سال 2015 اور میں
اپنی تمامتر حشر سامانیوں کیساتھ یہ سال بھی اپنے اختتام کو پہنچا.
جنوری ویسا ہی سرد اور خشک رہا جس میں "خشک پتوں کی طرح لوگ اڑے جاتے ہیں ___ شہر بھی اب تو نظر آتا ہے جنگل کی طرح" سانخہءِ آرمی پبلک سکول کی اداسیاں دل پر حاوی تھیں.
جنم دن اور شادی کی سالگرہ کے کیک کے ساتھ فروری میں بہاروں سے میٹھی گفتگو رہی کہ "بہارو میرا جیون بھی سنوارو، کوئی آئے کہیں سے، یوں پکارو" .. یہ پکار سن کر نعمان لاشاری پاکستان آئے. اور پھر کچھ دن فیس بک کے اندر باہر خوب ہلچل مچی رہی.
مارچ میں سارے خاندان والوں کا دورہءِ لاہور، فوڈ سٹریٹ پر یادگار ڈنر، اور پھر کلر کہار کے نزدیک دریافت شدہ نئی "سوائیک جھیل" کے دلکش بسنتی مناظر " تمہی سے دل نے سیکھا ہے دھڑکنا، تمہی کو دوش دوں گا اے نظارو" جیسی جذباتی سوچوں کے بیچوں بیچ مگر کچھ بچوں کو سوری اور تھینک یو سکھانے کا ایک غیر جذباتی کام بہرحال ہم سے پھر بھی سرزد ہو گیا.
اپریل سے پہلے ہی کمپنی نے اپریل فول بناتے ہوئے باوجود اصرار کے تنخواہ نہ بڑھائی .. گویا "میرا جیون کورا کاغذ، کورا ہی رہ گیا __ جو لکھا تھا آنسوؤں کے سنگ بہہ گیا" .. مزید یہ کہ انہی دنوں فیس بک پر 100 لفظوں والی ایکٹیویٹی کے تجزئوں کا بوجھ اپنے سر لے کر بد سے بدنام ہوتے پھرے.
مئی میں ہمارے فیس بک کے چند غیر مرئی دوستوں نے انٹرنیٹ پر ہمارے بیٹھنے کو اک بیٹھک کا انتظام کیا جو ہمارے لئے فیس بک پر اُٹھک بیٹھک کا واحد ذریعہ بن گئی. مئی کا مہینہ اگلے تین مہینوں کی گرمی کے ڈر سے خوفزدہ ہوتے ہوئے گزر گیا. صد شکر کہ اس بار لوڈشیڈنگ کم رہی اور ہم فرائی ہونے کی بجائے صرف باربی کیو ہی بن سکے. سوچا کہ "جلا ہے جسم جہاں دل بھی جل گا ہو __ کریدتے ہو جو اب راکھ، جستجو کیا ہے" .. مگر "یہ چنگاری بھی یا رب اپنی خاکستر میں تھی" کہ ان گرمی کی شاموں میں بھی چند ایک بڑی سہانی تھیں، جن میں سے ایک مجھے یاد آ رہی ہے مسٹر بورِنگ توصیف احمد کے ساتھ باغ جناح میں بنچ پر بیٹھ کر گاتے ہوئے "کھویا کھویا چاند__ کُھلا آسمان" اور "میں یہ سوچ کر اسکے ڈر سے اٹھا تھا"
جون میں روزے ... ان دنوں کا ذکر کرتے زبان پر پسینے آ جاتے ہیں ...لیکن پھر بھی کچھ قابل ذکر یادیں بادشاہی مسجد کے پڑوس میں بیٹھکئینز کے ساتھ یادگار افطاری. فرقان وٹو کی بغل میں رنگیلے رکشے کی سواری کے دوران ”چل چلئے دنیا دی اوس نکرے __ جتھے بندہ نہ بندے دی ذات ہووے“ ___، پھر دفتر والوں کیطرف سے رائل پالم میں گرینڈ فیملی افطار ڈنر جس میں شرکت کو ہمارے اہل خانہ فیصل آباد سے آئے. اور پھر اگلے ہی دن بیٹھک خواتین کی گرینڈ افطاری میں بیگم صاحبہ اور حلیمہ کی شرکت .. بیٹھک کے بڑھتے ہوئے احسانات "آپ کی عنایتیں، آپ کے کرم __ آپ ہی بتائیں کیسے بھولیں گے ہم" __ اسی دن شمائلہ بھابھی، عنبرین خان ، عاصمہ سلیم اور سیدہ کلثوم سے مختصر ملاقات ہوئی
جولائی میں حبس زدہ سوچوں کا غلبہ رہا جب تک کہ عمران قاضی اور ساجد حسین کے ساتھ لگی یادگار بیٹھک کا دن نہ آ گیا..... اور یوسف لغاری سے ہوئی واحد ملاقات کی ٹوون ٹووں ٹووووں جس کے بارے میں فقط یہ تبصرہ : ”یہ کیا ہوا؟ کیسے ہوا؟ کیوں ہوا؟ کب ہوا؟ کیوں ہوا ؟____ جب ہوا، تب ہوا ___ او چھوڑو ، یہ نہ سوچو “
ارے ہاں یاد آیا اس سے اگلے ہی دن آمنہ ملک کی دعوت پر گوجرانوالہ یاترا بھی کی اور اس ون ڈے ٹوور کی ہر اک بات ذہن میں نقش ہے، بشمول اس یاد کے کہ ہماری میزبان وکیلنی سے قبل ہم خود دعوت کدے پر موجود تھے اور وہ کورٹ میں اپنے مقدمے بھگتانے میں مصروف تھیں. جس کا بدلہ ہم نے یوں لیا کہ قاضی اور آمنہ کو گفتگو میں مشغول کر کے ہم خود کھانے میں مشغول رہے.
لاہور سے گوجرانوالہ کے راستے میں قاضی صاحب کو خوب بور کیا کہ گاڑی میں میوزک سسٹم بھی نہیں تھا اور ہم انہیں ڈیڈیکیٹ کرنا چاہتے تھے "چودہویں کا چاند" ..... سچ یہ ہے کہ وہ ساعتیں کمال کی تھیں اور "یوں گماں ہوتا 'تھا' گرچہ ہے ابھی صبحِ فراق __ ڈھل گیا ہجر کا دن آ بھی گئی وصل کی رات" کی فیلنگز ابھی جاری تھی کہ وقتِ رخصت آن پہنچا. اور قاضی سے مانوس ہوتے ہوتے اتنا زیادہ وقت لگ گیا مگر " ہم کہ ٹھہرے اجننی اتنی مداراتوں کے بعد ___ پھر بنیں گے آشنا کتنی ملاقاتوں کے بعد "
اگست میں ثوبیہ ناز سے ملاقات یادگار رہی، جس کے بہانے ہم بیٹھک کی روایات کے برعکس ایک بوفے ڈنر میں جا دھمکے، پھر ہماری توجہ کی طالب مہمان تو ہمارا منہ ہی تکتی رہ گئی، کیونکہ ہماری توجہ کھانوں کی کوالٹی جانچنے پر مرکوز تھی "جس سمت بھی دیکھوں نظر آتا ہے کہ تم ہو ___ اے جانِ جہاں یہ کوئی تم سا ہے کہ تم ہو"
ماہِ ستمبر لاہور میں در در کی خاک چھانتے گزرا کہ فیملی کو فیصل آباد سے لاہور لانا مقصود تھا. بالاخر اکتوبر میں اس کارِ خیر سے سبکدوش ہوئے، مگر سبکدوش ہوئے نہیں، کیوںکہ زندگی اچانک سے یکسر تبدیل ہو گئی. ذمے داریاں !!! جن میں بچوں کو سکول پہنچانے اور لانے کی انوکھی ذمے داری، اور خواتین کی نہ ختم ہونے والی خریداری ہماری دوسری خوامخواہ کی سوشل مصروفیات کیلئے جان لیوا ثابت ہوئیں. ”کیا سے کیا ہو گیا بیوفا تیرے پیار میں ___ چاہا کیا ، کیا مِلا، بیوفا تیرے پیار میں“
اکتوبر اور نومبر میں مابدولت کی کینوس اور رنگوں سے جاری زور آزمائی میں رنگ باتیں کرتے رہے، اور ان باتوں کی خوشبو سے ہم معطر ہوا کئے. لاہور میں گھر کا پکا کھانا ملنا شروع ہوا تو اک روز بٹ کدے پر لاہوری بیٹھکئینز کو بھی ہم نوالہ و ہم پیالہ کرنے کی غرض سے بیگم کے ہاتھ کی سپائسی بریانی کھلا کر ان معصوموں کو بے جا اشکبار کیا. اس دعوت میں فرقان بھائی نے بھی شرکت کی تھی .. جس کا بدلہ ان سے بمع سود اگلے ہی مہینے سیالکوٹ جا کر وصول کیا گیا. ”اپنا پتا ملے نہ خبر یار کی ملے ___ دشمن کو بھی نہ ایسی سزا پیار کی ملے“
دسمبر میں عاصمہ سلیم، آمنہ ملک اور عنبرین خان نے شرکت کر کے حسن کی سالگرہ کو یادگار بنایا. عاصمہ کے ہاتھ کے بنے کیک کی شیرینی نے "ہائے دسمبر" کو "واؤ دسمبر" کر دیا. ابوبکر جتوئی اور محمد طلحہ کی شکل میں لاہوری بیٹھکئینز کی لسٹ میں دو پیارے دوست شامل ہوئے.
سال کا سب سے بڑا ایڈونچر ہمارے کزن عدنان بٹ کی شادی کی صورت میں برپا ہوا، جس میں میرے آفس سے بارہ چھٹیوں کے دوران بہنوں نے بچوں سمیت اپنے سسرال سے آکر فیصل آباد والے گھر میں رونق لگا دی. پکنک، عید میلادالنبی ، پیزا پارٹی، سوپ پارٹی، اور میری توقعات سے بڑھ کر ننھی ننھی بیشمار خوشیاں جن کے لئے اللہ کا جتنا شکر ادا کروں کم ہے.
اس سال کے اختتام پر زندگی کا محاسبہ کیا کریں .. کہ کیا کھویا اور کیا پایا ؟
کھویا تو شاید کچھ بھی نہیں اور اپنے وزن میں خاطر خواہ اضافے کی صورت بہت کچھ پا لیا :) مگر زندگی کی پیاس ابھی بھی ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی.
"
قطرہ قطرہ ملتی ہے
قطرہ قطرہ جینے دو
زندگی ہے !! بہنے دو
پیاسی ہوں میں پیاسی رہنے دو
"
جنوری ویسا ہی سرد اور خشک رہا جس میں "خشک پتوں کی طرح لوگ اڑے جاتے ہیں ___ شہر بھی اب تو نظر آتا ہے جنگل کی طرح" سانخہءِ آرمی پبلک سکول کی اداسیاں دل پر حاوی تھیں.
جنم دن اور شادی کی سالگرہ کے کیک کے ساتھ فروری میں بہاروں سے میٹھی گفتگو رہی کہ "بہارو میرا جیون بھی سنوارو، کوئی آئے کہیں سے، یوں پکارو" .. یہ پکار سن کر نعمان لاشاری پاکستان آئے. اور پھر کچھ دن فیس بک کے اندر باہر خوب ہلچل مچی رہی.
مارچ میں سارے خاندان والوں کا دورہءِ لاہور، فوڈ سٹریٹ پر یادگار ڈنر، اور پھر کلر کہار کے نزدیک دریافت شدہ نئی "سوائیک جھیل" کے دلکش بسنتی مناظر " تمہی سے دل نے سیکھا ہے دھڑکنا، تمہی کو دوش دوں گا اے نظارو" جیسی جذباتی سوچوں کے بیچوں بیچ مگر کچھ بچوں کو سوری اور تھینک یو سکھانے کا ایک غیر جذباتی کام بہرحال ہم سے پھر بھی سرزد ہو گیا.
اپریل سے پہلے ہی کمپنی نے اپریل فول بناتے ہوئے باوجود اصرار کے تنخواہ نہ بڑھائی .. گویا "میرا جیون کورا کاغذ، کورا ہی رہ گیا __ جو لکھا تھا آنسوؤں کے سنگ بہہ گیا" .. مزید یہ کہ انہی دنوں فیس بک پر 100 لفظوں والی ایکٹیویٹی کے تجزئوں کا بوجھ اپنے سر لے کر بد سے بدنام ہوتے پھرے.
مئی میں ہمارے فیس بک کے چند غیر مرئی دوستوں نے انٹرنیٹ پر ہمارے بیٹھنے کو اک بیٹھک کا انتظام کیا جو ہمارے لئے فیس بک پر اُٹھک بیٹھک کا واحد ذریعہ بن گئی. مئی کا مہینہ اگلے تین مہینوں کی گرمی کے ڈر سے خوفزدہ ہوتے ہوئے گزر گیا. صد شکر کہ اس بار لوڈشیڈنگ کم رہی اور ہم فرائی ہونے کی بجائے صرف باربی کیو ہی بن سکے. سوچا کہ "جلا ہے جسم جہاں دل بھی جل گا ہو __ کریدتے ہو جو اب راکھ، جستجو کیا ہے" .. مگر "یہ چنگاری بھی یا رب اپنی خاکستر میں تھی" کہ ان گرمی کی شاموں میں بھی چند ایک بڑی سہانی تھیں، جن میں سے ایک مجھے یاد آ رہی ہے مسٹر بورِنگ توصیف احمد کے ساتھ باغ جناح میں بنچ پر بیٹھ کر گاتے ہوئے "کھویا کھویا چاند__ کُھلا آسمان" اور "میں یہ سوچ کر اسکے ڈر سے اٹھا تھا"
جون میں روزے ... ان دنوں کا ذکر کرتے زبان پر پسینے آ جاتے ہیں ...لیکن پھر بھی کچھ قابل ذکر یادیں بادشاہی مسجد کے پڑوس میں بیٹھکئینز کے ساتھ یادگار افطاری. فرقان وٹو کی بغل میں رنگیلے رکشے کی سواری کے دوران ”چل چلئے دنیا دی اوس نکرے __ جتھے بندہ نہ بندے دی ذات ہووے“ ___، پھر دفتر والوں کیطرف سے رائل پالم میں گرینڈ فیملی افطار ڈنر جس میں شرکت کو ہمارے اہل خانہ فیصل آباد سے آئے. اور پھر اگلے ہی دن بیٹھک خواتین کی گرینڈ افطاری میں بیگم صاحبہ اور حلیمہ کی شرکت .. بیٹھک کے بڑھتے ہوئے احسانات "آپ کی عنایتیں، آپ کے کرم __ آپ ہی بتائیں کیسے بھولیں گے ہم" __ اسی دن شمائلہ بھابھی، عنبرین خان ، عاصمہ سلیم اور سیدہ کلثوم سے مختصر ملاقات ہوئی
جولائی میں حبس زدہ سوچوں کا غلبہ رہا جب تک کہ عمران قاضی اور ساجد حسین کے ساتھ لگی یادگار بیٹھک کا دن نہ آ گیا..... اور یوسف لغاری سے ہوئی واحد ملاقات کی ٹوون ٹووں ٹووووں جس کے بارے میں فقط یہ تبصرہ : ”یہ کیا ہوا؟ کیسے ہوا؟ کیوں ہوا؟ کب ہوا؟ کیوں ہوا ؟____ جب ہوا، تب ہوا ___ او چھوڑو ، یہ نہ سوچو “
ارے ہاں یاد آیا اس سے اگلے ہی دن آمنہ ملک کی دعوت پر گوجرانوالہ یاترا بھی کی اور اس ون ڈے ٹوور کی ہر اک بات ذہن میں نقش ہے، بشمول اس یاد کے کہ ہماری میزبان وکیلنی سے قبل ہم خود دعوت کدے پر موجود تھے اور وہ کورٹ میں اپنے مقدمے بھگتانے میں مصروف تھیں. جس کا بدلہ ہم نے یوں لیا کہ قاضی اور آمنہ کو گفتگو میں مشغول کر کے ہم خود کھانے میں مشغول رہے.
لاہور سے گوجرانوالہ کے راستے میں قاضی صاحب کو خوب بور کیا کہ گاڑی میں میوزک سسٹم بھی نہیں تھا اور ہم انہیں ڈیڈیکیٹ کرنا چاہتے تھے "چودہویں کا چاند" ..... سچ یہ ہے کہ وہ ساعتیں کمال کی تھیں اور "یوں گماں ہوتا 'تھا' گرچہ ہے ابھی صبحِ فراق __ ڈھل گیا ہجر کا دن آ بھی گئی وصل کی رات" کی فیلنگز ابھی جاری تھی کہ وقتِ رخصت آن پہنچا. اور قاضی سے مانوس ہوتے ہوتے اتنا زیادہ وقت لگ گیا مگر " ہم کہ ٹھہرے اجننی اتنی مداراتوں کے بعد ___ پھر بنیں گے آشنا کتنی ملاقاتوں کے بعد "
اگست میں ثوبیہ ناز سے ملاقات یادگار رہی، جس کے بہانے ہم بیٹھک کی روایات کے برعکس ایک بوفے ڈنر میں جا دھمکے، پھر ہماری توجہ کی طالب مہمان تو ہمارا منہ ہی تکتی رہ گئی، کیونکہ ہماری توجہ کھانوں کی کوالٹی جانچنے پر مرکوز تھی "جس سمت بھی دیکھوں نظر آتا ہے کہ تم ہو ___ اے جانِ جہاں یہ کوئی تم سا ہے کہ تم ہو"
ماہِ ستمبر لاہور میں در در کی خاک چھانتے گزرا کہ فیملی کو فیصل آباد سے لاہور لانا مقصود تھا. بالاخر اکتوبر میں اس کارِ خیر سے سبکدوش ہوئے، مگر سبکدوش ہوئے نہیں، کیوںکہ زندگی اچانک سے یکسر تبدیل ہو گئی. ذمے داریاں !!! جن میں بچوں کو سکول پہنچانے اور لانے کی انوکھی ذمے داری، اور خواتین کی نہ ختم ہونے والی خریداری ہماری دوسری خوامخواہ کی سوشل مصروفیات کیلئے جان لیوا ثابت ہوئیں. ”کیا سے کیا ہو گیا بیوفا تیرے پیار میں ___ چاہا کیا ، کیا مِلا، بیوفا تیرے پیار میں“
اکتوبر اور نومبر میں مابدولت کی کینوس اور رنگوں سے جاری زور آزمائی میں رنگ باتیں کرتے رہے، اور ان باتوں کی خوشبو سے ہم معطر ہوا کئے. لاہور میں گھر کا پکا کھانا ملنا شروع ہوا تو اک روز بٹ کدے پر لاہوری بیٹھکئینز کو بھی ہم نوالہ و ہم پیالہ کرنے کی غرض سے بیگم کے ہاتھ کی سپائسی بریانی کھلا کر ان معصوموں کو بے جا اشکبار کیا. اس دعوت میں فرقان بھائی نے بھی شرکت کی تھی .. جس کا بدلہ ان سے بمع سود اگلے ہی مہینے سیالکوٹ جا کر وصول کیا گیا. ”اپنا پتا ملے نہ خبر یار کی ملے ___ دشمن کو بھی نہ ایسی سزا پیار کی ملے“
دسمبر میں عاصمہ سلیم، آمنہ ملک اور عنبرین خان نے شرکت کر کے حسن کی سالگرہ کو یادگار بنایا. عاصمہ کے ہاتھ کے بنے کیک کی شیرینی نے "ہائے دسمبر" کو "واؤ دسمبر" کر دیا. ابوبکر جتوئی اور محمد طلحہ کی شکل میں لاہوری بیٹھکئینز کی لسٹ میں دو پیارے دوست شامل ہوئے.
سال کا سب سے بڑا ایڈونچر ہمارے کزن عدنان بٹ کی شادی کی صورت میں برپا ہوا، جس میں میرے آفس سے بارہ چھٹیوں کے دوران بہنوں نے بچوں سمیت اپنے سسرال سے آکر فیصل آباد والے گھر میں رونق لگا دی. پکنک، عید میلادالنبی ، پیزا پارٹی، سوپ پارٹی، اور میری توقعات سے بڑھ کر ننھی ننھی بیشمار خوشیاں جن کے لئے اللہ کا جتنا شکر ادا کروں کم ہے.
اس سال کے اختتام پر زندگی کا محاسبہ کیا کریں .. کہ کیا کھویا اور کیا پایا ؟
کھویا تو شاید کچھ بھی نہیں اور اپنے وزن میں خاطر خواہ اضافے کی صورت بہت کچھ پا لیا :) مگر زندگی کی پیاس ابھی بھی ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی.
"
قطرہ قطرہ ملتی ہے
قطرہ قطرہ جینے دو
زندگی ہے !! بہنے دو
پیاسی ہوں میں پیاسی رہنے دو
"
0 comments: