گمشدہ دوست

6:02 AM 0 Comments

کافی عرصہ گزرا تم سے بات نہیں ہوئی، میری طرف تو آجکل کچھ بھی خاص نہیں، تم سناؤ
مجھے نہیں معلوم کہ کیوں تمہیں کال کی، بس دل کِیا کہ تم سے بات کروں ___سوچ رھا تھا کہ اگر آج ممکن نہیں تو شائد پھر کبھی، لیکن ھم ملاقات ضرور کریں ___ کیونکہ اک لمبا عرصہ گزر گیا ، اور میں تمہاری باتوں اور لطیفوں کو بہت مِس کر رھا ھوں
نہیں نہیں ... وہ پرانے جیسی تو اب کوئی بات ہی نہیں رہی .... اور نہ ہی تمہاری زندگی میں اچھی تبدیلی لانے کی میری کوئی خواہش ھے . ہاہاہا... بس ویسے ہی ... آج اچھی مزے کی دھوپ نکلی ..... تو دل کیا کسی پرانے دوست سے ملا جائے
-----------------------------------
(ایک گمشدہ دوست کی برسوں بعد فون کال )

0 comments:

خاکے

9:46 AM 0 Comments

میں گو خود بہت زیادہ ایکسپریسِیوو ( expressive) ھوں لیکن مجھے لوگوں کے بارے میں ان کی آٹو بائیوگرافی کی بجائے انکے آرٹ، کاوشوں اور فن کی زبان میں جاننا زیادہ اچھا لگتا ھے. میں نے جب راجہ گدھ پڑھا تو تقریبا ہر اہم اقتباس پڑھ کر بے اختیار کتاب کی بیک سائیڈ پر بانو قدسیہ کی تصویر کو دیکھتا کہ یہ عورت یہ باتیں کیونکر لکھ سکتی ھے ... کتاب ختم ہوتے ہوتے بانو قدسیہ کا ایک خاکہ میرے ذہن میں تھا (صحیح / غلط کی الجھنوں میں ___ میں نہیں پڑھتا) ... لیکن مجھے اپنے خاکے بڑے عزیز ہوتے ھیں. محمد رفیع کا تو ایک جیتا جاگتا خاکہ گویا روزانہ میرے ساتھ ہی رہتا ھے :)

0 comments:

انا پرستی

9:28 AM 0 Comments

ھم اکثر دوسروں سے اپنی توقعات اور معیارات پورے نہ ہونے پر انہیں انا پرست قرار دیتے نظر آتے ھیں. اکثر دوسروں کی ایگو اور انا سے خائف نظر آتے ھیں.

ہر دوسرے شخص کے ساتھ ہماری انا کا وہی ایک جیسا لیول نہیں ھوتا. کسی کے ساتھ کم، کسی کے ساتھ معتدل اور کسی کے ساتھ زیادہ . اس کا مطلب ھے کہ ہماری انا کا دارو مدار ھم سے زیادہ اس دوسرے شخص (یا اس دوسرے شخص کیساتھ ہمارے تعلق) پر منخصر ھوتا ھے.

اگر تو کسی کی انا کے لیول (مقدار) کا فیصلہ ھم انسانوں نے اُس شخص کے ہمارے ساتھ روا تعلق سے اخذ کرنا ھے. پھر تو کبھی بھی کسی کے بارے میں حتمی رائے قائم نہیں کی جاسکتی کہ فلاں شخص انا پرست ھے. اس فیصلے سے پہلے ہمیں خود اپنے آپ سے ایک سوال پوچھنا چاہئے کہ کیا ھم نیوٹرل ھیں؟
یہ فیصلہ کیونکر ھو کہ وہ فلاں شخص انا پرست ھے ؟ وہ انا پرست ھے __ یا__ میں اس کی توجہ/چاھت کا ضرورت سے زیادہ بھوکا ھوں. اگر میں اسکی توجہ/چاھت کا زائد از ضرورت متقاضی ھوں تو پھر اعتدال کی ضرورت اس کو نہیں ، مجھے ھے. پروبلم اس شخص کی طرف نہیں ، بلکہ خود میری طرف ھے.
سچ پوچھیں تو میں کسی شخص میں موجود انا کو ختم کرنے، یا دبانے کے بالکل حق میں نہیں ھوں. میں انا کو کوئی بری چیز بھی نہیں سمجھتا. یہ ایک قدرتی صلاحیت ھے، جو مختلف تعلقات اور مختلف سچویشن میں مختلف انداز میں نمودار ھوتی ھے. ھم سب اکثروبیشتر (اپنے علاوہ) کسی دوسرے شخص کی بے جا انا کا شکوہ کرتے ہوئے نظر آتے ھیں …. میری تھیوری کے مطابق دوسروں کی انا کو کم زیادہ کرنے کی خواہش کی بجائے ہمیں اس دوسرے شخص کی انا کے مطابق اپنے رویوں، خواھشات اور اس رشتے میں اپنی امیدوں میں اعتدال لانے کی ضرورت ھوتی ھے. …… اگر ھم یہ سوچ رکھیں اور ایسا ہی کرنے کی پریکٹس کریں ھم ہر طرح کے شخص سے ڈیل کرنے کے قابل ھوں گے

0 comments:

لاھور سے فیصل آباد

2:35 PM 0 Comments

آج جمعہ کی شام پونے چھ بجے آفس سے نکل کر ڈائیوو کوچز اسٹینڈ کے لیے رکشہ پکڑا، آج میں نے آفس سے نکلتے نکلتے دیر کر دی تھی، اس ٹائم پر گلبرگ مین روڈ پر انتہائی رش ھوتا ھے، اور سڑک پر جو دو بڑے اشاروں پر رکنا پڑے گا تو عین ممکن ھے کہ آج لاھور سے فیصل آباد کیلئے اپنی سوا چھ بجے والی گاڑی یقینا مس کر دوں گا. لیکن بھلا ھو اس اثنا میں پیچھے سے آتی ہوئی پولیس کی بھاری نفری پر مشتمل تین بڑی گاڑیوں کا، جو ہوٹر بجاتی ہوئی آئیں اور ان کے لئے تمام اشارے اور راستے ہنگامی طور پر کھلتے چلے گئے. رکشہ والے بھی کمال ہوشیاری سے ان کے پیچھے پیچھے رکشہ بغیر اشارے پر رکے آگے کو نکال لایا. مگر رکشہ زیادہ دیر ان گاڑیوں کی ھمسفری نہ کر سکا کیونکہ وہ گاڑیاں بہت تیزی میں آگے نکل گئی تھیں، لیکن ان کی وجہ سے میں وقت پر اپنی گاڑی ضرور پکڑ لوں گا. ویسے خدا جانے کیا ایمرجنسی ھو گئی تھی، جو اتنی پولیس !!! کہیں کوئی دہشت گردی تو____نہیں ! نہیں !__خدا نہ کرے !!!!

 ڈائیوو اسٹینڈ پر پہنچا تو حیرت کا جھٹکا لگا کہ وہی تینوں پولیس وین ڈائیوو کے مین گیٹ کے باھر کھڑی تھیں، اور اسلحے سے لیس کوئی درجن بھر مستعد پولیس والوں نے ڈائیوو اسٹینڈ کے باہر مختلف پوزیشنیں سنبھال رکھی تھیں. اور سڑک پر کھڑے ہر شخص کی نگاہوں کا مرکز وہ پولیس والے تھے.

پل بھر کو سوچا کہ خیر نہیں لگتی، دل میں آیا رکشے والے سے کہوں کہ بھائی فورا سے پہلے یہاں سے نکل چلو. لیکن نجانے کیا سوچ کر اپنا لیپ ٹاپ کا بیگ کندھے سے لگائے نیچے اترا، اور ہمت کر کے ایک پولیس والے سے پوچھا کہ جناب کیا آج ڈائیوو اسٹینڈ میں کوئی مسئلہ ہوا ھے؟ اس نے جواب دیا، نہیں کوئی مسئلہ نہیں ھے، آپ جائیں اندر. اسٹینڈ کے مین گیٹ پر پہنچ پر میں نے ایک دوسرے پولیس والے سے پوچھا کہ "سر !! آج یہاں اتنی زیادہ سیکورٹی کیوں ھے یہاں؟ اس نے کہا __ ھم ویسے ہی ڈیمو (ریہرسل) کر رھے ھیں. خطرے والی کوئی بات نہیں. یہ سن کر کچھ سکون ہوا، اور خوشی بھی کہ شکر ھے یہ ہماری پولیس دہشت گردی کے ناسور کے نمٹنے کے لئے سنجیدہ ھے اور اسی سلسلے میں تیاریاں اور ریہرسل کرنے میں مشغول ھے.

ڈائیوو کے فیصل آباد ٹکٹ کاؤنٹر پر لمبی قطار دیکھ کر میں زیر لب مسکرایا کیونکہ یہ سب وہ لوگ تھے جو کسی وجہ سے پہلے ریزرویشن نہیں کرا سکے تھے اور اب چانس کے انتظار میں تھے کہ کوئی ریزرویشن والا مسافر آنے سے رہ جائے اور اس کے حصے کی ٹکٹ انہیں مل جائے. اور میں بذات خود کئی بار اسی چانس والی قطار میں کھڑا ہونے کا شرف حاصل کر چکا ھوں اور اکثر لیٹ ہو جانے پر روٹین کیساتھ اپنی ریزرویشن سے ہاتھ بھی دھوتا رھا ھوں.
لیکن آج میں نے دو سیٹس ریزرو کروا رکھی تھیں، حالانکہ چاہئے مجھے ایک ہی ٹکٹ تھی، پھر بھی بس اینویں فون پر دو سیٹس بک کروا لیں (آخر دل ھے پاکستانی)  :P


لمحے بھر کو میں نے دل ہی دل میں پولیس کی ان گاڑیوں کا شکریہ بھی ادا کیا جن کی بدولت کم از کم آج میری ریزرویشن کینسل ہونے سے بچ گئی تھی. :)

خیر قطار سے بے اعتنائی برتتے ہوئے میں کاؤنٹر پر پہنچا، اور کاؤنٹر والے سے کہا کہ خرّم کے نام سے فلاں سیٹس کی بکنگ ھے (کیونکہ بکنگ کی بدولت وہ کاؤنٹر والا باقی کے چانس والوں کو چھوڑ کر پہلے مجھے ٹکٹ دینے کا پابند تھا). قطار میں کھڑے لوگوں نے شدید نفرت سے مجھے گھورا. ان سب کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے میں نے کاؤنٹر والے سے کہا کہ میری دو سیٹس ریزروڈ ھیں ، لیکن مجھے ابھی صرف ایک سیٹ چاہئے. یہ سنتے ہی پوری چانس کی قطار میں جیسے ہلچل مچ گئی ھو. ایک ساتھ بہت سی آوازیں : "خرّم بھائی پلیز__دوسری ریزرو سیٹ میرے لئے لے لیں !!!!" اور اس کے ساتھ ہی پانچ سو اور ہزار کے نوٹ میری طرف بڑھاتے کئی ہاتھ اچانک میرے سامنے نمودار ھو گئے.
اس سے پہلے کہ میں اپنی دوسری ٹکٹ کیلئے ان میں سے کسی ایک لکی مسافر کا انتخاب کرتا، کاؤنٹر والے نے میری ٹکٹ میری طرف بڑھادی. میں نے جلدی سے اسے درخواست کی .. کہ یار پلیز دو ٹکٹس ہی کر دو ____ وہ بولا نہیں آج بہت رش ھے ، شکر کریں کہ آپ کو ایک ٹکٹ بھی مل گئی ھے. اور میں نے واقعی خدا کا شکر ادا کرتے ہوئے اس کے ہاتھ سے ٹکٹ پکڑی، پیسے ادا کیے اور کاؤنٹر چھوڑ دیا.

آج آفس میں مصروفیت کے باعث سارا دن فیس بک استعمال نہیں کی، تو راستے میں کوئی مزے کا سٹیٹس اپ ڈیٹ کروں گا، سہیل اکبر کی پوسٹ پر فنی فنی کمنٹس کروں گا. قاضی و لاشاری سے چھیڑ چھاڑ کروں گا ___ اور ہاں آج راستے میں سیل فون سے نصرت کی قوالیاں سنوں گا، بہت دن ھو گئے نصرت کو نہیں سنا __ یہ سوچ کر اپنے بیگ سے ہینڈز فری ائیر فون نکال کر جیب میں رکھ لئے. گاڑی میں سوار ہوتے ہی سب سے پہلے میں اپنا لیپ ٹاپ کا بیگ اپنی سیٹ کے اوپر کے خانے میں فٹ کرنے میں مصروف تھا کہ ایک بے تکلف آواز میری سماعت سے ٹکرائی ___ "خرّم صاحب !!! اے کوئی چنگی گل نئیں"
سر گھما کر دیکھا تو ایک آدھے گنجے سر والے صاحب مجھ سے مخاطب تھے. "سر !! آپ کون ؟؟" ___ اوئے پہچانا نہیں ؟؟ کوئی حال نہیں .... اتنا بڈھا ھو گیا ھے کیا؟ .... میں تیرا ایم ایس سی کا کلاس فیلو ... رضوان !
.
او رضوان یہ تُو ھے؟ کمینے تُو زندہ ھے ابھی ؟ یونیورسٹی کے بعد ایسا غائب ہوا .. کبھی ملا ہی نہیں. اور آج بارہ سال بعد یہ ننگا سر لے کر مجھ سے ڈائیوو میں مل رھا ھے. شرم نہیں آتی ؟؟ کوئی رابطہ ہی نہیں. میں نے بھی اپنی کلاس کے اس ڈفر دوست کو پہچان لیا، جو آج خاصا معزز دکھائی دے رھا تھا
.
"بہت خوب !! جناب غائب تو آپ ہوئے جو یونیورسٹی کے کانووکیشن تک میں نہیں آئے. اور الٹا شکایت بھی مجھ سے؟" اس نے بھی کاؤنٹر فائر کر دیا
.
خیر اتنے سالوں بعد یونیورسٹی کا پرانا دوست مل گیا تھا، دوسرے مسافروں سے سیٹ کمپرومائز کی ریکویسٹ کر کے ھم دونوں ساتھ ساتھ بیٹھ گئے. اور شروع ھو گئیں نہ ختم ہونے والی باتیں
.
"یار آج تم نے دیکھا ڈائیوو اسٹینڈ پر کتنی زیادہ سیکورٹی تھی، مسلح پولیس والے کیسے اچانک پہنچ گئے .. ھے ناں " میں نے کیژوُولی ہی سیکورٹی کے بارے میں اس کی رائے جاننے کے لئے بات کی. اس نے مسکراتے ہوئے دھیرے سے کہا: "ہاں وہ مجھے چھوڑنے آئے ہوئے تھے" __ میں سمجھا وہ مذاق کر رھا ھے .. میں نے حیرت اور ہنسی کے ملے جلے تاثرات کیساتھ سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا __"تمھیں چھوڑنے آئے تھے ؟؟ آر یو سیرئیس ؟؟" ... اس نے کہا: "ہاں سیرئیس" .... میں کچھ سمجھا نہیں. تم کیا جاب کرتے ھو ؟
.
تب رضوان نے انکشاف کیا کہ وہ ڈپٹی ڈائریکٹر انٹلیجنس بیورو ھے .... میں نے کہا کہ وہ کیا ھوتا ھے؟ .... اس نے مسکراتے ہوئے بتایا کہ وہ حساس انٹلیجنس ادارہ (آئی بی) میں افسر ھے. اور وہ سب پولیس اور گاڑیاں کوئی ریہرسل نہیں تھی، نہ ہی کوئی ایمرجنسی تھی. بلکہ رضوان کو ڈائیوو اسٹینڈ پہنچنے میں دیر ھو رہی تھی تو اس نے اپنا پروٹوکول لیا اور سب ٹریفک کو چیرتا ہوا ڈائیوو پہنچ گیا
 .
ہماری گاڑی چل پڑی تھی، اور میں نے دیکھا ڈائیوو اسٹینڈ کے باہر تعینات وہ مسلح پولیس والے بھی اپنی گاڑیوں میں سوار ھو کر واپس جا رھے تھے.

بڑی مشکل سے میں نے خود کو یقین دلایا کہ میری کمپیوٹر سائنس کی کلاس کا نالائق کلاس فیلو اسوقت ایک انٹیلیجنس ادارے میں سی ایس پی آفیسر ھے. رضوان نے سب کہانی بتا دی کہ ڈگری کے فورا بعد ہی اسے احساس ھو گیا تھا کہ وہ کمپیوٹر سائنس اور پروگرامنگ کی فیلڈ کے لئے موزوں نہیں، ویسے بھی ہر انسان ہر شعبے کیلئے نہیں ھوتا، اور ہر شعبہ بھی ہر شخص کے لئے نہیں بنا ھوتا. اُسے سول سروسز کا شوق تھا. جب ھم دوسرے دوست کمپوٹر پروگرامنگ کی نوکریوں کے لئے اپلائی کر رھے تھے، تو رضوان سی ایس ایس کی تیاری کر رھا تھا اور اس میں کامیاب بھی ہو گیا. مجھے خود میں اور اس میں زمین آسمان کا فرق محسوس ھو رھا تھا. ہماری گفتگو کے دوران اسے بار بار فون کالز موصول ھو رہی تھیں، اور وہ نہ سمجھ آنے والے استعارات میں بات کر رھا تھا. جسے میں نے کوڈ ورڈز گردانا
.
اب میری متجسس خرّم امتیازی رگ پھڑک رہی تھی اور حساس اداروں کو لے کر انگنت سوالات پہلے سے دل میں تھے. جن میں افغانستان کی سوویت یونین کیساتھ جنگ سے لے کر سانحہ پشاور تک ، سقوط ڈھاکہ سے لے کر عمران خان کے دھرنے تک، اور اہم لوگوں کی نجی زندگیوں سے لے کر فون کالز ٹیپ ہونے تک کے سینکڑوں سوالات میرے ذہن میں کلبلا رھے تھے.
.
اور پھر باقی کا تمام سفر اس انٹرویو میں گزر گیا، بہت سے سوالوں کے جوابات ملے، بہت سوں کے جواب نہیں ملے (یا پھر جان بوجھ کر نہیں دیے گئے) کئی سوالوں پر وہ ہسنتا رھا، کچھ سوالوں کے جواب میں ھونٹ پر انگلی رکھ کر چپ رہنے کا اشارہ بھی کیا.______ لیکن صحیح معنوں میں آج میرے نالج میں بہت اضافہ ہوا. اور شائد آج پہلی بار مجھے خفیہ اداروں کے اندرونی طریقہ کار اور مقاصد کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنے اور سمجھنے کا موقع ملا
آخر میں وہ کہنے لگا، "بھائی !! فیصل آباد آ گیا ھے اب تو یہ انٹرویو ختم کر دو، اور کچھ اپنے بارے میں بھی بتا دو" ... خیر میں نے اسے سچ سچ بتا دیا کہ میں نعمان لاشاری کی کمپنی میں ایک چھوٹا موٹا ملازم ھوں.

گاڑی فیصل آباد ڈائیوو اسٹینڈ پر پہنچ چکی تھی، ھم نے ایک دوسرے کیساتھ کنٹیکٹ نمبرز کا تبادلہ کیا اور جلد دوبارہ ملنے کی یقین دہانیوں کیساتھ رخصت ہوئے. اسے اپنا فون نمبر دیتے ہوئے میں سوچ رھا تھا کہ بارہ سال بعد آج اتفاق سے ملاقات ھو گئی ... اور اب مشکل ہی ھے کہ کبھی دوبارہ اس سے ملاقات ھو !! کیونکہ بڑے لوگوں کے پاس ٹائم ہی کہاں ہوتا ھے (میں اپنی بات کر رھا ھوں) :P
.
جب سے گھر پہنچا ھوں کسی کو فون کرنے کی ہمت نہیں کر پا رھا، کہیں ایسا نہ ھو کہ اب میری فون کالز بھی ٹیپ ھو رھی ھوں :/

0 comments:

اردو زبان اور اردو بولنے والوں کی تنزلی

9:34 PM 5 Comments

ہمیں اردو سے لاکھ محبت سہی لیکن میرا خیال ہے کچھ سچ بھی بولنا چاہئے. اور وہ یہ کہ گزشتہ سو سالوں میں دنیا میں بتدریج بہت سی تبدیلیاں آئی ھیں بالخصوص سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں. لیکن بدقسمتی سے اردو بولنے اور لکھنے والے شعروشاعری اورافسانوں میں ہی مگن رھے. اردو کسی بھی طرح جدید سائنس و ٹیکنالوجی کی زبان نہ بن سکی. حتی کہ اپنے آزاد وطن میں بھی ہم نے اردو کو جدید دور کی زبان بنانے کے لئے زبانی کلامی کوششوں سے بڑھ کر کچھ نہیں کیا. جس وقت سائنس و ٹیکنالوجی کے ارتقاء کے ساتھ ساتھ اردو زبان میں ہمہ وقت نئے الفاظ کا اضافہ، تشریح و ترویج ناگزیر تھی، اس وقت ہمارے اردو دان اپنی زبان کو محض المیہ و طربیہ شاعری و قصیدہ گوئی و رومانس کی زبان بنانے کے لئے کوشاں تھے. وطن عزیز کے قیام کے بعد ہمارے بزرگوں نے اردو کو قومی زبان تو ڈکلیئر کر دیا (اور بیشک اس فیصلے کے باعث ہم نے مشرقی پاکستان کو بھی کھو دیا) لیکن اعلی دنیاوی علم اور معاشرتی سٹیٹس کے لئے ہم نے ہمیشہ انگریزی کو ہی ترجیح دی.

سچ یہ بھی ہے کہ شاید موجودہ اردو میں نہ تو فزکس، کیمسٹری، بائیولوجی کے فارمولوں اور اصطلاحات کو سمونے کی گنجائش ہے اور نہ ہی پیچیدہ سائنسی تھیوریوں کا بیان ممکن ھے. آپ کوئی سائنسی تھیوری اردو میں بیان کرنے کی کوشش کریں (خواہ نیوٹن کا حرکت کا بنیادی قانون ہی لکھیں) وہ اس قدر مبہم اور فہم سے بالاتر ہوگا کہ اردو بولنے سننے والے ہی نہ سمجھ پائیں گے. سرکاری سکولوں میں میٹرک میں جو سائنس سبجیکٹس سو کالڈ اردو ٹرانسلیشن میں پڑھانے کی بھونڈی کوشش کی جاتی ہے، وہ ٹرانسلیشن  نایاب و پیچیدہ ترین اردو اصطلاحات اور بیشتر انگریزی الفاظ کو اردو میں لکھ کر بنائی جاتی ہے. 

 ھمارے بچے جو لفظ کبھی اپنے گھر اور سکول میں استعمال نہیں کرتے، تو کتب میں ثقیل اور بھاری بھرکم الفاظ پر مبنی میٹرک کی کتابوں کے وہ سائنسی کانسپٹ وہ بیچارے بچے سمجھ ہی نہیں پاتے. وہ رٹا لگا کر پاس ہونے پر مجبور ہوتے ھیں. اور میٹرک میں انہی اردو زدہ سائنسی سبجیکٹس کو مکس اردو و انگریزی میں پڑھانے کی وجہ سے بہت سے اچھے تخلیقی دماغ کریئر کی دوڑ میں شامل ہی نہیں ہو پاتے. جس کا جتنا اچھا رٹا، اتنے ہی زیادہ نمبر. اور پھر ایف ایس سی میں جا کر انہی سب کانسپٹس کا انگریزی میں رٹا لگانے پر مجبور ہوتے ھیں. کوئی شک ہی نہیں کہ ہمارے ہاں ڈاکٹر و انجنیئر بنتے ہی وہ ھیں جن کا رٹا اچھا ہوتا ہے. اور پھر وہی لوگ پریکٹکل شعبوں میں جا کر بھی کوئی تخلیقی کام کرنے کے قابل نہیں ہوتے. اور ایسے ہی پروفیشنلز ملک کی تنزلی کا مسلسل باعث بن رھے ھیں.

بین الاقوامی سطح کی اگر بات ہو تب بھی ہم تنہا کھڑے ہوتے ھیں. سچ تو یہ ہے کہ انٹرنیشنلی ہماری کوئی زبان ہے ہی نہیں.

5 comments:

قابلِ محبت لوگ

7:27 AM 0 Comments


میرے لئے ایسے لوگ قابل محبت ھیں جو  (1) جینوئن (کھرّے) ھوں اور (2) مخلص بھی. اور اگر اتفاق سے ایسے لوگ (3) ذھین بھی ھوں، تو اس سے خوبصورت بات اور کیا ھو سکتی ھے

جس میں یہ تینوں خصوصیات موجود ھوں، میں خود کو اُس شخص سے محبت کرنے سے روک نہیں سکتا


خوشی کی بات یہ ھے کہ دنیا میں جینوئن لوگوں کی کمی نہیں. اور مجھے انکے ساتھ مخلص ہوتے دیر بھی نہیں لگتی. مجھے اس سے کوئی انکار نہیں کہ میں دل ہی دل میں ایسے بہت سے لوگوں کوحد درجہ پسند کرتا ھوں.

لیکن پروبلم یہ ھوتا ھے کہ جینوئن لوگوں کے ساتھ وقت گزارنا اور ساتھ چلنا کافی زیادہ مشکل ھوتا ھے. جو دل کے کھرے ہوتے ہیں، ان کی سوچ اور جذبات سیدھے سادے ھوتے ھیں. انہوں نے مشکل مشکل کتابیں نہیں پڑھ رکھی ہوتیں. اگر پڑھی بھی ھوں تو انہوں نے ہماری طرح دوسروں کو متاثر کرنے کے لئے ڈائیلاگ اور لاجک کا رٹا نہیں لگایا ھوتا ، انہوں نے ہماری طرح ایشوز پر پیچیدہ رائے دینا نہیں سیکھا ھوتا. انہیں ڈپلومیٹک بات کرنے کا فن نہیں آتا. (اور اسی لئے تو وہ جینوئن ہوتے ھیں)

ایشوز پر ان کے خیالات جامد ھوتے ھیں، سوچ لچک دار نہیں ھوتی اور اکثر معاملات پر ان کی سوئی ایک جگہ آ کے آڑ جاتی ھے. ان کی محبت بھی خالص اور نفرت بھی خالص. ان کی سوچ بس دو رنگوں "بلیک اینڈ وائٹ" کو سمجھتی ھے جبکہ ہم میسنے لوگ زیادہ تر گرے ایریاز پر سوچتے رھتے ھیں.

تو اکثر ایسا ھوتا ھے کہ ھم اپنی ذات کی پیچیدگیاں انہیں سمجھا نہیں پاتے. اور جب وہ ہمارے جذبات سمجھنے سے قاصر رہتے ھیں تو کبھی ھم خود فرسٹریٹ ہوتے ھیں، اور کبھی انہیں فرسٹریٹ کرنے کی کوشش کرتے ھیں.

میں نے ایسے لوگوں کو پسند کرنا ، ان سے محبت کرنا تو نہیں چھوڑا .. البتہ اب میں نے انہیں اپنی چاہت کا احساس دلانا بند کر دیا ھے.

0 comments:

میں برف ھوں

10:13 PM 1 Comments

میں برف ہوں
-------------
کتنا مشکل ہے
اپنے دن بھر کی سرگرمی میں خود ہی کو ڈھونڈنا
اَن گنت کمنٹس، میسجز، پوسٹس اور نجانے کیا کیا
پھر بھی میری باتوں میں 'میں' نہیں ھوتا
اٰک پتھر ہے کہیں اندر
شیشے کے بُتوں کو مجھ میں بسنے نہیں دیتا
میں مظبوط جو ہوں
تو دُکھ بانٹ نہیں سکتا،
مجھے آنسو نہیں آتے
میں برف ہوں
مجھے آگ نہیں لگتی
میں راکھ نہیں ہوتا
-------------
(خرّم امتیاز)

1 comments:

میں

10:24 AM 0 Comments

بچپن، جوانی، شادی، بچے، کام
اتنے سارے لوگ، رنگ برنگے نام
اپنے آغاز سے تکمیل تک
ممکن ہی نہیں
جو دل میں بس اک ہی صورت ھو
جا بجا مسرتوں
اور بے شمار آنسوؤں میں بٹی
نامراد زندگی بھی جب مکمل ٹھہری
پھر کیا ضروری ھے کہ
من چاہی ھو
خوبصورت ھو
.
! کتنا سکھ
!کتنے تجربے
غلطیاں، ٹھوکریں، سبق
ذمے داریاں !! کچھ پوری ، کچھ اَدھ پوری
کچھ نامکمل، کچھ ادھوری
سب کہانیوں کو ملا کر
بنی اک ہی کہانی
اَن گنت ٹکڑے، چکنا چُور زندگانی
سب تجربوں کا حاصل گویا "میں" ھوں
اپنے لبوں کی یہ ھنسی "میں" ھوں.
میرے چہرے کا ہر اک زخم "میں" ھوں
.
- خرّم امتیاز -

0 comments:

میاں بیوی کا عشق

10:28 PM 0 Comments


شادی کے بعد بیوی سے عشق ..یا اپنے شوہر سے عشق !!!!
میں کہتا ھوں عشق کی ضرورت ہی کیا ھے؟ اسلام نے بھی کب کہا ھے کہ میاں بیوی آپس میں عشق فرمائیں. تو وہ دونوں اگر شریعت کے تلقین کردہ حقوق و فرائض ہی پورے کر دیں تو بڑی بات ھو گی .میاں بیوی کے شرعی رشتے میں عشق ان سے مطلوب ھی نہیں. کبھی عورت کے جذباتی پن کی وجہ سے اور کبھی مرد کے بچپنے کی وجہ سے تسکین کیلئے اس رشتے میں عشق کا فلیوور ایڈ کرنا پڑتا ھے.

ھم پر فکشن، میڈیا اور انڈین فلموں کا اثر اتنا شدید ھے کہ ھم نے بس ہر صورت اور ہر حال میں عشق ضرور کرنا ھے ... لگتا ھے عشق نہ کیا تو زندگی ادھوری رہ جائے گی .. اور اس ادھورے پن کو ختم کرنے کیلئے انسان متعدد بار (سو کالڈ) عشق میں مبتلا ہونے کی کوشش کرتا ھے .... حالانکہ یہ کیفیت کوشش سے ممکن ہی نہیں .. خود اپنے آپ کو، محبوب کو اور دنیا کو اس واہمے میں مبتلا رکھ کر خوش ہوتے ھیں ... جبکہ یہ ہر کسی کے نصیب میں نہیں ھوتا .
ماڈرن دور کے عشق میں سب سے بھیانک پہلو یہ ھے کہ جنس / سیکس کو عشق کے ساتھ لازم و ملزوم قرار دے دیا گیا ھے ... اور چونکہ یہ جذبہ و جنس باآسانی دستیاب بھی ھے تو ہر (جائز و ناجائز) جنسی پریکٹس کرنے والا اپنے اس عمل کی تکمیل کیلئے دل میں عشق و محبت کا آرگمنٹ سوچے ھوتا ھے .. کیونکہ یہ عشق و محبت کی سوچ آپکی اس پریکٹس کو مثبت معنی دینے کا کام کرتی ھے ... دنیا میں ہر انسان کسی نہ کسی طرح اپنے ہر عمل کو مثبت رنگ میں رنگ کر تسکین پانے کی کوشش کرتا ھے. منفی جذبوں کے ساتھ کیے عمل سے حاصل تسکین انسان کو ادھورا بناتی ھے ... جبکہ مثبت تسکین انسان کو مکمل کرنے کا کام کرتی ھے.

لیکن تسکین تسکین ھوتی ھے. یہ ھم پر ھے کہ ھم اپنی تسکین کے جذبے کو اپنے شعور میں کیا معنی دیتے ھیں !! .... لیکن ... شریعت، مذھب، کلچر، آرٹ، سوشل ویلیوز اور گلوبل ویلیوز ... لازم نہیں کہ یہ سب کے سب ایک ساتھ ہماری تسکین کی ڈیفینیشن سے متفق ھوں.

0 comments:

عید میلادالنبی 2015

4:00 PM 0 Comments

فیصل آباد کے مرکزی آٹھ بازاروں میں عید میلادالنبیﷺ کا جلوس بڑے اہتمام سے ہر سال نکالا جاتا ھے. اور یہ ایک کلچر بن چکا ھے. اس بار بچوں کو جلوس دکھانے لیجانے کی ذمے داری میری تھی. اس سے پہلے میرے بچپن سے لے کر اب تک میرے والد ہی یہ ایڈونچر بچوں کو کرایا کرتے تھے

تو جناب بچے بن ٹھن کر میرے ساتھ نکل پڑے اور بچوں نے مختلف مقامات پر جلوس کو خوب انجوائے بھی کیا، یہ لاؤڈ اسپیکروں کا شور اور بیشمار ڈیکوریٹڈ گاڑیوں کی ریل پیل بچوں کے لئے اک نیا تجربہ تھا.

خاص طور پر جلوس میں آراستہ گاڑیوں اور ٹرکوں کی چھتوں سے ٹافیاں، بسکٹ کے پیکٹ، جوس کے ڈبے اور خدا جانے کیا کیا عوام پر پھینکا جا رھا تھا، جسے لوگ تبرک کی طرح لوٹ رھے تھے. اب میرے بچوں نے بھی ضد شروع کر دی کہ میں بھی یہ چیزیں کیچ کر کر کے انہیں دوں، جس امر کیلئے باوجود کوشش بھی میں ہمت جمع نہ کر سکا.

بچوں کو لاکھ سمجھایا لیکن بچوں نے میری مجبوری سمجھنے سے انکار کر دیا ... نئی مصیبت !! میں نے واپسی پر انہیں مارٹ لیجا کر اچھے والے جوس اور کیںڈیاں دلانے کی کوشش کی، لیکن بچے کہتے کہ ھم نے تو وہی جلوس والے جوس اور ٹافیاں ہی لینی تھیں.

یعنی جتنا بھی ان بچوں کو انجوائے کرا دو، لیکن آخر میں کسی چھوٹی سی بات پر رونی صورت بنا کر ہی گھر واپس آتے ھیں. گھر آ کر زاروقطار رونے لگے اور اپنی ماں اور دادی کے ساتھ لگ کر خوب ٹسوے بہائے کہ ابو نے ہمیں وہ چیزیں نہیں لے کر دیں. اور آخر میں بیگم سے یہی طعنہ سننے کو ملا کہ کیا بچوں کی خاطر آپ اتنا بھی نہیں کر سکتے؟ کیا بُرا تھا اگر جمپ کر کے کچھ چیزیں بچوں کیلئے کیچ کر لیتے !!!

0 comments: