اقبال کا فلسفہءِ خودی

12:58 AM 0 Comments

اقبال کے نزدیک خودی ناصرف انسان بلکہ ہر مخلوق کے اندر موجود ایک تعمیری صلاحیت کا نام ھے، اس صلاحیت میں توسیع بھی ممکن ھے اور اسکی افزائش و تربیت بھی ممکن ہے. یہ تربیت (1) اطاعت_الہی، (2) ضبط_نفس اور (3) نیابت_الہی جیسے مراحل سے ممکن ہے.

اقبال نے اپنی شاعری میں خودی کو مختلف نظریات سے جوڑ کر بیان کیا ھے. کہیں خودی کا تعلق عشق سے، کہیں فقر سے، کہیں غیرت سے، کہیں خوداری سے، کہیں فطرت سے جوڑا. بیشتر جگہوں پر اقبال خودی کو براہ_راست خدا اور عشق_حقیقی سے عبارت کرتے بھی نظر آتے ھیں.

اس سلسلے میں کچھ اھم چیزیں جو کل یوم_اقبال کے حوالے سے سیکھنے کا موقع ملا وہ یہ کہ
(1) -
 اقبال نے انفرادی خودی کی بات بھی کی اور اجتماعی خودی کا تصور بھی پیش کیا. اجتماعی خودی کو بیخودی سے بھی عبارت کیا گیا ھے

(2) -
اقبال وطن اور ملک کی بجائے ھمیشہ امت اور ملت کی بات کرتے نظر آتے ہیں. اس کے ساتھ ہی وہ تکمیل_ خودی کے لئے ملت اسلامیہ کی ضرورت پر زور دیتے ہیں.

(3) -
خودی کا بھٹک جانا، یا بے ترتیب ہو جانا سراسر شیطانیت ھے

غرض یہ کہ خودی کا نظریہ، اقبال کے فلسفۂ زندگی کا بہت بنیادی نکتہ ھے. خودی کا لفظ اقبال غرور کے معنی میں هرگز استعمال نہیں کرتے، بلکہ اس کا مفہوم احساسِ نفس یا اپنی ذات کا تعین ہے

0 comments:

رشتے محض گمان سے قائم نہیں رہ سکتے

12:21 AM 0 Comments

رشتے محض گمان سے قائم نہیں رہ سکتے، ان کو اپنی ذات اور انا کا ایندھن جلا کر زندہ رکھنا پڑتا ھے. اس میں بھی ہر انسان کی اپنی Capacity ھے کہ کہاں تک اور کب تک ایندھن مہیا کر پاتا ھے. ہر انسان کی صلاحیتیں فرق ھوتی ھیں. خواہ وہ صلاحیت خود جلنے کی ھو، یا اپنے لئے کسی دوسرے کو جلتا دیکھتے رہنے کی ھو.

0 comments: