اقبال کا فلسفہءِ خودی
اقبال کے نزدیک خودی ناصرف انسان بلکہ ہر مخلوق
کے اندر موجود ایک تعمیری صلاحیت کا نام ھے، اس صلاحیت میں توسیع بھی ممکن
ھے اور اسکی افزائش و تربیت بھی ممکن ہے. یہ تربیت (1) اطاعت_الہی، (2)
ضبط_نفس اور (3) نیابت_الہی جیسے مراحل سے ممکن ہے.
(2) -
(3) -
اقبال
نے اپنی شاعری میں خودی کو مختلف نظریات سے جوڑ کر بیان کیا ھے. کہیں خودی
کا تعلق عشق سے، کہیں فقر سے، کہیں غیرت سے، کہیں خوداری سے، کہیں فطرت سے
جوڑا. بیشتر جگہوں پر اقبال خودی کو براہ_راست خدا اور عشق_حقیقی سے عبارت
کرتے بھی نظر آتے ھیں.
اس سلسلے میں کچھ اھم چیزیں جو کل یوم_اقبال کے حوالے سے سیکھنے کا موقع ملا وہ یہ کہ
(1) -
اقبال نے انفرادی خودی کی بات بھی کی اور اجتماعی خودی کا تصور بھی پیش کیا. اجتماعی خودی کو بیخودی سے بھی عبارت کیا گیا ھے
(2) -
اقبال
وطن اور ملک کی بجائے ھمیشہ امت اور ملت کی بات کرتے نظر آتے ہیں. اس کے
ساتھ ہی وہ تکمیل_ خودی کے لئے ملت اسلامیہ کی ضرورت پر زور دیتے ہیں.
(3) -
خودی کا بھٹک جانا، یا بے ترتیب ہو جانا سراسر شیطانیت ھے
غرض
یہ کہ خودی کا نظریہ، اقبال کے فلسفۂ زندگی کا بہت بنیادی نکتہ ھے. خودی
کا لفظ اقبال غرور کے معنی میں هرگز استعمال نہیں کرتے، بلکہ اس کا مفہوم
احساسِ نفس یا اپنی ذات کا تعین ہے
0 comments: