ادباء کے ذاتی کردار کی اہمیت
شاعر اور ادیب حضرات ناچاھتے ہوئے بھی، اپنی
تحریروں سے پڑھنے والے کے ذھن میں لاشعوری طور پر اپنا ایک مقدس خاکہ بنا
جاتے ہیں. ان کی سوچوں سے بکھری خوشبو سے پڑھنے والوں کی زندگی کی فضا معطر
ہوئی رہتی ھے. ہر کتاب کے پیچھے چھپی اس رائیٹر کی تصویر اس کی سوچوں کی
عکاس بن کر پڑھنے والے کے دل پر نقش ہو جاتی ھے.
مگر
یہ بھی سچ ھے کہ جن ادباء کے اشعار و افکار ہم ذوق و شوق سے پڑھتے ہیں، ان
کی سوچ کو پسند کرتے ہیں، ان کی حقیقی زندگی کو بھی ان کی تحریروں سے پرکھ
کر آئیڈیلائز کرنا شروع کر دیتے ہیں. اور کیوں نہ کریں؟، جو شخص پوری قوم
کو ایک درس دے رھا، یا قوم سے سوال کر رہا، یا اپنے الفاظ سے قوم کو
جھنجھوڑنے کی کوشش کر رھا، اس کو خود بھی تو اپنے ذاتی کردار کا جواب دہ
ضرور ہونا چاہئے.
ابھی کل ہی عابی مکھنوی سے بات ہو رھی تھی کہ: "بہت برا ھے وہ آدمی جو لفظوں کے حقوق ادا نہیں کرتا"
تو
انہی معتبر ھستیوں میں سے اکثر کے اصل مکروہ چہرے جب بے نقاب ہوتے ہیں، جب
پتا چلتا ھے کہ کتابوں اور تحریروں میں اچھا اچھا چھاپ کر اپنی خود کی
زندگی میں تو وہ اپنی تصنیفات سے ٹپکتی سوچ کی خود آپ ہی سب سے بڑی نفی
ہیں...... تو ان کے ایک ایک لفظ، ان کی ہر ہر تحریر سے، ان کے ہر ہر شعر سے
گھن آنے لگتی ھے، چاھے انکی تصنیفات علم و ادب کے تقاضوں کے مطابق کتنی ہی
معیاری اور با وزن کیوں نہ ہوں. ان کی تصویر کی وقعت بھی شوبز کے کس مسخرے
سے بڑھ کر نہیں رھتی.
بے
اثر اور بااثر ادب کا فرق ہی وہاں سے شروع ھوتا ھے جناب، جب آپ کو لکھاری
کے ذاتی کردار کا مطالعہ کرنے کا موقع ملے . مجھے اشفاق احمد کے لفظوں میں
کیوں تاثیر محسوس ہوتی ھے، اور وصی شاہ مجھے ایک اداکار سے بڑھ کر کیوں
محسوس نہیں ھوتا. اور فیس بک پر ادبی نوٹنکیاں کرنے والے تو بیشمار مل جاتے
ہیں ..... خیر ہر بندے کی اپنی چوائس ھے، ہر شخص پر ادب کے اثرات بھی فرق
ھیں. اکثر لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ ادب دھیرے دھیرے ہمارے معاشرے پر اپنی
افادیت کیوں کھوتا جا رہا ھے. وجہ شائد اسکی یہ بھی ھے کہ الیکٹرانک و سوشل
میڈیا اب عام عوام کو وقتا فوقتا ان کی آئیڈیل شخصیات کے اصل رنگ دکھاتا
رہتا ھے.
قلم کا استعمال
ایک طاقت ھے. اور کوئی بھی طاقت ملنے کے ساتھ ذمے داریاں بھی عائد ہوتی
ہیں. اگر وہ ذمے داریاں پوری نہ کی جایئں گی تو کوئی شک نہیں کہ بہترین
تخلیقی ادب کے بھی معاشرے پر بےاثر رھنے کا شکوہ سراسر بیکار ھے.
0 comments: