سال 2015 اور میں

10:52 AM 0 Comments

اپنی تمامتر حشر سامانیوں کیساتھ یہ سال بھی اپنے اختتام کو پہنچا.

جنوری ویسا ہی سرد اور خشک رہا جس میں "خشک پتوں کی طرح لوگ اڑے جاتے ہیں ___ شہر بھی اب تو نظر آتا ہے جنگل کی طرح" سانخہءِ آرمی پبلک سکول کی اداسیاں دل پر حاوی تھیں.

جنم دن اور شادی کی سالگرہ کے کیک کے ساتھ فروری میں بہاروں سے میٹھی گفتگو رہی کہ "بہارو میرا جیون بھی سنوارو، کوئی آئے کہیں سے، یوں پکارو" .. یہ پکار سن کر نعمان لاشاری پاکستان آئے. اور پھر کچھ دن فیس بک کے اندر باہر خوب ہلچل مچی رہی.

مارچ میں سارے خاندان والوں کا دورہءِ لاہور، فوڈ سٹریٹ پر یادگار ڈنر، اور پھر کلر کہار کے نزدیک دریافت شدہ نئی "سوائیک جھیل" کے دلکش بسنتی مناظر " تمہی سے دل نے سیکھا ہے دھڑکنا، تمہی کو دوش دوں گا اے نظارو"  جیسی جذباتی سوچوں کے بیچوں بیچ مگر کچھ بچوں کو سوری اور تھینک یو سکھانے کا ایک غیر جذباتی کام بہرحال ہم سے پھر بھی سرزد ہو گیا.

اپریل سے پہلے ہی کمپنی نے اپریل فول بناتے ہوئے باوجود اصرار کے  تنخواہ نہ بڑھائی .. گویا "میرا جیون کورا کاغذ، کورا ہی رہ گیا __ جو لکھا تھا آنسوؤں کے سنگ بہہ گیا" .. مزید یہ کہ انہی دنوں فیس بک پر 100 لفظوں والی ایکٹیویٹی کے تجزئوں کا بوجھ اپنے سر لے کر بد سے بدنام ہوتے پھرے.

مئی میں ہمارے فیس بک کے چند غیر مرئی دوستوں نے انٹرنیٹ پر ہمارے بیٹھنے کو اک بیٹھک کا انتظام کیا جو ہمارے لئے فیس بک پر اُٹھک بیٹھک کا واحد ذریعہ بن گئی. مئی کا مہینہ اگلے تین مہینوں کی  گرمی کے ڈر سے خوفزدہ ہوتے ہوئے گزر گیا. صد شکر کہ اس بار لوڈشیڈنگ کم رہی اور ہم فرائی ہونے کی بجائے صرف باربی کیو ہی بن سکے. سوچا کہ "جلا ہے جسم جہاں دل بھی جل گا ہو __ کریدتے ہو جو اب راکھ، جستجو کیا ہے" .. مگر "یہ چنگاری بھی یا رب اپنی خاکستر میں تھی" کہ ان گرمی کی شاموں  میں بھی چند ایک بڑی سہانی تھیں، جن میں سے ایک مجھے یاد آ رہی ہے مسٹر بورِنگ توصیف احمد کے ساتھ باغ جناح میں بنچ پر بیٹھ کر گاتے ہوئے "کھویا کھویا چاند__ کُھلا آسمان" اور "میں یہ سوچ کر اسکے ڈر سے اٹھا تھا"

جون  میں روزے ... ان دنوں کا ذکر کرتے زبان پر پسینے آ جاتے ہیں ...لیکن پھر بھی کچھ قابل ذکر یادیں بادشاہی مسجد کے پڑوس میں بیٹھکئینز کے ساتھ یادگار افطاری. فرقان وٹو کی بغل میں رنگیلے رکشے کی سواری کے دوران ”چل چلئے دنیا دی اوس نکرے __ جتھے بندہ نہ بندے دی ذات ہووے“ ___، پھر دفتر والوں کیطرف سے رائل پالم میں گرینڈ فیملی افطار ڈنر جس میں شرکت کو ہمارے اہل خانہ فیصل آباد سے آئے. اور پھر اگلے ہی دن بیٹھک خواتین کی گرینڈ افطاری میں بیگم صاحبہ اور حلیمہ کی شرکت .. بیٹھک کے بڑھتے ہوئے احسانات "آپ کی عنایتیں، آپ کے کرم __ آپ ہی بتائیں کیسے بھولیں گے ہم" __ اسی دن شمائلہ بھابھی، عنبرین خان ، عاصمہ سلیم اور سیدہ کلثوم سے  مختصر ملاقات ہوئی

جولائی میں حبس زدہ سوچوں کا غلبہ رہا جب تک کہ عمران قاضی اور ساجد حسین کے ساتھ لگی یادگار بیٹھک کا دن نہ آ گیا..... اور یوسف لغاری سے ہوئی واحد ملاقات کی ٹوون ٹووں ٹووووں جس کے بارے میں فقط یہ تبصرہ : ”یہ کیا ہوا؟ کیسے ہوا؟ کیوں ہوا؟ کب ہوا؟ کیوں ہوا ؟____ جب ہوا، تب ہوا ___ او چھوڑو ، یہ نہ سوچو “
ارے ہاں یاد آیا اس سے اگلے ہی دن آمنہ ملک کی دعوت پر گوجرانوالہ یاترا بھی کی اور اس ون ڈے ٹوور کی ہر اک بات ذہن میں نقش ہے، بشمول اس یاد کے کہ ہماری میزبان وکیلنی سے قبل ہم خود دعوت کدے پر موجود تھے اور وہ کورٹ میں اپنے مقدمے بھگتانے میں مصروف تھیں. جس کا بدلہ ہم نے یوں لیا کہ قاضی اور آمنہ کو گفتگو میں مشغول کر کے ہم خود کھانے میں مشغول رہے.

لاہور سے گوجرانوالہ کے راستے میں قاضی صاحب کو خوب بور کیا کہ گاڑی میں میوزک سسٹم بھی نہیں تھا اور ہم انہیں ڈیڈیکیٹ کرنا چاہتے تھے "چودہویں کا چاند" .....  سچ یہ ہے کہ وہ ساعتیں کمال کی تھیں اور "یوں گماں ہوتا 'تھا' گرچہ ہے ابھی صبحِ فراق __ ڈھل گیا ہجر کا دن آ بھی گئی وصل کی رات" کی فیلنگز ابھی جاری تھی کہ وقتِ رخصت آن پہنچا. اور قاضی سے مانوس ہوتے ہوتے اتنا زیادہ وقت لگ گیا مگر " ہم کہ ٹھہرے اجننی اتنی مداراتوں کے بعد ___ پھر بنیں گے آشنا کتنی ملاقاتوں کے بعد "

اگست میں ثوبیہ ناز سے ملاقات یادگار رہی، جس کے بہانے ہم بیٹھک کی روایات کے برعکس ایک بوفے ڈنر میں جا دھمکے، پھر ہماری توجہ کی طالب مہمان تو ہمارا منہ ہی تکتی رہ گئی، کیونکہ ہماری توجہ کھانوں کی کوالٹی جانچنے پر مرکوز تھی "جس سمت بھی دیکھوں نظر آتا ہے کہ تم ہو ___ اے جانِ جہاں یہ کوئی تم سا ہے کہ تم ہو"

ماہِ ستمبر لاہور میں در در کی خاک چھانتے گزرا کہ فیملی کو فیصل آباد سے لاہور لانا مقصود تھا. بالاخر اکتوبر میں اس کارِ خیر سے سبکدوش ہوئے، مگر سبکدوش ہوئے نہیں، کیوںکہ زندگی اچانک سے یکسر تبدیل ہو گئی. ذمے داریاں !!! جن میں بچوں کو سکول پہنچانے اور لانے کی انوکھی ذمے داری، اور خواتین کی نہ ختم ہونے والی خریداری ہماری دوسری خوامخواہ کی سوشل مصروفیات کیلئے جان لیوا ثابت ہوئیں. ”کیا سے کیا ہو گیا بیوفا تیرے پیار میں ___ چاہا کیا ، کیا مِلا، بیوفا تیرے پیار میں“

اکتوبر اور نومبر میں مابدولت کی کینوس اور رنگوں سے جاری زور آزمائی میں رنگ باتیں کرتے رہے، اور ان باتوں کی خوشبو سے ہم معطر ہوا کئے. لاہور میں گھر کا پکا کھانا ملنا شروع ہوا تو اک روز بٹ کدے پر لاہوری بیٹھکئینز کو بھی ہم نوالہ و ہم پیالہ کرنے کی غرض سے  بیگم کے ہاتھ کی سپائسی بریانی کھلا کر ان معصوموں کو بے جا اشکبار کیا. اس دعوت میں فرقان بھائی نے بھی شرکت کی تھی .. جس کا بدلہ ان سے بمع سود اگلے ہی مہینے سیالکوٹ جا کر وصول کیا گیا. ”اپنا پتا ملے نہ خبر یار کی ملے ___ دشمن کو بھی نہ ایسی سزا پیار کی ملے“

دسمبر میں عاصمہ سلیم، آمنہ ملک اور عنبرین خان نے شرکت کر کے حسن کی سالگرہ کو یادگار بنایا. عاصمہ کے ہاتھ کے بنے کیک کی شیرینی  نے "ہائے دسمبر" کو "واؤ دسمبر"  کر دیا. ابوبکر جتوئی اور محمد طلحہ کی شکل میں لاہوری بیٹھکئینز کی لسٹ میں دو پیارے دوست شامل ہوئے.
 سال کا سب سے بڑا ایڈونچر ہمارے کزن عدنان بٹ کی شادی کی صورت میں برپا ہوا، جس میں میرے آفس سے بارہ چھٹیوں کے دوران بہنوں نے بچوں سمیت اپنے سسرال سے آکر فیصل آباد والے گھر میں رونق لگا دی. پکنک، عید میلادالنبی ، پیزا پارٹی، سوپ پارٹی، اور میری توقعات سے بڑھ کر ننھی ننھی بیشمار خوشیاں جن کے لئے اللہ کا جتنا شکر ادا کروں کم ہے.

اس سال کے اختتام پر زندگی کا محاسبہ کیا کریں .. کہ کیا کھویا اور کیا پایا ؟
کھویا تو شاید کچھ بھی نہیں اور اپنے وزن میں خاطر خواہ اضافے کی صورت بہت کچھ پا لیا :) مگر زندگی کی پیاس ابھی بھی ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی.
"
قطرہ قطرہ ملتی ہے
قطرہ قطرہ جینے دو
زندگی ہے !! بہنے دو
پیاسی ہوں میں پیاسی رہنے دو
"

0 comments:

16 دسمبر

4:15 AM 0 Comments

آرمی اسٹیبلشمنٹ کو چاہئے کہ سقوط ڈھاکہ سے پہلے جو حالات مشرقی پاکستان میں پیدا کر دیئے گئے تھے، ان پس پردہ حقائق اور ذمے داران کے نام منظر عام پر لائے جائیں. ہمیں بتایا جائے کہ نوے ہزار فوجیوں نے کیونکر بھارتی فوج کے آگے ہتھیار ڈال دیئے تھے؟ کیا اسکی وجہ یہ تو نہیں کہ ہمارا مقابلہ بیک وقت انڈین آرمی کے ساتھ ساتھ بنگالی عوام کے ساتھ بھی تھا؟ اگر ہم بنگالی عوام کے ساتھ بھی برسر پیکار تھے تو ایسا کیوں ہو رہا تھا؟ کیا وہ بغاوت تھی یا زبردستی تسلط قائم رکھنے کی جارحانہ پالیسی ؟ ایوب خان کا دور جس کے بارے میں ہمیں بتلایا جاتا ہے کہ بہت خوشحالی آئی اس خوشحال دورِ حکومت میں حالات سقوط ڈھاکہ کی جانب کیوں گامزن تھے ؟................ ہمیں کتابوں میں جس طرح پڑھایا گیا تو لگتا تھا کہ سقوط ڈھاکہ بس ایک دن میں ہو گیا .. اور ملک کے دو ٹکڑے ہو گئے. اب مجھے جو سمجھ آ رہی ہے وہ یہ کہ بنگالیوں نے باقاعدہ تحریک آزادی لڑی تھی پاکستانی فوج کے خلاف .

میں ملک کے تعلیم یافتہ طبقے سے تعلق کے باوجود اتنا کنفیوز ہوں تو سوچئے دوسرے کم تعلیم یافتہ اور ان پڑھ طبقہ کے اس بارے نالج کی حالت کیا ہو گی؟



آخر کب تک آرمی اسٹیبلشمنٹ سے کوئی بھی سوال پوچھنے کو فوج کی بدنامی کے زمرے میں ڈال کر خاموشی اختیار کی جائے گی؟

آرمی کو چاہئے کہ سقوط ڈھاکہ کے بعد افغان سویت یونین کی جنگ میں پاکستانی فوج کا کردار وضح کریں، طالبان کی افزائش اور افغانی معاملات میں زائد از ضرورت انوولومنٹ کی وضاحت کریں. ہماری کیا مجبوری تھی جو ہمیں وہ سب کرنا پڑا .... اسکے بعد دہشت گردی کی جنگ میں امریکا کیساتھ ملکر قبائلیوں و افغانیوں کو نیست و نابود کرنے کی پالیسی کی وضاحت کی جائے.

یقین مانئے عام آدمی پاک فوج سے محبت کرتا ہے لیکن وہ حد درجہ کنفیوزڈ ہے. مجھے ایسے شخص کو بھی معلوم نہیں کہ ہمارے ملک کی خارجہ پالیسی آخر ہے کیا؟ ہماری انڈیا کے بارے میں سوچ کلئیر نہیں، اسرائیل کے بارے میں موقف مبہم ہے. ہماری عوام امریکا سے نفرت کرتی ہے مگر ہر دور میں ہماری فوج اور حکومتیں امریکا کے تلوے چاٹتی نظر آتی ہیں... ہمیں ایشوز پر ملک کی ایک ہارڈ لائن پالیسی کیوں نہیں بتلائی جاتی؟ ہم کس بات پر اگریسیوو ہوں کس بات کو ڈیفنڈ کریں ... ہمیں کچھ نہیں معلوم .. ہم کنفیوزڈ قوم بن گئے ہیں

بینظیر قتل کی انویسٹیگیشن میں فوج اور ایجنسیوں نے نے کوئی بھی کردار کیوں ادا نہ کیا؟

عوام کو بتایا جائے کہ آگے اس ملک کی پالیسی دشمن کے بچوں کو پڑھانے کے علاوہ اور کیا ہے ؟؟

یاستدانوں کو ملک ٹھیک سے نہ چلانے پر گالی پڑتی ہے ..... مگر آپ ہسٹری پڑھیں ... جس طرح ایوب خان نے اپنی مرضی سے سب پرانے سیاستدانوں کا صفایا کرکے نئے سیاستدانوں کی پود تیار کی، آج تک ہر سیاسی جماعت میں اسی فیکٹری سے تیار کردہ سیاستدانوں کا تسلسل چلا آ رہا ہے ... اس ملک سے جمہوری سیاست کا خاتمہ اور حقیقی دھاندلی کا آغاز اسی دن ہو گیا تھا جس دن فاطمہ جناح کو دھاندلی سے ہرایا گیا تھا .........جنرل ضیاء اور پھر جنرل مشرف نے اسی ایوب والی پالیسی کو دہرا کر ہر دس سال بعد اسی ایوبی فلسفے اور سیاستدان بنانے کی فیکٹری کو جلا بخشی. ____________ جن دس سالوں میں فوج حکومت پر قابض نہیں ہوتی ان دس سالوں میں قوم کو سیاستدانوں کو گالی دینے کی نوکری پر معمور کر دیا جاتا ہے ... اسلئے موجودہ ملکی ابتری میں سیاستدانوں سے زیادہ آرمی اسٹیبلشمنٹ کو قصور وار خیال کرتا ہوں.
 

0 comments:

گاندھی دنیا میں جناح سے زیادہ مقبول کیوں؟

4:16 AM 0 Comments


پہلی بات یہ کہ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ گاندھی جی بین الاقوامی طور پر جناح سے بہت زیادہ مقبول ہیں. لیکن میرا نہیں خیال کہ اس فیکٹر کے پیچھے پاکستانیوں کی کوئی کوتاہی شامل ہے. ٹین ایج میں مجھے بھی ملال ہوتا تھا کہ ہمارے لیڈر جناح کو دنیا میں اسطرح لوگ کیوں نہیں جانتے جس طرح گاندھی کو جانتے ہیں ...

1 - قائد اعظم ہمارے لئے بہت بڑے لیجنڈ رہنما ہیں لیکن وہ صرف برصغیر کی چند ریاستوں (صوبوں) کے مسلمانوں کے لیڈر تھے، انہوں نے یہاں کے مسلمانوں کے حقوق کی جدوجہد لڑی اور مسلمانوں کے لئے الگ ملک حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے، ان ریاستوں میں بھی ان کے مسلمان مخالفین بہت اکثریت میں تھے. .......... جبکہ گاندھی پوری دنیا کے ہندوؤں کے واحد لیجنڈ لیڈر کے طور پر متعارف کروائے گئے. انہیں مہاتما گاندھی کا درجہ دیا گیا.




2 - قائداعظم کی سیاست، افکار، نظریات اور جدوجہد صرف برصغیر کے مسلمانوں کے مسائل اور پاکستان کی آزادی کے گرد گھومتی ہے. ............. جبکہ گاندھی کی جانب سے ہندوستان کی تحریک آزادی کے رہنما ہونے کے علاوہ بہت سے معاملات میں یونیورسل فلسفے کی سوچ سامنے آئی. جو ناصرف بہت حد تک عیسائیت کے بنیادی مذہبی عقائد سے مماثلت رکھتی ہے بلکہ جدید دنیا کے لئے یسوع مسیح کے وچاروں کی ارتقائی تشریح خوبصورت انداز میں کرتی ہے ... ان فلسفوں میں فلسفہءِ عدم تشدد ، انتہائی صلح جوئی، شدت پسندی کی نفی، ظلم برداشت کرنا، خاموش احتجاج ، سول نافرمانی پر عمل ، احتجاجی دھرنوں کی عملی سیاست، بھوک ہڑتال ... کسی کے پہلے تھپڑ کے جواب میں اپنا دوسرا گال بھی پیش کر دینا وغیرہ وغیرہ اور ایسی ہی بہت سی سوچیں شامل ہیں .... کرسچینز کو یہ سب باتیں اپنے مذہبی افکار سے قریب ترین محسوس ہوتی تھیں اور یہ سب باتیں قیام پاکستان سے بہت پہلے سے مغربی لٹریچر کا حصہ بننے لگی تھیں.... گاندھی نے تحریک آزادی سے پہلے نسلی تعصب (racism) کی تحریک سے شہرت پائی، جو آج ماڈرن دنیا کا ایک حقیقی ایشو سمجھا جاتا ہے ..... امریکہ میں پچاس ساٹھ کی دہائی میں کالے لوگوں کی تحریک کے روح رواں "مارٹن لوتھر کنگ" تک اپنی تحریک میں گاندھی کے اقوال کے حوالے دیا کرتے تھے. وہ تحریک بھی کامیاب ہوئی، اور امریکا میں کالوں کو حقوق ملنا شروع ہوئے نسلی تعصب کا خاتمہ شروع ہوا ..





3 - گاندھی کی شخصیت اور افکار پر انٹرنیشنل سطح پر بہت کچھ لکھا اور سراہا گیا ہے، ھالی ووڈ لیول پر ان کی شخصیت پر فلمیں بنی ہیں. 1981 میں ھالی ووڈ میں بننے والی فلم "گاندھی" نے نو آسکر ایوارڈ جیت کر پہلی بار کسی ایک ہی فلم کی جانب سے اتنے زیادہ آسکر جیت کر نئی تاریخ رقم کی تھی ....... اور یقین مانئے وہ فلم دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے ..... اس کے علاوہ دیگر قابل ذکر فلموں میں 1985 کی فلم "میں نے گاندھی کو نہیں مارا" اور 2006 میں ریلیز ہوئی فلم "لگے رہو منا بھائی" شامل ہیں. ______ اس تمام لٹریجر اور فلموں کو دیکھنے کے بعد یہ بات خود بخود سمجھ آتی ہے کہ گاندھی محض ایک فریڈم فائٹر نہیں تھے، ان کی شخصیت اور افکار کے بہت سے پہلو تھے جنہیں بین الاقوامی طور پر پسند کیا جاتا ہے ....

اس کے علاوہ میں ایک فلم "The Great Debaters" دیکھ کر حیران ہوا، جس میں چالیس کی دھائی میں امریکا میں کالج سٹوڈنٹس کے مابین تقریر بازی کے مقابلوں کا رجحان دکھایا گیا .... فلم کے آخر میں سٹوڈنٹس کی ٹیم کو فائنل تقریر کے لئے کوئی موضوع سمجھ نہیں آ رہا تھا تو انہوں نے گاندھی کے افکار کو بنیاد بناتے ہوئے اپنی تقریر لکھی ... اور وہ تقریری مقابلہ جیت لیا ... جس سے مجھے اندازہ ہوا کہ چالیس کی دھائی میں گاندھی کے فلسفے بین الاقوامی سطح پر فیشن کا درجہ حاصل کر چکے تھے
 

تو میری ذاتی رائے میں ہمیں گاندھی کو محض ہندؤں کا ایک لیڈر اور فریڈم فائٹر سمجھتے ہوئے ان کا مقابلہ قائد اعظم محمد علی جناح کیساتھ نہیں کرنا چاہئے. کیونکہ گاندھی تحریک آزادی کے رہنما سے بڑھ کر بہت کچھ تھے، وہ ہندوستان کے علاوہ بھی دنیا بھر کے لوگوں کی سوچ بدلنے کا باعث بنے، اور بن رہے ہیں ..... اور آج اگر وہ زیادہ مقبول ہیں تو یہ انکا حق بنتا ہے



ایک مزے کی بات جو میری ذاتی رائے ہے. (اگر کسی کی دل آزاری نہ ہو)

آج ہم لوگ پاکستان میں، اور ہندوستانی وہاں بھارت میں بڑی اچھل کود کرتے ہیں کہ ہم نے انگریزوں کو یہاں سے مار بھگایا، اور آزادی حاصل کر لی :) .... جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے برصغیر کے لیڈران نے زور تو بہت لگایا لیکن ان سے بن کچھ نہیں پا رہا تھا. آج ان موضوعات پر بعد میں جو فلمیں ڈرامے اور مضامین لکھے جاتے رہے ان میں اس دور کی انگریز حکومت پر ہندوؤں اور مسلمانوں کا شدید پریشر دکھایا جاتا ہے ........... جبکہ ایسا کوئی چکر نہیں تھا، انگریز حکومت آخر دم تک یہاں سٹرونگ تھی ... انگریزوں نے طاقت کے زور پر یہاں حکومت قائم کی تھی، اور وہ طاقت کے زور پر برصغیر عمدگی سے چلا رہے تھے، انہوں نے جو زبردست ترقیاتی کام اس دور کے برصغیر میں کیے انکی مثال نہیں ملتی ...... وہ ان آزادی کی تحاریک کے پریشر میں آنے والے نہیں تھے... ہاں وہ یہاں کی عوام پر ظلم بھی کرتے ہوں گے ... کیونکہ غلامی کی قیمت بہرحال غلاموں کو ادا کرنی پڑتی ہے ....

تو پھر سوال یہ ہے کہ بھارت/پاکستان کی آزادی کیوں کر ممکن ہو پائی؟ اس سوال کا عام فہم میں جواب یہ ہے کہ دوسری جنگِ عظیم کے خاتمے کے بعد جو سیاسی و معاشی حالات تھے ان حالات میں تاج برطانیہ کے لیے ممکن ہی نہ رہا تھا کہ وہ اپنے نوآبادیاتی مقبوضہ جات پر اپنا تسلط برقرار رکھ پاتا۔ انہوں نے اسی طرح برصغیر سے جان چھڑانے میں عافیت سمجھی جسطرح آج امریکا اپنے مقاصد پورے ہو جانے پر افغانستان اور عراق سے نکل رہا ہے ...برطانیہ کی معاشی اور اقتصادی بہتری کیلئے انہیں تب یہاں سے جانا ہی تھا. بہرکیف 14اور 15 اگست 1947 کی درمیانی شب پاکستان اور بھارت الگ ممالک کے طور پر معرض وجود میں آ گئے۔ برطانوی سامراج سے (سو کالڈ) آزادی مل گئی۔ اور ہم نے حقیقی عملی آزادی کی جانب گامزن ہونے کی بجائے صرف اپنے لیجنڈز کو پوجنا شروع کر دیا :)
 

0 comments: