شارٹ ٹرم محبت

12:07 AM 0 Comments

محبت دلچسپ کتابی موضوع ھے. لیکن کتابوں سے اگر نکلیں تو رشتوں کے سیمنٹ میں محبت پانی کی مانند ھوتی ھے. جو خشک ھو کر ختم ھو جانے پر بھی سیمنٹ کو اسکی مضبوطی کھونے نہیں دیتی،

محبت کی بہت سی اقسام میں سے ایک ھے شارٹ ٹرم محبت . یہ ان لوگوں کو ھوتی ھے جو اظھار محبت ہی کو محبت سمجھتے ھیں ان کے نزدیک لفظی اظہار کر دینے سے محبت کی شروعات ھو جاتی ھے مگر پھر وہ خود ہی اپنے کہے لفظوں کو سنبھال نہیں پاتے. اپنی کہی باتوں کو کسی میّت کی مانند سہارا دینے کو خود لڑکھڑا کر کبھی اِدھر گرتے ھیں تو کبھی اُدھر. ان کے موم سے بنے دل جو کبھی  ہلکی سی آنچ پر پگھل گئے تھے، ذرا سی ٹھنڈک پر فورا جم بھی جاتے ھیں

--
اکتوبر 2013

0 comments:

خلوص

1:17 AM 1 Comments

ھم لاتعداد مرتبہ یہ لفظ استعمال کرتے ہیں. آج میں "خلوص" کی ایک مختلف تعریف پیش کرنے کی کوشش کرتا ہوں. احباب کی ملامت سہنے کے لئے پہلے سے تیار ہوں. سوچنے کی بات ھے کہ خلوص آخر ہوتا کیا ھے؟ مجھے لگتا ھے کہ خلوص ایک ایسے جذبے کا نام ھے، جو کسی بھی رشتے کے آغاز میں بےدریغ برتا جاتا ھے. اس کو پیار، محبت جیسے جذبوں کے ساتھ مکس کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے. ھر نیا رشتہ شروع میں انتہائی پرخلوص ہی ہوتا ھے. لیکن خلوص میں ایک فارمیلٹی ہوتی ھے، خوامخواہ کا پروٹوکول ہوتا ھے. خلوص رشتوں کو قید کرتا ھے، آزاد نہیں رھنے دیتا، رشتوں کو وزنی بناتا ھے، رشتوں کے پر کاٹ کے رکھتا ھے، خود کو اور دوسرے فریق کو بھی آزادانہ پرواز سے روکتا ھے. بے ساختگی سے روکتا ھے. خلوص کی عمر کم ہوتی ھے، لانگ ٹرم رشتوں میں فریںکنیس بڑھنے کے بعد خلوص غائب ھونا شروع ہو جاتا ھے، اور اس رشتے کی اصل ماہیت اور ہیئت نمودار ہونا شروع ہو جاتی ھے.

میاں بیوی کی مثال لے لیجئے، شادی کے کچھ سالوں بعد، جب رشتہ پروان چڑھ چکتا ھے. بہت سی سوشل بائنڈنگ بھی آ جاتی ھے بیچ میں. بچے بھی ہوتے ہیں درمیاں، ایک دوسرے کے بغیر رہنا ناممکن لگنے لگتا ھے، میاں بیوی ایک دوسرے کے لئے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں. لیکن تب دونوں کے بیچ خلوص کا پردہ نہیں رھتا. جس بات پر پیار آئے، بلا جھجھک پیار کا اظہار کرتے ہیں، جس بات پر غصہ آئے ، دل کھول کر غصہ بھی نکالا جاتا ھے. کیا نارمل حالات میں آپ نے آج تک کسی شوہر کو کہتے سنا کہ وہ اپنی بیوی سے بہت مخلص ھے (یہ کہنے کی ضرورت ہی نہیں ہوتی). یا کبھی کسی باپ یا ماں کو یہ کہنے کی ضرورت پیش آئی کہ وہ اپنی اولاد کیساتھ مخلص ہیں.

ھم اپنے جگری یاروں کے ساتھ کوئی فارمیلٹی نہیں برتتے، منہ پر بیستی، منہ پر عزت، اور کسی بھی بات پر بے ساختہ "yes" یا "no" کرتے ہیں، اسی کو ھم اچھی اور دیرپا دوستی سمجھتے ہیں. لیکن جن دوستوں کے ساتھ پرخلوص ہوں، ان کے ساتھ آپ ایسا جگری یاروں والا برتاؤ بھی نہیں کر سکتے.
 "
نرم آوازیں، بھلی باتیں، مہذب لہجے
پہلی بارش میں ہی یہ رنگ اتر جاتے ھیں
"

1 comments:

ادباء کے ذاتی کردار کی اہمیت

1:14 AM 0 Comments

شاعر اور ادیب حضرات ناچاھتے ہوئے بھی، اپنی تحریروں سے پڑھنے والے کے ذھن میں لاشعوری طور پر اپنا ایک مقدس خاکہ بنا جاتے ہیں. ان کی سوچوں سے بکھری خوشبو سے پڑھنے والوں کی زندگی کی فضا معطر ہوئی رہتی ھے. ہر کتاب کے پیچھے چھپی اس رائیٹر کی تصویر اس کی سوچوں کی عکاس بن کر پڑھنے والے کے دل پر نقش ہو جاتی ھے. 
 
مگر یہ بھی سچ ھے کہ جن ادباء کے اشعار و افکار ہم ذوق و شوق سے پڑھتے ہیں، ان کی سوچ کو پسند کرتے ہیں، ان کی حقیقی زندگی کو بھی ان کی تحریروں سے پرکھ کر آئیڈیلائز کرنا شروع کر دیتے ہیں. اور کیوں نہ کریں؟، جو شخص پوری قوم کو ایک درس دے رھا، یا قوم سے سوال کر رہا، یا اپنے الفاظ سے قوم کو جھنجھوڑنے کی کوشش کر رھا، اس کو خود بھی تو اپنے ذاتی کردار کا جواب دہ ضرور ہونا چاہئے. 
 
ابھی کل ہی عابی مکھنوی سے بات ہو رھی تھی کہ: "بہت برا ھے وہ آدمی جو لفظوں کے حقوق ادا نہیں کرتا"
 
تو انہی معتبر ھستیوں میں سے اکثر کے اصل مکروہ چہرے جب بے نقاب ہوتے ہیں، جب پتا چلتا ھے کہ کتابوں اور تحریروں میں اچھا اچھا چھاپ کر اپنی خود کی زندگی میں تو وہ اپنی تصنیفات سے ٹپکتی سوچ کی خود آپ ہی سب سے بڑی نفی ہیں...... تو ان کے ایک ایک لفظ، ان کی ہر ہر تحریر سے، ان کے ہر ہر شعر سے گھن آنے لگتی ھے، چاھے انکی تصنیفات علم و ادب کے تقاضوں کے مطابق کتنی ہی معیاری اور با وزن کیوں نہ ہوں. ان کی تصویر کی وقعت بھی شوبز کے کس مسخرے سے بڑھ کر نہیں رھتی.
 
بے اثر اور بااثر ادب کا فرق ہی وہاں سے شروع ھوتا ھے جناب، جب آپ کو لکھاری کے ذاتی کردار کا مطالعہ کرنے کا موقع ملے . مجھے اشفاق احمد کے لفظوں میں کیوں تاثیر محسوس ہوتی ھے، اور وصی شاہ مجھے ایک اداکار سے بڑھ کر کیوں محسوس نہیں ھوتا. اور فیس بک پر ادبی نوٹنکیاں کرنے والے تو بیشمار مل جاتے ہیں ..... خیر ہر بندے کی اپنی چوائس ھے، ہر شخص پر ادب کے اثرات بھی فرق ھیں. اکثر لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ ادب دھیرے دھیرے ہمارے معاشرے پر اپنی افادیت کیوں کھوتا جا رہا ھے. وجہ شائد اسکی یہ بھی ھے کہ الیکٹرانک و سوشل میڈیا اب عام عوام کو وقتا فوقتا ان کی آئیڈیل شخصیات کے اصل رنگ دکھاتا رہتا ھے.
 
قلم کا استعمال ایک طاقت ھے. اور کوئی بھی طاقت ملنے کے ساتھ ذمے داریاں بھی عائد ہوتی ہیں. اگر وہ ذمے داریاں پوری نہ کی جایئں گی تو کوئی شک نہیں کہ بہترین تخلیقی ادب کے بھی معاشرے پر بےاثر رھنے کا شکوہ سراسر بیکار ھے.

0 comments: