محبت

12:56 PM 0 Comments

لفظ "محبت" کو شعراء اور دانشوروں نے آفاقی رنگ و روپ دے کر کنفیوز بنا رکھا ہے، حالانکہ نہ تو یہ کوئی آفاقی جذبہ ہے اور نہ ہی مستقل، جب بنیادی ڈیفینیشن کے مطابق "جذبات" متغیر انسانی کیفیات ہیں. تو پھر کوئی ایک جذبہ کیونکر کانسٹنٹ (مستقل) ہو سکتا ہے؟ ہر جذبہ کسی طلب سے منسلک ہے. کوئی رکاوٹ نہ ہو اور دو طرفہ ڈیمانڈ اور سپلائی بھلے متواتر جاری رہے تب بھی انسان کی زندگی میں یکسانیت و بے مقصدیت کے  جذبات فعال ہوکر باقی جذبوں کو بریک لگوا سکتے ہیں


اس موضوع کے حوالے سے میں لوگوں سے بہت تنگ ہوں، شاید انھیں ابھی تک محبت، شفقت، تشکر وغیرہ میں فرق ہی نہیں معلوم. احساسات کو مکس کر کے سوچنے کا مطلب یہ ہے کہ ہم ان میں سے کسی ایک بھی جذبے کو مکمل طور پر محسوس کرنے سے قاصر ہیں
جب بھی محبت کی بات ہوتی ہے تو کچھ شریف النفس لوگ ممتا و شفقت کی مثالیں اٹھا کر لے آتے ہیں اور مذہبی رجحان رکھنے والے عشق حقیقی کا راگ الاپنے لگتے ہیں.
جبکہ ماں باپ کا تصور کر کے نہ تو ہمارا دل میٹھی میٹھی تیز دھڑکنیں لیتا ہے اور نہ ہی نارمل انسانوں میں عشق حقیقی کی کوئی مثال ڈھونڈے سے ملتی ہے.



0 comments:

سانحہ

12:56 PM 0 Comments

جہاں ہر فریق آدھا سچا اور آدھا جھوٹا ہو اُس معاشرے میں غلط اور صحیح کے درمیان دور دور تک سوالیہ نشانوں کی قطاریں کھڑی ہوتی ہے. ظالم اور مظلوم کے درمیان کوئی بارڈر لائن باقی نہیں رہتی. تب وہاں کسی ایک کا ساتھ دینے کی کوشش کی جائے تو ہر لاجک ادھوری نظر آتی ہے.



0 comments: