فرقان احسان وٹو

10:32 PM 0 Comments

میرے ذھن میں فرقان احسان وٹو کا بھاری بھرکم خاکہ بہت مذہبی نوعیت کا تھا، اور میرے ناقص کردار کے ساتھ مجھے لگتا تھا کہ شائد ان کیساتھ میں زیادہ وقت نہ گزار پاؤں گا، کیونکہ اکثر مولوی قسم کے حضرات اچھے دل کے ملک ہونے کے باوجود پرانے زمانے میں جی رھے ہوتے ھیں، بات بات پر انکے لیکچر سٹارٹ ہو جاتے ھیں اور ایسے لوگوں کے درمیان میں کافی کمیونیکشن گیپ محسوس کرتا ہوں ، لیکن فرقان سے ملاقات پر رائے یکسر غلط ثابت ہوئی.


پہلی ملاقات ایسی تھی کہ وقت گزرنے کا احساس بھی نہیں ہوا ... نہ ہی کوئی اجنبیت محسوس ہوئی ..... چند گھنٹے کیسے گزر گئے پتا بھی نہ چلا ... اور مذہبی وہ بلاشبہ ھیں .. اسلامی رنگ میں مکمل رنگے ہوئے .. لیکن بہت کھلے دل کے .. خود مدلل گفتگو فرماتے ھیں لیکن دوسرے کی بات کو سن کر وزن دینے والے. خاصے خوش خوراک ، ٹیکنالوجی سے ھم آھنگ، ان کی تصویر میں وہ جتنے بھاری بھرکم نظر آتے تھے .. ان کی شخصیت اس کے برعکس ھلکی پھلکی محسوس ہوئی. بڑی دلکش مسکراھٹ کے مالک ھیں، میں تو کہتا ہوں وہ بات نہ بھی کریں، محض مسکراتے ہی رھیں تو بھی کام چلے گا.


 اسکے بعد تایا جی کے گھر مینگو پارٹی پر ملاقات میں ان کی جگتیں سن کر دل باغ باغ ہو گیا ... انکا مجھے 'خرّم بھائی' کی بجائے 'بھائی خرّم' کہہ کر مخاطب کرنے کا انداز بہت اچھا لگتا ہے.


انہوں نے پہلی ملاقات میں مجھے کہا کہ: "بھائی خرّم !! میں پہلی ہی ملاقات میں یا تو دل سے اتر جاتا ہوں .. یا پھر دل میں اتر جاتا ہوں."


میں نے اسی لمحے اپنے دل میں جھانکا، تو وہ جناب پہلے ہی دل میں اتر چکے تھے.

--
نومبر 2014

0 comments:

میری 'صِلہ' اور میڈیکل سائنس

10:34 PM 0 Comments

میری کوشش ہوتی ھے کہ دوست احباب کیساتھ ہمیشہ کوئی پازیٹو یا خوشی کی بات شئیر کی جائے. اس لئے یہ بیٹی کی وفات کا تذکرہ گروپ پر کبھی نہیں کیا. لیکن یہ ایک کڑوی حقیقت ھے. اور صبح آفس آتے ہی پوسٹ دیکھی، لیکن سوچا آفس کی افراتفری میں اس پوسٹ پر کمنٹ نہیں کروں گا.

2008 میں فیصل آباد کے سِول ہسپتال میں CBC کو مد نظر رکھے بغیر میری 13 مہینے کی بیٹی 'صِلہ' کو anesthesia کا انجکشن لگا دیا گیا جس سے وہ کوما میں چلی گئی. اور پھر کچھ دن بعد اس کے تمام نظام آہستہ آھستہ کام کرنا چھوڑ گئے .. وہ وینٹیلیٹر پر چلی گئی اور جانبر نہ ھو سکی.... اس وقت شاید مجھے اور میری فیملی کو زیادہ میڈیکل شعور بھی نہیں تھا اور انتہائی دکھ کے ساتھ ھم نے اس واقعے کو خدا کی مرضی سمجھ کر قبول کر لیا، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ سمجھ لگی کہ اس سارے سانحے میں بنیادی وجہ غلط میڈیکل ٹریٹمنٹ تھا

یہ بہت دلخراش واقعہ ھے میری زندگی کا. ہمیں بہت وقت سنبھلنے میں لگا .... اور مجھے اپنی بیوی کو واپس زندگی میں انٹرسٹ لینے کے لئے بہت محنت کرنا پڑی. یہ سب کسی کو سمجھانا بھی بہت مشکل ھے کہ والدین کس کیفیت سے گزرتے ھیں. اپنی مری ہوئی اولاد بھی کبھی نہیں بھولتی 

میرے میڈیکل سائنس کے بارے میں بہت مکسڈ قسم کے تجربات رھے ھیں ... جن میں سے زیادہ تر ناخوشگوار ہی رھے. اور یہ صرف پاکستان کے سرکاری ہسپتالوں کا مسئلہ نہیں بلکہ پرائیویٹ اور حتی کہ انٹرنیشنل سٹینڈرڈ ہسپتالوں میں بھی کوتاہیاں برتی جاتی ھیں. اگر روٹین سے ہٹ کر کوئی بیماری آ جائے، (جس کا ڈاکٹر کو نالج نہ ھو ) تو اس مریض پر تجربے ہی ہوتے ھیں پھر ..

مجھے افسوس اس بات کا ہوتا ہے کہ ڈاکٹری ایک مقدس پیشہ ھے لیکن ساتھ ہی ساتھ یہ دنیا کا سب سے بڑا بزنس بھی ھے .... پیسہ کمانے کے چکر میں زیادہ تر ڈاکٹرز اتنے مصروف ہو جاتے ھیں کہ اپنے نالج کو اپ ڈیٹ بھی نہیں کرتے . زیادہ تر کیسز میں مریض کے لواحقین کو درست انفارمیشن بھی نہیں بتاتے. اور مریض کے کم علم لواحقین کے لئے ڈاکٹر کی ہر بات حرف آخر ہوتی ہے. جس کا مریض ہسپتال میں ہوتا ہے، اس کو آپ پانچ روپے کا کیپسول پانچ سو میں بھی بیچیں گے تو وہ خریدے گا. اسکے علاوہ جعلی ادویات کو بھی مافیاز کنٹرول کر رھے ھیں. افسوس کی بات ھے کہ میڈیکل کے شعبے میں یہ سب دو نمبریاں ہو رھی ھیں. ناصرف پاکستان میں بلکہ دنیا بھر میں.

---
10 نومبر 2014

0 comments: