کُونیکٹڈ

12:30 PM 0 Comments


آج دوپہرمیں فیصل آباد سے لاہور پہنچا. خاصی گرمی تھی. رکشے والے سے کرایہ طے کر کے اپنے فلیٹ کی جانب سفر کا آغاز کیا، رکشہ والا یہی کوئی اکیس، بائیس سال کا لڑکا تھا. ہلکی ہلکی داڑھی تھی. چوک یتیم خانہ پر ملتان روڈ پر اورینج ٹرین کی وجہ سے ٹریفک اور خراب راستوں پر رکشہ والے کو خوب مشکل کا سامنا کرنا پڑا. میں نے اس دوران رکشہ ڈرائیورکی سیاسی وابستگی جانچنے کے لئے اورینج ٹرین پروجیکٹ پر تنقید کے نشتر چھوڑے. وہ آگے سے کچھ نہ بولا ....... پھر میں نے باتوں باتوں میں عمران خان کو تنقید کا نشانہ بنایا .... اس نے پھر بھی کوئی رائے نہ دی... سوچا شائد اس کو سیاست سے انٹرسٹ نہیں ہے
.
کچھ دیر بعد آشکار ہوا کہ اسکو راستوں اور گلیوں کی بھی زیادہ سمجھ بوجھ نہیں ہے. خیر اس کو راستہ سمجھا کر کسی طرح اپنے فلیٹ پر پہنچنے میں کامیاب ہو گیا. میں نے اسے کہا ... "استاد لگتا ہے نئے نئے ڈرائیور بنے ہو"
.
وہ بولا : "سر میں مسلم ٹاؤن موڑ پر قائد اعظم کالج میں ایف ایس سی کا سٹوڈنٹ ہوں. کچھ مہینے پہلے میرے امی اور ابو گلشن اقبال پارک میں ہونے والے دھماکے میں فوت ہو گئے تھے، اس کے بعد ہمارے گھر کے حالات بہت خراب ہو گئے، میری چھ پہنیں ہیں، ہم نے پہلا روزہ نمک اور مرچ کھا کر رکھا ، پڑھائی چھوڑ دی ہے ، ابھی دو تین دن پہلے ہی میں نے رکشہ چلانا شروع کیا ہے، ابھی مجھے راستوں کا اتنا علم نہیں"
.
اسکی بات سن کر میری زبان گنگ ہو چکی تھی، جیسے کاٹو تو بدن میں لہو نہیں. میں چاہتے ہوئے بھی اسکے لئے کچھ نہیں کر سکتا تھا :'(
.
اس وقت سے اب تک میں یہی سوچ رہا ہوں کہ الیکٹرانک میڈیا، سوشل میڈیا اور ہم سب ناظرین کے لئے کوئی بھی برا واقعہ محض چند دنوں کا سانحہ ہوتا ہے، لیکن جن کی زندگیاں ایسے کسی واقعے سے متاثر ہو جائیں، ان کی پوری زندگی سانحہ بن جاتی ہے.
----------------
- خرّم امتیاز

0 comments: