھلی جانب بیٹھی بڑھیا کی طرف بڑھا. فٹ پاتھ کی مخالف سمت  سے پینٹ شرٹ میں ملبوس ایک بیس بائیس سال کا لڑکا بھی ایک ہاتھ میں کتابیں پکڑے اور دوسرے ہاتھ میں بیساکھی تھامے لنگڑاتا ہوا اسی طرف کو آ رھا تھا. باسط کو اپنا ایک ایک قدم ایک ایک من کا لگ رہا تھا. سڑک پر موجود ٹریفک کا شور پتا نہیں کہاں دب چکا تھا، اور ذھن میں دھماکوں کے ساتھ اعجاز کی یہ آواز بار بار گونج رہی تھی ____ جو مانگ رہا ھے وہ ضرورت مند ہی تو ھے____اور نیتوں کے حال تو الله ہی جانتا ھے ___ اس کا ہاتھ بے اختیار اپنی جیب کی طرف بڑھ رھا تھا، کچھ ہی لمحوں میں، ایک بیس روپے کا نوٹ اس کے ہاتھ میں تھا ____ میں کیا بات کروں بوڑھی عورت سے____ ایسی عورتوں کو کیا کہہ کر مخاطب کیا جاتا ہے ؟؟ اگر میں نے اسے کچھ بولا، تو وہ کیا سمجھے گی؟ کیا مطلب لے گی. اسی اثنا میں وہ بڑھیا کے بالکل سامنے جا پہنچا ____ وہ کوئی بات کرنا چاھتا تھا، کچھ پوچھنا چاھتا تھا، لیکن دوسری جانب سے بیساکھی کے سہارے چلتا ھوا لڑکا بھی عین اسی وقت وہیں پہنچ چکا تھا، بلکہ قریب پہنچ کر وہ رک بھی گیا.  باسط شاید اس لڑکے کی آمد کی وجہ سے کچھ بول نہ پایا، اچانک باسط کا موبائل فون بجنے لگا. بیساکھی والے لڑکے کی آمد اور پھر موبائل فون پر آنے والی کال کی وجہ سے اس نے جلدی میں چپ چاپ بیس روپے کا نوٹ بڑھیا کے سامنے دھری تھالی میں رکھ دیا. بڑھیا کچھ بھی بولے بغیر اسی طرح آسمان کی طرف منہ کئے بیٹھی رہی.  اسی اثنا میں اس بیساکھی والے لڑکے نے بھی اپنی مٹھی میں پکڑا ہوا اک بیس روپے کا نوٹ بڑھیا کی تھالی کی طرف بڑھایا اور بولا.___ 'یہ لے اماں'___ اس لڑکے کے منہ سے 'اماں' کا لفظ سن کر باسط کو یوں لگا جیسے کسی  نے اسکو اٹھا کر زمین پر پٹخ دیا ہو. کچھ بھی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے عاری باسط، واپس اپنی گاڑی کی طرف آنے کی بجائے اسی فٹ پاتھ پر مخالف سمت چلںا شروع ہو گیا..... موبائل فون مسلسل بج رہا تھا، بے دھیانی میں اس نے کال اٹینڈ کر لی، فون کان سے لگا کر خوابناک سی آواز اسکے منہ سے نکلی___ 'ہیلو'_____ دوسری جانب سے خلاف معمول رابعہ کی مسکراتی ہوئی آواز سنائی دی ____ باسط !! میری طبیعت ٹھیک نہیں ھے جلدی گھر آئیے

- خرّم امتیاز -

0 comments:

والد اور بیٹے کی دوستی

12:38 AM 0 Comments

 میں آپکو سچ بتاؤں .... جنریشن گیپ اچھی چیز ھے ... اور میں اس کا حامی ھوں. اس کو جتنا مرضیکنٹرول یا کم کرنے کی کوشش کر لیں یہ ختم نہیں ھو سکتا. اور ہونا چاہئے بھی نہیں.

اگر والد اپنے بیٹے کے ساتھ فرینڈلی نہیں یا اس کی بات نہیں سمجھتا تو یہ بیٹے کی ناکامی کی ذمے داری گردانی نہیں جا سکتی. دوسری طرف اگر والد بیٹے کے ساتھ فرینڈلی ھے ، تو بھی یہ بیٹے کی کامیاب زندگی کیلئے ہرگز کوئی ضمانت نہیں.


آگر دونوں میں دوستی نہیں تو اس میں نہ تو والد کا قصور ھوتا ھے اور نہ ہی بیٹے کا. بلکہ کبھی حالات اور کبھی کبھی جنریشن گیپ کا قصور ھوتا ھے جس کے باعث دونوں زیادہ قریب نہیں آ پاتے.  

 
گیپ کی وجہ ... جذبات کا فرق، تجربات کا فرق، کمیونیکشن کی کمی، الفاظ کا غلط چناؤ، حتی کے آواز کا اتار چڑھاو، تعلیم کا فرق، شعور اور آگہی کا فرق (ضروری نہیں نئی نسل میں زیادہ شعور ھو، اکثر معاملا الٹ ھوتا ھے)
اور کبھی کبھی معاشی عدم استحکام بہت سی شکایات پیدا کر دیتا ھے جس کے باعث اولاد کو بہت سی شکایات پیدا ھو جاتی ھیں.
 سبھی والد لطیف شخصیت کے حامل نہیں ہوتے. سب مختلف پرسنالٹی رکھتے ھیں. اور کچھ چیزیں بہت کوشش کے باوجود بھی کسی کسی مرد کی طبیعت کا حصہ نہیں بن پاتیں.

(1) پیار (2) تربیت (3) احترام ، (4) رعب و دبدبہ اور (5) ڈر .... ان پانچوں چیزوں میں بارڈر لائن بہت باریک ھوتی ھے. بہت سنبھالو تب بھی رویوں کے معمولی اتار چڑھاؤ سے ان تینوں میں سے کوئی ایک چیز باپ بیٹے کے رشتے میں غالب آ جاتی ھے . یہ سب اتنی آسانی سے کنٹرول نہیں کیا جا سکتا.


 کچھ کیسز میں بیٹے کو باپ سے دور کرنے میں ماں کا بھی کردار ہوتا ھے. عموما باپ کو ماں کی طرح پروپیگنڈہ نہیں کرنا آتا .... باپ ماں کی طرح چونچلے اور ناز نہیں اٹھاتا. ..... جس کو ماں پیار پیار میں منفی پورٹرے کرنے میں کامیاب ھو جاتی ھے
بچہ غلطی کرے تو ماں سارا دن اسے باپ سے ڈراتی ھے .. کہ "آ لینے دو تمہارے ابو کو ... آج تمہاری خیر نہیں" ..... بچہ سارا دن باپ کے خوف سے کانپتا ھے ..... شام کو باپ آتا ھے ... ماں یوں شکایت لگاتی ھے جیسے بچے کی وکیل ھو ...... باپ کو غصہ آ جائے تو ماں آگے بڑھ کر بچے کو بچاتی بھی ھے، "چلئے جانے بھی دیں ... ابھی بچہ ہی تو ھے" ........................ یہ صرف ایک مثال ھے ... ایسی ہی بہت سے دوسری مادرانہ شفقت سے بھرپور حرکات سے ماں لاشعوری طور پر بچے کو باپ سے دور کرنے کا باعث بنتی ھے

  
جن والدین کی اولاد ان کے ساتھ بے تکلف اور اطاعت گزار ھے. ان دونوں کو اللہ کا شکر ادا کرنا چاہئے. یہ اچھے اعمال اور دعاؤں کا نتیجہ زیادہ ھے . میں اس سلسلے میں باپ یا بیٹے کو کریڈٹ نہیں دے سکتا. کیونکہ میں نے ایسے آئیڈیل باپ بھی دیکھے ھیں جن کی اولاد نے انکو جوتے کی نوک پر رکھ کر نافرمانیاں کیں. اور ایسے نامعقول باپ بھی دیکھے جن کی ھزارہا غلطیوں اور خراب ماحول فراہم کرنے کے کے باوجود بھی انکی اولاد فرمانبردار تھی

0 comments:

پاکستانی بیویوں کے ٹاپ 5 سوالات

1:31 AM 0 Comments

(صرف مردوں کے لئے)
---------------------------


بیچارے شوھر کی زندگی اتنی آسان ھرگز نہیں ہوتی، جتنی نظر آتی ھے. کیونکہ ازدواجی زندگی کے پرپیچ سفر میں صرف اور صرف جذبات سے کام نہیں چلتا، بلکہ اپنے معاشی، سوشل اور پروفیشنل سٹیٹس سے بالا تر ہو کر کس طرح، ہر اک شوھر کو روزانہ کی بنیاد پر نفسیات اور مشاھدات سے سیکھنے کے اک ارتقائی عمل سے گزرنا پڑتا ھے. اور کس طرح ھر شوھر کو اپنے تئیں جینئس بنتے ہوئے روزانہ ہی کی بنیاد پر انتہائی ہوشیاری اور چالاکی سے کن کن چیلنجز سے نبرد آزما ہونا پڑتا ھے، یہ تو کوئی شادی شدہ حضرات ہی سے دریافت کرے

ھمارے کنوارے دوستوں سے جب شادی شدہ زندگی کے مسائل کی لسٹ دریافت کی جاتی ھے تو اکثر کے خیال میں شادی شدہ شخص کے گھمبیر ترین مسائل میں بیوی کو آئے دن شاپنگ پر لے جانا، اس کی من مانی خواہشات پر اخراجات، اس کو میکے چھوڑ کر آنا اور میکے سے واپس بھی لے کر آنا، بیوی کے رشتے داروں کے سامنے اپنے موڈ اور شخصیت کے برخلاف ایکٹنگ کرتے ہوئے انتہائی حسن_سلوک سے پیش آنا، بچوں سے متعلقہ ڈھیروں ذمے داریاں اور ایسے ہی کچھ دیگر مسائل شامل ہیں

لیکن آج ہم اپنے ان کنوارے دوستوں کی سوچ پر پانی پھیرنے جا رہے ہیں، انہیں یہ بتا کر کہ جناب! مرد اتنا کمزور ہرگز نہیں ہوتا کہ اسقدر باآسانی تندہی_باد_مخالف سے گھبرا جائے. بیشک ان مندرجہ بالا مسائل کی حقیقت سے انکار ممکن نہیں، اور وہ سب کام تو شوھر حضرات ہنسی خوشی کر لیتے ہیں. اور ان مسائل کی شدت تو اصل میں اس تشویش، اس کوفت اور ان ناگہانی کیفیات کے سامنے کچھ بھی نہیں جو بیوی کی جانب سے شوھر کو وقتا فوقتا پوچھے جانے والے سوالات پر درپیش ہوتی ھیں. جی ہاں جناب !!! ہر بیوی کی طرف سے پوچھے جانے والے ایسے ان گنت سوالات ہیں جو سننے میں بہت عام فہم، آسان اور سادہ ترین لگتے ہیں. لیکن جو ناصرف شوھر حضرات کو بیک وقت تشویش، لاچارگی اور بیچارگی سے دو چار کر دیتے ہیں بلکہ ان کے متوقع غلط جوابات انکی آنے والے دنوں کی ازدواجی پریشانیوں کا سبب بھی بنتے ہیں 

انہی سوالات کو لے کر کچھ عرصہ پہلے اک سروے ہوا جس میں پاکستانی بیویوں کی جانب سے اپنے شوہروں سے پوچھے جانے والے ٹاپ فائیو سوالات اخذ کئے گئے. یہ سوالات شادی شدہ مردوں کے لئے بالکل بھی نئے نہیں، البتہ کنوارے بھائیوں کے لئے شائد مضحکہ خیز انکشافات سے کم نہ ہوں، اور خواتین کی جانب سے یہ شائد صرف تردید ہی کما سکیں. لیکن آئیے آج ہم ان سوالات کو جانتے ہیں اور ان سے پیدا ہونے والی متوقع صورتحال اور اس سے بچاؤ کی تدابیر پر غور و خوض فرماتے ہیں


-------------1------------------
پہلا سوال جو بیویوں کی جانب سے بکثرت پوچھا جاتا ھے وہ ھے: "آپ اس وقت کیا سوچ رھے ہیں؟" یہ فقرہ پل بھر میں ناصرف شوھر کو اس کے خیالات کی طلسماتی دنیا سے بیدار کر کے رکھ دیتا ھے، بلکہ اکثر وہ خود بھی سوچنے پر مجبور ہو جاتا ھے کہ آخر وہ ابھی سوچ کیا رہا تھا؟
حضرات! اس سوال کو آسان ہرگز مت سمجھئے. وہ دوست جو اپنی سادہ لوحی کے باعث اس سوال کا درست جواب دینے کی کوشش کرتے ہیں، اکثر نقصان اٹھاتے ہیں. آپ کے ذھن میں اس وقت کیا چل رھا ھے. یا آپ کی لمحہ بھر پہلے کی سوچ اور خیال کا ادراک آپ کی بیوی کو اگر ہو جائے تو یہ بات آپ کی سوچ سے بھی بہت نقصان دہ ہو سکتی ھے. اس لئے یا تو اپنے ذھن اور سوچ کو پاک صاف رکھئے یا پھر سوچ سمجھ کر کوئی سیاسی جواب دیجئے. ظاہر ھے آپکو سیاسی جواب والا کام ہی آسان لگ رھا ھو گا 
اکثر رومانٹک اور ناتجربہ کار شوھر اس سوال کا یہ سیاسی جواب تجویز کرتے ہیں. _____ "بیگم! میں تو ابھی تمہارے بارے میں ہی سوچ رھا تھا"____ ہماری ایکسپرٹ رائے کے مطابق یہ جواب کبھی نہیں دینا چاہئے. کیونکہ صرف انتہائی غیر حقیقت پسند بیویاں ہی اس جواب کو ہضم کر پاتی ھیں، اور وہ بھی صرف چند ایک بار. ورنہ بیشتر بیویاں آپ کے چہرے کے بدلتے رنگ اور بوکھلاہٹ ہی سے اصل جواب بھانپ لیتی ہیں. اکثر تو آپ کو بےخیالی میں مسکراتے دیکھ کر بھی بخوبی اندازہ لگا لیتی ہیں کہ آپ کم از کم اس نیک بخت کے بارے میں ھرگز نہیں سوچ رھے. مناسب جوابات یہ ہو سکتے ہیں کہ ____"بیگم ! میں سوچ رہا تھا، آج اپنی پتلون رات میں ہی استری کر کے سوؤں، صبح لوڈشیڈنگ کے باعث مجھے دفتر سے دیر بھی ہو سکتی ھے." _____ یا پھر یہ____ "میں سوچ رہا ہوں کہ کبھی کبھی بچوں کو اسکول کے لئے میں تیار کیا کروں" ____ ایک خوبصورت جواب یہ بھی ہو سکتا ھے___ "تمہاری امی اور بھائی کافی دن سے نہیں آئے..... سوچ رہا تھا کسی دن انکو اپنے ہاں کھانے پر بلا لیں."

خبردار اس موقع پر اپنے سیاسی جواب کو طول مت دیجئے اور نہ ہی کسی ایسے کام کا ارادہ کیجئے جس پر عمل بعد از وقت آپ پر فرض ہی ہو جائے. سو محض سوچ کا اظھار کافی ھے


-------------2------------------
دوسرا سوال جو ہر بیوی، ہر کچھ دن کے بعد اپنے شوھر سے پوچھتی ھے وہ ھے: "کیا آپ مجھ سے محبت کرتے ہیں؟" اگر آپ سوچ رھے ہیں کہ یہ تو انتہائی آسان سوال ھے جس کا جواب "ھاں" کے سوا اور کچھ ھو ہی نہیں سکتا، تو آپ سراسر غلط سوچ رھے ہیں. بیویوں کی ڈکشنری میں اس سوال کے جواب میں "ہاں" کا مطلب "نہ" ھے اور مان لیں اگر وہ اس "ہاں" کو "ہاں" بھی سمجھ لے تب بھی اس ایک "ہاں" سے اس کی تشفی ھرگز نہیں ہوتی
سب سے اھم پوائنٹ اس سوال کے بارے میں یہ ھے کہ اگر آپ نے اس سوال کا جواب دینے میں ذرا سی بھی دیر لگائی، آپ کچھ پل کے لئے بھی اگر خاموش رھے یا آپ نے کچھ سوچنے کی ایکٹنگ بھی کی تو سمجھو نمبر کٹ گئے اور بیوی نے ازخود نوٹس لیتے ہوئے آپ کا جواب نفی میں اخذ کر لینا ھے. نکتہ اسکا یہ ہو گا کہ اگر آپ محبت کرتے ہیں تو سوچنے کی ضرورت ہی کیوں پڑی؟ اس بات پر اچھی خاصی ناراضگی ہونے کا اندیشہ ہوتا ھے جسکا دورانیہ ہر شادی شدہ جوڑے کے لئے مختلف ہوتا ھے
ھماری ایکسپرٹ رائے کے مطابق اس سوال کے جواب میں فورا ماضی قریب کا کوئی بھی خوشگوار لیکن مختصر واقعہ سنا کر آخر میں یہ الفاظ جوڑے جائیں ___ " ....تو بیگم! اگر میں تم سے پیار نہ کرتا، تو بھلا یہ سب کیسے ممکن ہوتا"؟ وقت اور موڈ کو مد نظر رکھتے ہوئے واقعہ کو طول دیا جا سکتا ھے، ایک سے زیادہ واقعات بھی باور کرائے جا سکتے ھیں لیکن اپنی بات کو ڈرامائی انداز مت دیجئے گا ورنہ سب کچھ "فیک" کے زمرے میں آ کر ضائع ہونے کا احتمال ھے


-------------3------------------
تیسرا سوال: "اگر میں مر گئی تو آپ کیا کریں گے؟" یہ سوال اکثر اس وقت پوچھا جاتا ھے جب بیوی کو گھر پر کوئی دوسرا کام نہیں ہوتا. سو آپ یقینا سوچ رھے ہوں گے کہ اس مشکل سوال کا جواب بھی آپ کو بغیر عجلت کے سوچ سمجھ کر دینا ہو گا. یا آپ سوچ رھے ہیں کہ دوسری شادی کا ذکر نہیں کروں گا، اور بیگم کے گزر جانے کے بعد شوھر کے ساری زندگی تنہا گزارنے کا تصور آپکی شریک حیات کو تسکین بخشے گا، تو نہیں میرے بھائیو! نہیں. آپ تو ایک بار پھر غلط سوچ رھے. اس سوال کے جواب میں کچھ بھی سوچنا گناہ_کبیرہ ھے. ادھر آپ نے سوچنا شروع کیا ادھر نیک بخت کی آنکھیں نم، کہ آخر آپ نے تصور بھی کیسے کر لیا کہ آپ کے جیتے جی وہ نیک بخت اس دار_فانی سے کوچ فرما جایئں گی. دوسری شادی اور آپ کی تنہائ کا تصور تو بہت انہونی بات ھے ، مگر آپ یہ سوچ بھی کیسے سکتے ہیں کہ وہ مر جایئں گی؟ پڑھی لکھی یا فلسفیانہ سوچ رکھنے والی بیویاں آپ کی یہ سوچ جان کر اس نتیجے پر پہنچنے میں ایک منٹ بھی نہیں لگاتیں کہ آپ دل ہی دل میں ان کے مرنے کی آرزو رکھ کر جی رھے ہیں
ھماری ایکسپرٹ رائے کے مطابق اس سوال کا کوئی جواب ھے ہی نہیں، ہاں البتہ اس سوال کے نازل ہوتے ہی آپ کو تھوڑی سی جسمانی مشقت ضرور کرنا ہو گی. یعنی جیسے ہی یہ سوال بیگم کے منہ سے نازل ہو، فورا سے پہلے بازو بڑھا کر ان کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا جائے، پھر دوسرا ہاتھ ہولے سے انکے کندھے پر رکھتے ہوئے، آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر تھوڑی سی نمی آنکھوں میں لانے کی کوشش کریں اور گردن نفی میں ہلائیں، جسکا مطلب یہ ہوگا کہ یہ بات نہ تو کرنی ھے اور نہ ہی سوچنی ھے. اسے اپنے تاثرات سے ہی باور کروائیے کہ بیگم کے مرنے کا آپ تصور بھی نہیں کر سکتے، اور اسکے بغیر کی پہاڑ جیسی زندگی کو سوچ کر ہی آپ جذباتی ہو گئے ہیں. بیگم کے منہ پر ہاتھ رکھنا اس لئے بھی ضروری ھے تاکہ اس ضمن میں وہ مزید کوئی بات اگل ہی نہ سکے اور نہ آپ کو مزید جواب کے لئے پریشانی کا سامنا کرنا پڑے

-------------4------------------
چوتھا اور اھم ترین سوال: "کیا میں آپ کو موٹی لگتی ھوں؟". اس سوال کی سنجیدگی کا اندازہ ہر شادی شدہ شخص بخوبی لگا سکتا ھے. عموما یہ سوال اس وقت پوچھا جاتا ھے جب بیگم صاحبہ خوب رومانٹک موڈ میں ہوں، ویسے سوچا جائے تو اس سوال اور رومانس کا کوئی کونیکشن بنتا نہیں، لیکن بیویوں کی نفسیات کے مطابق وہ کسی بھی نیک مقصد سے پہلے اس مقصد کو ہی فوت کرنے کی پوری کوشش ضرور کرتی ہیں. اسلئے یہ سوال اس زمرے میں بالکل بامعنی تصور کیا جانا چاہئے.  تو جناب !! اس سوال کا کوئی بھی غلط جواب نہ صرف آپ کے قیمتی لمحات برباد کر سکتا ھے، بلکہ آئندہ کے لئے بھی ایک نیگیٹو سوچ آپ کے بارے میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے قائم کی جا سکتی ھے. یعنی اس جواب کا خمیازہ آپ کو تب تک بھگتنا پڑ سکتا ھے جب تک بیگم کی صحت واقعی کم نہیں ہوجاتی. یا آپ خود فربہ ہو کر اس ریس میں ان سے آگے نہیں نکل جاتے. 
ھماری ایکسپرٹ رائے کے مطابق بیویاں تمام تر حقیقت کا ادراک رکھتے ہوئے اس سوال کا کوئی حقیقت پسندانہ جواب سننا بالکل پسند نہیں کرتیں. تو آپ بھی حتی المقدور دوغلا پن اور ڈپلومیسی اپنے اوپر نازل کر کے اس سوال کا جواب دیں. مثال کے طور پر کچھ خوبصورت جواب مندرجہ ذیل ہیں  
"جھنجلا کر ) کیا یہ چیز رشتوں میں اھم ھوتی ھے؟)" 
"نہیں آپ ماشااللہ اچھی صحت کی مالک ہیں، __(سوچتے ہوئے)__ لیکن __ آپ کو موٹی ہرگز نہیں کہا جا سکتا"
"کوئی میری نظر سے دیکھے ہاں؟ مجھے تو کہیں سے موٹی نہیں لگتیں "
"آپ میری صحت بھی تو دیکھیں!! میں بھی کونسا شاہ رخ خان ہوں. رب نے جوڑی ہی ایسی بنائی ھے کہ ساتھ کھڑے جچتے ہیں دونوں، اور کیا چاہئے؟"
"غصے سے) کس نے کہا ھے کہ آپ موٹی ہیں، میں منہ توڑ دوں اسکا، مجھے کسی کے کمنٹ سے فرق نہیں پڑتا)"
"بہت لاڈ سے) تمھیں ایک دل کی بات بتاؤں، مجھے ہمیشہ ہی سے موٹی لڑکیاں پسند تھیں)"

-------------5------------------
پانچواں اور آخری سوال جس کے الفاظ مختلف سیچوویش میں مختلف ہو سکتے ہیں لیکن مدعا ایک ہی ھے. سوال یہ "ھے کہ "فنکشن میں وہ دوسری عورت کیسی لگ رہی تھی؟ یہ بہت گھمبیر سوال ھے. آپ کو رائے بھی دینی ھے اور یہ تاثر بھی نہیں دینا کہ آپ محفل میں دوسری خواتین پر نظریں جمائے بیٹھے رہتے ہیں. یاد رکھئے گا، کہ اس دوسری خاتون کا کسی بھی قسم کا مفصل تجزیہ آپ کو مشکلات سے دو چار کر سکتا ھے. اور اگر آپ کہیں گے کہ ___کون___کس کی یات کر رہی ہیں___یا __دیکھا ہی نہیں___ تو وہ بھی جھوٹ گردانا جائے گا.
بغیر توقف کے ہم ایک بار پھر اپنی ایکسپرٹ رائے سے آپ کو بتا دیں کہ ان پانچ سوالوں میں سے یہ وہ واحد سوال ھے جس کے جواب کے لئے آپ نے بالکل جلدی نہیں کرنی، یعنی کہ واقعی سوچنا ھے یا پھر سوچنے کی بھرپور ایکٹنگ کرنی ھے. اگر آپ نے دوسری عورت کے بارے میں فورا اپنی رائے پیش کرنا شروع کر ڈالی تو سمجھیں کہ آپ نے اپنی بیوی کے مردوں کے متعلق اس یونیورسل تاثر کو مضبوط کر ڈالا کہ "سب مرد ایک جیسے ہوتے ہیں". سو جواب میں بالکل جلدی نہیں کرنی
جواب کے آغاز میں، لمحہ بھر کو آپ رومانٹک انداز میں مسکراتے ہوئے یہ فقرہ بول سکتے ہیں کہ __"ارے ہمیں تو محفل میں آپ ہی آپ دکھتی رہیں__ ہر جگہ آپ ہی چھائی ہوئی تھیں"__اسکے بعد ذرا توقف دے کر سر دھنتے ہوئے اس دوسری خاتون کو یاد کریں، ساتھ ہی چہرے پر خفیف سی ناگواری کے تاثرات رکھیں. اور پھر جو بھی جواب دیں، اس میں ہر حال میں اس دوسری عورت کو ایک عمومی عورت ہی ظاہر کریں. کیونکہ اسی میں آپکا اور آپکے کنبے کا امن پوشیدہ ھے

0 comments:

ایک چاند رات

1:34 PM 0 Comments

زندگی کی مصروف ترین چاند راتوں میں اک اور کا اضافہ ھو گیا. چاند رات کا آغاز ایک سفر سے ھوا، جب میں اپنا آفس نمٹا کر لاہور سے فیصل آباد کی طرف روانہ ہوا. آج کل کچھ ایسی روٹین ھے کہ مجھے ہر جمعہ کو لاہور سے فیصل آباد آنا پڑتا ھے. فیملی ادھر فیصل آباد میں ھے اور نوکری لاہور میں، تو میں ھفتے کے دو دن فیصل آباد میں فمیلی کے ساتھ پایا جاتا ھوں، اور باقی کے پانچ دن لاہور میں.

خیر گھر پہنچ کر گھر کی افطاری کی جو چاہ تھی، وہ تو کرن (میری اہلیہ) نے شاپنگ شاپنگ کی رٹ سے ویسے ہی فوت کر دی. جھٹ پٹ سے افطاری کی، اور اپنے آپ کو ایک خونخوار اور تھکا دینے والی شاپنگ کے لئے ذہنی طور پر تیار کر چکا، تو اچانک کرن نے ایک ڈرامائی فرمائش کا اظہار کر دیا کہ آئیے دونوں چھت پر چاند دیکھ کر آئیں. فرمائش سراسر بے معنی تھی، یعنی جو چاند کبھی وقت پر رویت_حلال کمیٹی کو اپنی بھاری بھرکم دوربینوں اور سائنسی مشینری سے نظر نہیں آتا. وہ ہم گنہگاروں کو انسانی آنکھ سے کیونکر نظر آنے لگا. تو وجدان میں اک خیال بجلی کی سی تیزی سے کوندا کہ یقینا کرن نے کسی ٹی وی ڈرامہ سیریل میں ہیرو اور ہیروئن کو چھت پر اکٹھے چاند دیکھتے، دعا مانگتے اور رومانٹک انداز میں "چاند مبارک" کہتے ہوئے دیکھ لیا ھو گا.  اس خیال کے ساتھ ہی، اپنی اس خوبصورت شام اور اس کے آگے جڑی عید کو ایک "میلوڈرامہ" بنںے سے بچانے کی خاطر ھم نے فورا سے پہلے اوپر کی سیڑھیوں کا رخ کیا اور  چھت پر جا کر اپنی معدوم قوت_بینائی سے فلک بینی شروع کر ڈالی، لیکن خوب زور آزمائی کے باوجود بھی مغربی افق پر وہ کمان نما چاند ھماری گستاخ اکھیوں سے اوجھل ہی رھا. ایسے میں ہماری چھٹی حس نے ہمیں خبر دی کہ دوسری اطراف میں محلے کے کچھ پردہ نشیں بھی چاند کی تلاش میں اپنی اپنی چھتوں پر موجود ھیں، اور  ان میں سے کچھ ایسے بھی ھیں، جن سے بچپن میں ھم کافی بےتکلف ھوا کرتے تھے، لیکن اب حالات کی ستم ظریفی کے باعث ان سے ملاقات کا شرف برسوں میں بھی حاصل نہ ھو سکا تھا. چناچہ ہم تو مغرب کے علاوہ اب دوسری اطراف میں بھی چاند ڈھونڈنے کا ارادہ رکھتے تھے مگر کرن کی مایوسی بھری آواز نے یہ اعلان کر کے ہماری سعی_لاحاصل کے آگے جیسے فل سٹاپ ہی لگا دیا کہ "چلئے  عید بیشک کل ھو نہ ھو لیکن شاپنگ تو گویا آج بھی ضرور ہی کرنی ھے"

خیر جتنی لمبی کرن کی شاپنگ کی لسٹ تھی، اسے دیکھ کر لاشعوری طور پر دل میں یہی آرزو جنم لے رھی تھی کہ عید کل کی بجائے پرسوں کی ھو جائے. لیکن ٹی وی چینلز دیکھ کر اندازہ ھو رہا تھا جیسے پاکستانی میڈیا فیصلہ کر چکا ھے کہ کل ہر حال میں عید کر کے چھوڑنی ھے. اور پھر ہوا بھی وہی، یعنی عید کا اعلان ھو گیا. مبارکبادوں کے سلسلے شروع ، ایس ایم ایس کی بوچھاڑ اور فیس بک پر مبارکباد بھرے میسیجز، یہ سب کچھ ساتھ ساتھ جل رہا تھا اور ہم شاپنگ کو بھی نکل رھےتھے. شاپنگ میں دو چیزیں سر فہرست تھیں، ایک ہمارا اپنا ہی سوٹ جو عید کی نماز پر پہننا تھا، اور دوسرے ہماری دو سالہ بیٹی حلیمہ کے جوتے جن کے بغیر گویا یہ عید نامکمل رہتی.


مارکیٹ پہنچنے سے پہلے پہلے، راستے ہی میں ریڈ سگنلز موصول ھونا شروع ھو گئے تھے کہ جناب، جتنا آسان آپ سمجھ رھے تھے، آج یہ مرحلہ اسقدر آسان ہرگز نہ ھو گا، کیونکہ ایک ہی سال میں آبادی جیسے دوگنی ھو چکی تھی، جس کے باعث سڑکوں پر ٹریفک کی دھینگا مشتی تو جاری ہی تھی، ساتھ ہی ساتھ ہر دکان پر گنجائش سے کوئی چار گنا زیادہ افراد بھرے دیکھ کر یقین ھو گیا کہ آج ہی کی رات وہ اصل والی رات "چاند رات" ھے جس کا بیان روایات میں ملتا ھے. یہ بالکل ویسے ہی ھے، جیسے روایات سے طاق راتوں کی نشانیاں ڈھونڈ ڈھونڈ کر اپنی عبادات پر مہر ثابت کی جاتی ھے. خیر دکانوں کے اندر کے حبس زدہ ماحول کے باوجود عوام ،جن میں بڑی تعداد معصوم خواتین اور وحشی بچوں کی تھی، ان کا جذبہ و جنوں دیکھ کر ھم اپنی شاپنگ لسٹ بھول کر عوامی سمندر کے اس والہانہ پن میں ڈوب گئے


اگلے دو  تین گھنٹے جیسے کسی خواب میں گزر گئے، اپنے اور کرن کے ہاتھ میں بڑے بڑے شاپنگ بیگز دیکھ کر اندازہ ھو رہا تھا کہ اب شاپنگ یقینا مکمل ھو چکی ھے. لیکن محترمہ اہلیہ نے ہمارے گھر لوٹنے کی معصوم خواہشات پر اوس تو گرا ہی دی، ساتھ ہی ساتھ ہمیں مبہوت بھی کر ڈالا یہ بتا کر کہ حلیمہ کے جوتے اور ہمارا عید کی نماز والا سوٹ تو ابھی بھی نہیں لیا. حیرت کے سمندر میں گم ھم یہ سمجھنے سے قاصر تھے کہ گھر سے نکلتے وقت جن دو اشیاء کا اسقدر واویلا تھا، وھی اگر نہیں لی گئیں تو پھر ہم اپنا بٹوہ خالی کئے کونسی نوادرات ان بڑے بڑے شاپنگ بیگز میں بھر کر لے جا رھے تھے. ھم اسی کشمکش میں تھے، اور اس اثنا میں کرن ھمیں مکمل طور پر قائل کر چکی تھی کہ حلیمہ کو جوتوں کی ابھی ضرورت ہی نہیں، اس کے پاس پہلے ہی سے کچھ جوتے موجود ھیں، گزارا ھو جائے گا. اور چونکہ ابھی عید کی وجہ سے مارکیٹ میں کوالٹی کا مال دستیاب نہیں ھے تو جوتے تو عید کے بعد بھی لئے جا سکتے ھیں. مزید یہ کہ جس درزی سے سوٹ لینا ھے، اسکی دکان تو اس مارکیٹ میں ھے ہی نہیں، وہ دکان تو ہمارے گھر سے ملحقہ گلی میں واقع ھے.


اس مبارک رات جیسے ہم ہر بات پر قائل ھونے کو تیار تھے، اسی قائلانہ موڈ میں ندیم درزی کی دکان پر پہنچے، ندیم صاحب، جو پہلے ہی سے تین عدد گاہکوں سے منہ ماری میں مشغول تھے، ہمیں دیکھ کر انہوں نے پیشہ وارانہ مسکراہٹ کے سوا کسی خاص خوشگوار تاثر کا مظاہرہ نہیں کیا . اس سے پہلے کہ ہم مدعا بیان کرتے، دکان میں پہلے ہی سے جاری گفتگو سے ہمیں اندازہ ھو چکا تھا کہ عید کی نماز ہمیں اپنے کسی پرانے سوٹ میں ادا کرنا پڑ سکتی ھے، اور ھم لاشعوری طور پر اپنے آپ کو اس امر کے لئے تیار بھی کرنے لگے، اگلے مرحلے میں ندیم صاحب نے کمال پروفیشنل ازم کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہم سے کل صبح عید کی نماز کا وقت پوچھا. اس کے بعد ندیم صاھب کی وہ لازوال سٹیٹمنٹ سننے کو ملی کہ: "بٹ صاحب! عید کی نماز اگر کل صبح چھ بجکر پینتالیس منٹ پر شروع ھونی ھے تو آپکا سوٹ پورے چھ بجے آپکے گھر پر پہنچا دیا جائے گا". ندیم صاحب نے مجھے اور کرن کو کمال مہارت سے قائل کر لیا کہ وہ اور اسکے محنتی کاریگر آج کی پوری رات انتھک محنت کر کے ہمارا سوٹ تیار کر ھی لیں گے اور چاھے سورج مغرب سے نکل آئے، اسرافیل صور پھونک دیں یا چاھے کوئی اور قیامت برپا ھو جائے، لیکن عید کی نماز ھم ہر حال میں اپنے نئے سوٹ میں ہی پڑھیں گے. ندیم صاھب کی کمال پروفیشنل ازم اور ہمیں دی جانے والی اس گراں قدر فیور سے متاثرہ ھم دونوں میاں بیوی ندیم صاھب کو داد و تحسین دیتے ان کی دکان سے نکلے اور گھر آ کر ہی دم لیا.


واپسی پر سب فیملی والے اکٹھے جیسے ہمارے ہی منتظر تھے، چچا کی فیمیلیز اور ہر عمر اور سائز کے ڈھیر سارے کزنز موجود تھے. ہمیں بتایا گیا کہ ھم چونکہ لیٹ ھو گئے ھیں، اس لئے سب مزے مزے کی چیزیں وہ لوگ ہمارے آنے سے پہلے  ہی ھڑپ کر چکے اور باقی ماندہ کچھ اشیاء صلہ رحمی کے طور پر ہمارے لئے فریج میں رکھ دی گئی ھیں. اس وقت ایک بھی سیکنڈ ضائع کئے بغیر فریج کی جانب لپکنا ہمارا اولین فرض تھا. اور اسی اثناء میں تحفے تحائف کا تبادلہ شروع ھو چکا تھا، تب ہمیں شعور آیا اور ھم کرن کو داد دئیے بغیر نہ رہ سکے جب پتا چلا کہ ہمارے ان بڑے بڑے شاپنگ بیگز میں ہمارے اپنے لئے اشیاء کم اور باقی فمیلی ممبران کے لئے تحفے تحائف زیادہ تھے.  اس کے بعد فیملی والوں سے گپ شپ میں لگ گئے، تھکاوٹ اتنی تھی کہ کچھ ھوش نہیں کب سب مہمان واپس گئے. نہ کسی کے ایس ایم ایس دیکھ سکے، اور نہ ہی فیس بک پر کسی کے پیغامات کے ٹھیک سے جواب دے پائے. اگلے دن آنے والی عید، اپنی چھٹیاں اور فیملی کے ساتھ ایسے ہی قیمتی لمحات گزارنے کا خوبصورت تصور لئے کب نیند آئی اور کب چاند رات احتتام پذیر ہوئی، پتا ہی نہیں چلا.

0 comments:

نیو ایئر ریزولوشن 2011

12:24 AM 0 Comments

میرا ٹارگٹ ایک ایسا انسان بننا جو ھر کمیونٹی اور سوشل سرکل میں ایک ہی بہروپ اوڑھے ہوئے ھو. یعنی جیسا اپنے قریبی اور جگری دوستوں کے مابین ہو ویسا ہی اپنے کولیگزحتی کہ اپنی فیملی کے درمیان بھی ویسا ہی . سوچ اور گفتگو کی شیئرنگ کا لیول ایسا ھو کہ ایک ہی لیول کی بات ہر جگہ کر سکے، شخصیت ایسی شفاف ھو کہ اگر قریبی دوست کبھی آفس کولیگز کی محفل میں آ جائیں یا فیملی والوں کا سامنا دوستوں سے ہو جائے تو کوئی انکشاف یا عزت کا فالودہ نکلنے کی کوئی ٹینشن نہ ہو

لیکن یہ کیسے ممکن ہے؟ کہ کوئی اپنے کسی بھی سوشل سرکل میں ایکٹنگ کرنے کی ضرورت کو یکسر مفقود کردے.

یہ کیسے ممکن ہے کہ انسان جیسا ھو، ویسا ہی ہر محفل میں نظر آئے؟ اور کسی نئی محفل میں اس سے مختلف اوتار کی امید نہ کی جا سکتی ھو

میرے نزدیک یہ جینوئن پن ہے. اسے اچیو کرنا مشکل ہے. مجھ سمیت کوئی بھی اس میں سو فیصد پورا نہیں اترتا . بس صرف اک کوشش ہے.

0 comments: