کیا جنید جمشید کے پرانے دور کو فراموش کر دیا جائے؟

4:09 AM 0 Comments

 
چند دوستوں کے مطابق جنید جمشید کی زندگی کا آخری دور ہی اسکی حقیقی زندگی تھی. اسلئے اسکی وفات کے بعد صرف اسکی بطور مذہبی و تبلیغی سکالر زندگی کو ہی یاد کیا جانا چاہیے
-
میری نظرمیں جنید جمشید اپنی زندگی کے دونوں ادوار میں یادگار، کامیاب اور ہردلعزیز انسان تھا. مجھے یہ منطق بہت عجیب لگ رہی ہے کہ مرنے والے کے فلاں دور کو یاد نہ کرو اور صرف فلاں فلاں دور کو یاد کرو. یہ خواہش ہی کتنی اَن نیچرل ہے. آج اگر بل گیٹس اسلام قبول کر لے اور کل مر جائے تو کیا اس کے آخری ایک دن کو یاد کیا جائے گا اور کمپیوٹر سافٹ ویئر کی دنیا میں اس کی خدمات کو یکسر فراموش کر دیا جائے؟ یا کرکٹر محمد یوسف کی اسلام قبول کرنے سے قبل کی بطور بیٹسمین خدمات کو ڈیلیٹ کر دیا جائے؟

ہمارا کڑوا معاشرتی سچ یہ ہے کہ اگر جنید کا پہلا دور وجود نہ رکھتا اور وہ اپنے کرئیر کی ابتدا ہی بطور اک تبلیغی سکالر کے کرتا، تو آج ہم میں سے گنتی کے لوگ ہی اسکا نام بھی جانتے اور پورا ملک اسکے لئے آنسو نہ بہا رہا ہوتا.

اس دنیا سے جانے والا سب سے پہلے اک انسان تھا. بہت سی وجوہات کی بنا پر ناچاہتے ہوئے بھی میں جنید کے پہلے والے دور کا کونیکشن اپنے لڑکپن اور جوانی کی بہت سی فیلنگز کے ساتھ زیادہ پاتا ہوں. وہ روپیہ روپیہ جوڑ کر خریدے وائٹل سائنز کے کیسٹ اور ڈائری لکھ لکھ کر یاد کیے جنید کے گیتوں کو میں کیسے بھلا دوں جنکی یاد مجھے نوجوانی کے حسین اور بے فکری کے دور میں لے جاتی ہے، جنہیں یاد کر کے اب اک nostalgia کا احساس ہوتا ہے. آج مجھے محسوس ہوا ہے کہ نوجوان جنید میری نوجوانی کی حقیقتوں میں سے ایک دلفریب حقیقت تھا

اس کی مذہبی زندگی اور تبلیغ کا فیصلہ اسکا انفرادی تھا، مجھے اس فیصلے سے نہ تو کوئی اختلاف ہے نہ میں اختلاف کا حق رکھتا ہوں. میں دیو بندی نہیں ہوں، لیکن میں جنید سے محبت کرتا تھا اسلئے میں اسکے فیصلے اور تبلیغی دور کو بھی پسند ہی کرتا ہوں، وہ آخری وقت تک میرا پسندیدہ رہا، لیکن بدقسمتی سے میرا اسکی زندگی کے دوسرے پارٹ کیساتھ وہ پہلے سا کونیکشن نہ بن پایا (یہ میری خامی تو ہو سکتی ہے جنید کی نہیں) لیکن اسکی وفات پر میں بھی اتنا ہی رنجیدہ ہوں جتنا کوئی تبلیغی اور دیوبندی بھائی ہو گا. میری تمام مذہبی دوستوں سے درخواست ہے کہ برائے کرم مجھ جیسوں کے احساسات اور آنسوؤں پر اپنی مرضی کے بند مت باندھیں.
 

0 comments:

کمزور لمحے

7:18 AM 0 Comments


کمزور لمحہ وہ وقت ہوتا ہے جب ہم "ہم" نہیں ہوتے. یعنی جب ہم کسی مرحلے پر کسی بھی وجہ سے اپنی پرسنالٹی سے بالکل ہٹ کر کچھ کرنے کے مرتکب ہونے پر دوسروں کو حیرانی اور بعد ازاں خود کو شرمندگی و خفت میں مبتلا کر دیتے ہیں.

اگر ہم کسی کی زندگی کے کمزور لمحوں کا تعین نہیں کر سکتے تو اسکا مطلب یہ ہے ہم اسے سرے سے جانتے ہی نہیں نہ ہی ہمارا اسکے ساتھ کوئی تعلق ہے..... البتہ جن کیساتھ ہمارا تعلق ہوتا ہے، ان کی بنیادی شخصیت، سوچ ، کردار اور بہت سے حالات و واقعات سے یقینا ہمیں آگاہی ہوتی ہے. ایسے لوگوں کی زندگی کے کمزور لمحوں کو ہم بلاشبہ جج کر سکتے ہیں. بس ہم اپنے تعلق والوں کے کمزور لمحوں کو ہی اگنور کرنا سیکھ لیں تو بہت ہے.


0 comments:

زندگی اور موت

6:11 AM 0 Comments

 ہم سب اک گرینڈ گرینڈ ہائی فائی سافٹ ویئر کے تخلیق کردہ کردار ہیں
جی ہاں ! جس طرح ایک ہی موبائل ایپلیکیشن ہر کسی کے موبائل پر اسی شخص کا ڈیٹا دکھاتی اور اسی موبائل یوزر کے مطابق چلتی ہے. اسی طرح اس گرینڈ سافٹ ویئر کی آؤٹ پٹ ان گنت زبردست تھری ڈی ویڈیوز کی صورت چل رہی ہیں جو ہر شخص (کردار) کے لئے مختلف ہیں. ہر شخص کی اپنی ویڈیوز کو "زندگی" نامی ڈرامے کا نام دیا جا سکتا ہے. ویڈیوز انتہائی اعلی قسم کی ویژؤل اور ساؤنڈ ایفیکٹس پر مبنی ہیں اور یہی انگنت ویڈیوز جو مختلف زاویوں سے ہر کسی کو نظر آ رہی ہیں وہی اس ڈرامے میں حالات و واقعات کی اصل کنجی ہیں. ان تمام ویڈیوز کے کمبینیشن سے بننے والا ڈرامہ اسقدر دلفریب اور جاندار ہے کہ ہر کسی کو لگتا ہے کہ اس ڈرامے کا مرکزی کردار وہ خود ہے :)  ہمیں لگ رہا کہ ہم وقت کیساتھ آگے بڑھ رہے ہے جبکہ ہم وہیں کے وہیں موجود ہیں اور کوئی نادیدہ طاقت اپنے اسی سافٹ ویئر کی مدد سے ہمارے اردگرد سبھی مناظر اور کرداروں کو الٹ پلٹ کر تبدیل کر رہی.

بہت سی انسٹرکشنز پہلے سے ہمارے اندر فیڈ کی گئی ہیں، یہی انسٹرکشنز ہماری سوچ ہیں، ہم ان محدود انسٹرکشنز سے ہٹ کر کچھ سوچ نہیں پاتے، کچھ کر نہیں پاتے. پھر علم کا جھانسہ موجود ہے ، کتابوں اور تجربوں کے بونس پوائنٹس ہیں جو ایکسٹرا انسٹرکشنز کے طور پر ہمیں حاصل ہوتے ہیں. اور ہم خوش ہوتے ہیں کہ ہم نے نجانے کیا سیکھ لیا، نجانے کیا پا لیا.

ہمیں روبوٹوں کی طرح کچھ محدود جسمانی صلاحیتیں دی گئی ہیں (جو ہماری انسٹرکشنز کی تعلیمات کے مطابق بہت زیادہ ہیں)، پھر ورزش، ڈائیٹ، پیچیدہ جسمانی نظام کے جھانسے سے جسمانی صلاحیتوں میں تھوڑا سا اضافہ بونس کی طرح ملتا ہے.  اور ہم اسے فٹنس کا نام دے کر خوش ہو جاتے ہیں. اسی طرح بیماریوں دواؤں کا کیمیائی سسٹم بھی موجود ہے.

سافٹ ویئرز میں موجود ان انسانی کرداروں کے اندر مزید فیلنگز، مُوڈ وغیرہ کا زبردست سسٹم انسٹال کیا گیا ہے. جن کے اتار چڑھاؤ ہماری جسمانی کیفیات ، اور اردگرد کے حالات و واقعات کیساتھ زبردست انداز سے منسلک ہے. بظاہر لگتا یہی ہے کہ یہ سب کسی خودکار نظام کی طرح کام کرتا ہے. لیکن شائد سبھی کچھ اتنا خودکار (آٹو میٹک) بھی نہیں. جسطرح ٹیپ ریکارڈر کا والیم والا نوب گھما کر آواز اونچی/ نیچی کی جاتی ہے ویسے ہی اس سسٹم کے باہر کہیں بہت سی نوبز اور بٹن موجود ہیں، جن کے استعمال سے ہماری فیلنگز کنٹرول ہو رہی ہیں . ہمیں کب خوش ہونا ہے کب غمگین؟ کب پیار کرنا ہے اور کب نفرت؟ کہاں خلوص اور کہاں سنگدلی؟ کب مجبوری اور کہاں جارحیت برتنی ہے؟ کب ہنسنا اور کب رونا ہے؟ بظاہر یہ سب کسی خود کار نظام کی طرح محسوس ہوتا ہے لیکن اس میں دھاندلی کے شبے کو نظر انداز بھی نہیں کیا جا سکتا. 😂

ہمارے اردگرد سبھی کچھ انتہائی بے ضرر ہے. لیکن سافٹ ویئر، زبردست تھری ڈی ویژؤل اینڈ ساؤنڈ ایفیکٹس ، انسٹرکشنز اور فیلنگز کے اتار چڑھاؤ کی بدولت یہ انتہائی اہم محسوس ہوتا ہے

اور موت ؟؟؟؟ وہ تو مسئلہ ہی کوئی نہیں. جب اتنا مافوق الفطرت نظام بنایا جا سکتا ہے وہاں ڈرامائی انداز میں کسی کردار کو کبھی بھی آن / آف کرنا کون سا مشکل کام ہے :)
"
صفحہ صفحہ گزر رہے ہیں دن
ہم ہیں کردار کسی فسانے کے
"

0 comments:

ناول نگار

8:58 AM 0 Comments

بڑے ناول نگار کا کمال یہ ہے کہ ناول کا ہر اقتباس رائیٹر کی اپنی سوچ پیش نہیں کرتا. وہ کردار بُنتا ہے، اور اپنے بنائے کرداروں کی سوچ کی عکاسی کرنے کو انکی سوچ بھی تخلیق کرتا ہے. ہر اچھے ناول نگار کے اندر اک چھوٹا سا رب ہے 

0 comments:

ملاوٹ

8:57 AM 0 Comments

جہاں انسان کی طمانیت و تسکین کا ایک بہت بڑا سبب اسکی سوسایٹی ہے وہیں اسکے لمحوں کی خوشیوں کی قاتل بھی سوسایٹی ہی ہے. جب بھی دو لمحوں کے دوران ہم سوچتے ہیں کہ "لوگ کیا کہیں گے" تو سمجھو ہم نے خالص دودھ میں پانی کی ملاوٹ کی.

0 comments:

محبت

12:56 PM 0 Comments

لفظ "محبت" کو شعراء اور دانشوروں نے آفاقی رنگ و روپ دے کر کنفیوز بنا رکھا ہے، حالانکہ نہ تو یہ کوئی آفاقی جذبہ ہے اور نہ ہی مستقل، جب بنیادی ڈیفینیشن کے مطابق "جذبات" متغیر انسانی کیفیات ہیں. تو پھر کوئی ایک جذبہ کیونکر کانسٹنٹ (مستقل) ہو سکتا ہے؟ ہر جذبہ کسی طلب سے منسلک ہے. کوئی رکاوٹ نہ ہو اور دو طرفہ ڈیمانڈ اور سپلائی بھلے متواتر جاری رہے تب بھی انسان کی زندگی میں یکسانیت و بے مقصدیت کے  جذبات فعال ہوکر باقی جذبوں کو بریک لگوا سکتے ہیں


اس موضوع کے حوالے سے میں لوگوں سے بہت تنگ ہوں، شاید انھیں ابھی تک محبت، شفقت، تشکر وغیرہ میں فرق ہی نہیں معلوم. احساسات کو مکس کر کے سوچنے کا مطلب یہ ہے کہ ہم ان میں سے کسی ایک بھی جذبے کو مکمل طور پر محسوس کرنے سے قاصر ہیں
جب بھی محبت کی بات ہوتی ہے تو کچھ شریف النفس لوگ ممتا و شفقت کی مثالیں اٹھا کر لے آتے ہیں اور مذہبی رجحان رکھنے والے عشق حقیقی کا راگ الاپنے لگتے ہیں.
جبکہ ماں باپ کا تصور کر کے نہ تو ہمارا دل میٹھی میٹھی تیز دھڑکنیں لیتا ہے اور نہ ہی نارمل انسانوں میں عشق حقیقی کی کوئی مثال ڈھونڈے سے ملتی ہے.



0 comments:

سانحہ

12:56 PM 0 Comments

جہاں ہر فریق آدھا سچا اور آدھا جھوٹا ہو اُس معاشرے میں غلط اور صحیح کے درمیان دور دور تک سوالیہ نشانوں کی قطاریں کھڑی ہوتی ہے. ظالم اور مظلوم کے درمیان کوئی بارڈر لائن باقی نہیں رہتی. تب وہاں کسی ایک کا ساتھ دینے کی کوشش کی جائے تو ہر لاجک ادھوری نظر آتی ہے.



0 comments:

نیگیٹیو آزادی

2:45 PM 0 Comments


گزشتہ سالوں میں پاکستان میں ہر تہوار پر منچلے نوجوانوں کی موٹر سائیکل پر ون وھیلنگ اور اس کے نتیجے میں ہونے والے حادثات اور اموات میں اضافہ ہوا ہے. یہ غیر ذمے دار نوجوان ایسے تہواروں پر پولیس اور ہسپتال والوں کے لئے درد سر بنتے جا رہے ہیں. ان پر جتنی بھی کڑی پابندی لگائی جائے، یہ باز نہیں آتے، اور موقع ملتے ہی سڑک پر یہی خرافات کرکے اپنی اور دوسروں کی زندگی خطرے میں ڈالتے نظر آتے ہیں.
.
آج ایسے ہی ایک نوجوان سے جشن آزادی کی صبح ملاقات ہوئی، مکالمہ نہیں لکھوں گا، اشارتا بات کروں گا کہ گزشتہ کچھ عرصہ سے ایک بات بہت تواتر کیساتھ سننے کو مل رہی ہے کہ
"
اگر میں غلط ہوں تو حکومت مجھے پکڑتی کیوں نہیں؟ کہاں ہے حکومت؟ کہاں ہے قانون؟ اس ملک میں کوئی سسٹم ہی نہیں ہے، اگر ہے تو سب کچھ دو نمبر
"
اور یہ بات اکثر تب سننے کو ملتی ہے جب آپ قانون توڑنے پر کسی کی سرزنش کی کوشش کرتے ہیں. اتفاق سے ون وھیلنگ کرنے والے نوجوان کی گفتگو کا نچوڑ بھی کچھ ایسا ہی تھا.
.
خیر چند ہی گھنٹوں بعد میرا تھانے کے قریب سے گزر ہوا تو خاصا رش نظر آیا، میڈیا والے بھی کوریج کرتے نظر آئے. معلوم ہوا کہ بہت سے لڑکوں نے احتجاجا سڑک بلاک کر کے راہگیروں کو پریشان کر رکھا ہے. صبح جس جان پہچان کے لڑکے سے مکالمہ ہوا تھا، اتفاق سے وہ بھی راستہ بلاک کرنے والے لڑکوں میں شامل نظر آیا. میں نے پوچھا کیا ماجرا ہے؟ کہنے لگا یہ پولیس والے بہت زیادتی کر رہے ہیں، ہماری موٹرسائیکلیں ضبط کر لیں. اوراب ہماری کوئی بات نہیں سن رہے. اسلئے اب ہم نے مل کر سڑک بلاک کی ہے تاکہ عوام اور میڈیا کا پریشر پڑے تو یہ پولیس والے ہماری بات سنیں گے.
.
اور میں سوچ رہا تھا کہ یہ ذھین قوم کتنی آسانی کیساتھ ہرسہولت اور آزادی کا منفی استعمال کر لیتی ہے. ہم نے جرم اور قانون شکنی سے از خود رکنا ہی نہیں، جب تک کہ کوئی پکڑ نہ ہو جائے. اور جب پکڑ ہو جائے تو پھر اسی سسٹم کے "لُوپ ہولز" کا استعمال کرنا.


0 comments:

دھوبی گھاٹ کا مسلک

6:04 AM 0 Comments

میرا بچپن اور لڑکپن فیصل آباد کے بیچوں بیچ پرانے محلوں میں گزرا ہے. یہاں بہت مکسڈ قسم کا سیاسی و مذہبی کلچر پایا جاتا ہے. اسے سمجھنا اتنا آسان نہیں، خاندانوں کے نسل در نسل روابط و مراسم ہیں. ہر گلی کے موڑ پر مختلف رنگ و نسل اور انواع و اقسام کی شخصیات سے سامنا ہوتا ہے. ہمارا محلہ 'اسلام پورہ' فیصل آباد شہر کے تقریبا مرکز میں آٹھ بازاروں سے ملحقہ علاقے میں واقع ہے. محلے کے ایک جانب تاریخی گورنمنٹ کالج و یونیورسٹی ہے تو دوسری جانب دھوبی گھاٹ کی تاریخی گراؤنڈ جہاں قیامِ پاکستان سے لے کر اب تک ہر سیاسی و مذہبی قائد نے شعلہ بیانی سے محلے کی سماعتوں میں اپنا حصہ ڈالا. اسی گراؤنڈ کی نسبت سے محلے کا نام بھی 'دھوبی گھاٹ' ہی پڑ گیا. محلے کے ایک جانب شہر کی سب سے بڑی امام بارگاہ ہے تو محلے کے وسط میں دیوبند کی تاریخی مسجد، محلے کے جنوب میں اک سینما گھر بھی ہے. جہاں اب تھیٹر پروگرام چلتا ہے. اور ایک طرف عیسائیوں کی پرانی بستی ہے. محلے میں ہر مسلک و مذھب کے لوگ پائے ہیں. یہاں ہر فیملی کی باقاعدہ ایک ہسٹری ہے. دیوبندی، وہابی، شیعہ، بریلوی، مرزائی، عیسائی گویا ہر فیملی یہاں موجود ہے. ہماری ہوش سے قبل سکھ فیملیاں بھی یہاں رہائش پزیر رہیں. بچپن سے دیکھا کہ ہر کوئی اپنے اپنے عقآئد پر کاربند ہے. مگر کوئی کسی کو چھیڑتا نہیں. سوسایٹی میں سب کے ساتھ مل کر چلنا پڑتا تھا. اختلافات اور جھگڑے تو ہر جگہ کا معمول ہیں مگر میں نے محلے میں کسی کو کم از کم مسلک و مذھب کی بنیاد پر لڑتے نہیں پایا.
.
میری فیملی کا ایک پلس پوائنٹ یہ رہا کہ ہمآرا محلے میں سب کے ساتھ ہمیشہ اچھا اور دوستانہ سمبندھ رہا، میرے والد مرحوم کوئی بہت پریکٹیکل مذہبی شخصیت نہیں تھے لیکن وہ ناصرف محلے بلکہ شہر کی ہر دلعزیز شخصیت تھے. معاشی طور پر آسودہ نہیں تھے لیکن پھر بھی نجانے کیوں ہر کوئی انکو بزرگ مانتا اور عزت دیتا تھا، میں نے انہیں ہر طرح کے لوگوں کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے دیکھا حیران کن طور پر وہ ہر کسی کے ساتھ مخلص تھے. مجھے بچپن ہی سے ان سے شکوہ تھا کہ وہ گھر والوں سے زیادہ محلے والوں کو ترجیح دیتے ہیں. محلے میں کوئی بھی مسئلہ و جھگڑا ہوتا تو امتیاز بٹ صاحب پنچایت کا فیصلہ کرتے، ابو کا فیصلہ حتمی سمجھا جاتا تھا، حیران کن طور پر ہر کوئی انکا فیصلہ مان بھی لیتا تھا. اب انکے جانے کے بعد انکی جگہ لینے والا محلے میں ایسا کوئی نہیں جس کی بات سب مان لیں :( میں جب ادھر فیصل آباد آؤں، جو بھی پرانا شخص مجھے ملتا ہے یہی کہتا ہے، "تیرے پیو ورگا بندہ نہیں ویکھیا" اور میں حیران ہوتا ہوں، کیونکہ میں نے ساری زندگی ابو کو بہت عام مڈل کلاس انسان سمجھا. مگر مجھے ان کی شخصیت کی سمجھ ہی انکی وفات کے بعد آنا شروع ہوئی جب ان کی زندگی کے حالات و واقعات ان کے دوستوں کی زبانی سنے. میں حیران ہوتا ہوں کہ ایک شخص اتنے بہت سے لوگوں کے حلقہ احباب میں کیسے یکسوئی رکھ پاتا تھا. اور مختلف طبقات و حلقہ فکر کے لوگوں میں اچھی شہرت کا حامل بھی تھا.
.
اگرچہ ابو خود تو بیحد مذہبی نہیں تھے، مگر ابو سے ایک غلطی ہو گئی،انہوں نے ہمیں کبھی بتایا ہی نہیں کہ ہمارا مسلک کیا ہے؟ اور سچ تو یہ ہے کہ زندگی میں کئی مواقعوں پر باوجود کوشش کے میں آج تک فیصلہ ہی نہیں کر پایا کہ ہماری فیملی کا مسلک کیا ہے؟
چچا پانچ وقت کے نمازی تھے، مگر انہوں نے بھی ہمیں کنفیوزڈ ہی رکھا وہ ایک نماز دیوبندی مسجد میں پڑھتے تو دوسری نماز بریلوی مسجد میں، عید کی نماز کے لئے اکثر وہابیوں کی عید گاہ میں لے جاتے.نہ کبھی ہمیں شیعہ دوستوں سے دوستی سے روکا گیا.
.
ہم کزنز نے بچپن ہی سے ہر مذہبی تہوار کو دل سے منایا ہے، ہم نے عید میلادالنبی کے جلوس کے لئے ٹرک سجائے ہیں، جلوس میں ٹرکوں پر سوار لہک لہک کر نعتیں پڑھیں، ٹافیاں، جوس اور سیب بانٹے ہیں تو محرم میں تازیہ کی آرائش بھی کی، دھوبی گھاٹ کی گراؤنڈ میں طاہر القادری، قاضی حسین احمد اور حافظ سعید کی جذبات بھڑکاتی تقاریرسنی اور بینظیر، نواز و عمران کے سیاسی جلسے بھی بھگتائے، محرم میں سبیلیں لگا کر پیآسوں کی پیاس بجھا کر بھی ثواب کمانے کی فیلنگ آئی تو مسجد میں ٹھہری پردیسی تبلیغی جماعت والوں کے لئے گھروں سے کھانا لے جا کر بھی نیکیاں کمائیں. میلاد پر محلے میں بنٹتے نان حلوے اور متنجن کی دیگوں پر اپنا پورا حق سمجھا تو محرم میں ہر گلی میں پکنے والی اسپیشل حلیم میں ذائقے کے اعتبار سے اول، دوئم اور سوئم نمبر پر آنے والی دیگوں کا فیصلہ بھی کیا. مولانا طارق جمیل کے بیانات پر آنسو گرائے تو امام بارگاہ میں مجلسوں اور شام غریباں میں بھی خود کو آبدیدہ پایا. وہابی دوست کے ساتھ نماز پڑھنے گئے تو اس کی خوشنودی کے لئے رفع الیدین بھی کر لیا. کسی کو بتائیے گا نہیں، میں نے تو کم عمری میں ذولجناح کو بھی عقیدت سے چوم لیا تھا . میں سمجھتا تھا کہ یہ واقعی امام حسینؓ کا گھوڑا ہے، میرے لئے یہ معجزہءِ حیرت تھا کہ یہ گھوڑا ابھی تک زندہ ہے . خیر اس تمام سفر میں بہت سے لوگ میرے ساتھ رہے جو کم و بیش میرے جیسی سوچ اور ماحول رکھتے تھے، میں ان سب کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے مجھے نفرت نہیں سکھائی.
.
خدا، مسلک اور عبادات کی بجائے میرا تعلق ہمیشہ لوگوں کے ساتھ زیادہ رہا ہے اور مجھے اس پر کبھی کوئی رنج بھی نہیں رہا.
مجھے لگتا ہے کہ جسطرح پوسٹ کیساتھ اٹیچڈ تصویر میں آپ دھوبی گھاٹ کو اونچائی سے دیکھ کر جغرافیہ سمجھ سکتے ہیں، اسی طرح اونچائی سے سبھی مذاہب و مسالک کو دیکھنے کی ضرورت ہے. ہو سکتا ہے کہ تب آپ گنگنائیں :
"
بازیچہ ءِاطفال ہے دنیا میرے آگے
ہوتا ہے شب و روز تماشا میرے آگے
"
--------------
(جاری ہے)

0 comments:

کیا نواز حکومت فیل ہو گئی ہے؟

1:55 PM 1 Comments


آئیڈیلسٹک مائنڈ سیٹ کیساتھ اگر پوائنٹ ٹُو پوائنٹ تنقیدی جائزہ کرنے بیٹھیں گے تو معلوم ہو گا کہ آج تک کوئی ایک بھی اچھی گورنمنٹ پاکستان میں نہیں آئی. مگر کسی حکومت کی پرفارمنس کا تجزیہ کرتے ہوئے ہمیں اس نکتہ کو ضرور مدنظر رکھنا چاہئے کہ انہیں کیا کیا چیلنجز درپیش تھے؟ اور وہ اپنے چیلنجز کو لے کر کس طرح آگے بڑھے. میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ نواز حکومت نے کم از کم قوم کو درپیش چیلنجز کو قبول تو کیا ہے، اوراپنے تئیں کچھ نہ کچھ اچھا کام کر رہی ہے، انہوں نے ڈویلپمنٹ کو لے کر اپنی سمت کا تعین کیا ہے، اقتصادی راہداری منصوبہ ملک میں گیم چینجر ثابت ہو گا (انشااللہ). انکی پالیسیوں سے اختلاف ہو سکتا ہے، لیکن کم از کم پالیسیاں موجود تو ہے. البتہ اس حکومت سے قبل کیا ہو رہا تھا، وہ ہم سب کو معلوم ہے.
یہ مانا کہ ہمارے ہاں مسائل اتنے زیادہ ہیں کہ ایک ایشو کو فکس کرنے نکلو تو دس دوسرے ایشو سر اٹھائے نظر آتے ہیں، مگر یہ ممکن ہی نہیں کہ چند سالوں میں سب کچھ فکس ہو جائے. دوسری بات یہ کہ منفی سوچنے والے شخص کو تو کسی طور مطمئن نہیں کیا جا سکتا. البتہ اپنے اردگرد موجود آپٹمیسٹک لوگوں کو موجودہ حکومت سے قدرے مطمئن پاتا ہوں.
اسلئے میں یہی چاہوں گا کہ یہ 2018 تک اپنا دور مکمل کریں، اس کے بعد عوام اپنی قسمت کا فیصلہ جمہوری انداز میں کرے ، اگر اس حکومت نے واقعی تسلی بخش کام نہیں کیا اور اگر عوام کی اکثریت کی نظر میں یہ حکومت فیل ہے تو اس کا  نتیجہ خودبخود ہمیں اگلے انتخابات میں نظر آ جائے گا



1 comments:

کُونیکٹڈ

12:30 PM 0 Comments


آج دوپہرمیں فیصل آباد سے لاہور پہنچا. خاصی گرمی تھی. رکشے والے سے کرایہ طے کر کے اپنے فلیٹ کی جانب سفر کا آغاز کیا، رکشہ والا یہی کوئی اکیس، بائیس سال کا لڑکا تھا. ہلکی ہلکی داڑھی تھی. چوک یتیم خانہ پر ملتان روڈ پر اورینج ٹرین کی وجہ سے ٹریفک اور خراب راستوں پر رکشہ والے کو خوب مشکل کا سامنا کرنا پڑا. میں نے اس دوران رکشہ ڈرائیورکی سیاسی وابستگی جانچنے کے لئے اورینج ٹرین پروجیکٹ پر تنقید کے نشتر چھوڑے. وہ آگے سے کچھ نہ بولا ....... پھر میں نے باتوں باتوں میں عمران خان کو تنقید کا نشانہ بنایا .... اس نے پھر بھی کوئی رائے نہ دی... سوچا شائد اس کو سیاست سے انٹرسٹ نہیں ہے
.
کچھ دیر بعد آشکار ہوا کہ اسکو راستوں اور گلیوں کی بھی زیادہ سمجھ بوجھ نہیں ہے. خیر اس کو راستہ سمجھا کر کسی طرح اپنے فلیٹ پر پہنچنے میں کامیاب ہو گیا. میں نے اسے کہا ... "استاد لگتا ہے نئے نئے ڈرائیور بنے ہو"
.
وہ بولا : "سر میں مسلم ٹاؤن موڑ پر قائد اعظم کالج میں ایف ایس سی کا سٹوڈنٹ ہوں. کچھ مہینے پہلے میرے امی اور ابو گلشن اقبال پارک میں ہونے والے دھماکے میں فوت ہو گئے تھے، اس کے بعد ہمارے گھر کے حالات بہت خراب ہو گئے، میری چھ پہنیں ہیں، ہم نے پہلا روزہ نمک اور مرچ کھا کر رکھا ، پڑھائی چھوڑ دی ہے ، ابھی دو تین دن پہلے ہی میں نے رکشہ چلانا شروع کیا ہے، ابھی مجھے راستوں کا اتنا علم نہیں"
.
اسکی بات سن کر میری زبان گنگ ہو چکی تھی، جیسے کاٹو تو بدن میں لہو نہیں. میں چاہتے ہوئے بھی اسکے لئے کچھ نہیں کر سکتا تھا :'(
.
اس وقت سے اب تک میں یہی سوچ رہا ہوں کہ الیکٹرانک میڈیا، سوشل میڈیا اور ہم سب ناظرین کے لئے کوئی بھی برا واقعہ محض چند دنوں کا سانحہ ہوتا ہے، لیکن جن کی زندگیاں ایسے کسی واقعے سے متاثر ہو جائیں، ان کی پوری زندگی سانحہ بن جاتی ہے.
----------------
- خرّم امتیاز

0 comments:

ڈِسکونیکٹڈ

3:47 AM 1 Comments


آج سحری کے بعد اپنے گھر کی چھت پر واک کرنے چلا گیا، تپتے دن کے برعکس اچھی ہوا چل رہی تھی، سب کچھ نارمل ہی تو تھا، لیکن نہیں !! سب کچھ ہی تو بدل چکا ہے. پہلے ہماری چھت سے تاحد نگاہ نظر جایا کرتی تھی، اب اتنے اونچے گھر بن گئے ہیں کہ پندرہ بیس گھروں سے آگے کچھ دکھائی نہیں دیتا.
.
فیصل آباد کا یہ وہ محلہ ہے جہاں میں نے بچپن اور لڑکپن گزارا اور اسلام آباد / لاہور نوکری کے باوجود اس گھر اور محلے سے رابطہ منقطع نہ ہو سکا. ہر ویکینڈ پرلوٹ کر یہیں آتا تھا. پھر فیملی کے ساتھ لاہور شفٹ ہو گئے. آج کل یہاں چھٹیاں منانے کو آئے ہیں.
.
اپنے اردگرد بکھرے گھروں اور گلیوں پر طائرانہ نظر ڈالتے ہوئے میں دس، پندرہ، بیس اور پچیس سال پیچھے چلا گیا....... "کیا لیگیسی ہے اس چھت اور محلے کی !!! " اس محلے کی گلیوں کے رستے اور کونے میرے قدموں کو نہ بھولنے والے سبق کی طرح زبانی یاد ہیں اور اس چھت پر کھڑے کھڑے کتنی ہی کہانیاں ہیں جو میں سنا سکتا ہوں
.
واک کے دوران ماضی کی بہت سی رینڈم ویڈیوز میرے دماغ میں چلنے لگیں. اسی چھت پر زندگی کی کیسی کیسی بہاریں اور خزائیں دیکھ رکھی ہیں، ہر سال بسنت منائی جاتی تھی، کٹی پتنگیں پکڑنے کو ہمسایوں کی دیواریں پھلانگیں اور ڈانٹ کھائی. سردیوں میں دھوپ سینکنے کے ساتھ ان گنت کینو مالٹے بھی کھائے اور یہیں بیٹھ کر سکول کالج کی کتابوں کے رٹے بھی لگائے. جب پینٹنگ کا جنون ہوا تو یہیں چھت پر بنے سٹور میں پورا پورا دن بیٹھ کر پینٹنگز بھی بنائیں. یہاں شب برات پر پھلجڑیاں اور انار بھی پھوڑے، جشن آزادی پر جھنڈیاں لگائیں، انہی دیواروں پر چراغاں بھی ہوا کرتا تھا اور باربی کیو پارٹیاں بھی مناتے رہے.
.
بچپن میں اسی چھت پر ہم سب بہن بھائی اور کزنز شور مچاتے بے مقصد بھاگ دوڑ کرتے تھے اور نچلی منزل سے ابو جی کی گرجدار آواز پر قدم وہیں کے وہیں جم جاتے، مگر پھر تھوڑی دیر بعد وہی اچھل کود.
.
یہ سب سوچتے ہوئے خودبخود اک مسکان میرے چہرے پر دوڑ گئی ......... مگر اب کتنی ویران ہے یہ چھت، بسنت تو ویسے ہی ختم ہو گئی، گلے کٹتے ہیں لوگ مرتے ہیں، بے فائدہ تہوار....کتابیں پڑھنے کے لئے اب چھت پر کیوں آئے کوئی، بچوں کو ہم خود ہی چھت پر نہیں آنے دیتے کہ اکیلے میں کوئی چوٹ نہ لگ جائے. پینٹنگ کا سارا سامان لاہور منتقل کر لیا، یہ الگ بات کہ وہاں بھی اس ایکٹیویٹی کیلئے ٹائم نہیں نکل پاتا. کسی تہوار پر جھنڈیوں اور موم بتیوں پر کون وقت برباد کرے. وہی جھنڈیاں بعد میں پیروں تلے آتی ہیں تو بے حرمتی ہوتی ہے. اس کے علاوہ بھی اب کوئی چھت پر شاذوناذر ہی آتا ہے.
.
میں پھر محلے کی جانب متوجہ ہوا، پہلے سحری کے بعد لاؤڈ سپیکروں کا ایک شور بپا ہوتا تھا. دور دور سے اذانوں اور صلواتوں کی آوازیں آیا کرتی تھیں، اب تو شاید لاوڈ سپیکر پر پابندی لگ گئی ہے،.... اچھا ہی ہوا.... لیکن پہلے سحری میں بہت اہتمام ہوا کرتا تھا ہر گھر جاگ اٹھتا تھا، اب ویسا کیوں نہیں ہے؟ محلے کے بہت سے گھر یوں تاریکی میں ڈوبے ہوئے تھے جیسے وہاں سحری کے لئے کوئی جاگا ہی نہ ہو. کیا روزہ رکھنے کا ٹرینڈ ختم ہو رہا ہے؟ پہلے محلے کے بچے اور لڑکے غول در غول مسجدوں کو جایا کرتے تھے، ایک دوسرے کے گھروں پر جا کر جگایا کرتے تھے ..... اب ہم اپنے بچوں کو محلے کے بچوں سے دوستی کا رسک ہی نہیں لینے دیتے ... کیونکہ گلی محلوں کا ماحول ہی بہت خراب ہو گیا ہے. اور ویسے بھی بچے سکول ، موبائل، ٹیبلٹ اور لیپ ٹاپ سے بھی اتنا کچھ سیکھ لیتے ہیں دوستوں کی ضرورت ہی کیا ہے ؟
.
نچلے کمروں میں لگے اے سی کے آؤٹر یونٹ جو اب چھت پر دھرے ہیں اچانک مجھ پر گرم ہوا پھینکنے لگے، چھت پر کھڑے ہونا مشکل ہو گیا. کمروں میں فیملی والے اور بچے سوئے پڑے ہیں. گرمیاں تو ہمارے بچپن میں بھی ہوتی تھیں. چھت پر پانی کا چھڑکاؤ کر تے، ترتیب وار چارپائیاں بچھا کر سب سو جاتے.تب پنکھوں سے گزارا ہو جاتا تھا، ابھی ایک منٹ کے لئے لائٹ چلی جائے تو یو پی ایس کام شروع کر دیتا ہے. اور بیشک ہزاروں روپوں کا بل آئے لیکن بچوں کے لئے اے سی بند نہیں ہونا چاہئے. بچے بھی ان سہولتوں کے عادی ہو گئے ہیں اور ہم بھی.
.
میں نے نظر دوڑا کر جائزہ لیا تو محلے کے تقریبا ہر گھر کی چھت اور دیوار پر جابجا اے سی آؤٹر یونٹ نصب تھے. سب کچھ ہی تو بدل گیا ہے.
------
- خرّم امتیاز

1 comments:

سیکھ

2:47 PM 0 Comments

زندگی میں کچھ بھی سیکھا ہوا بھی کبھی رائیگاں نہیں جاتا. زندگی میں کسی نہ کسی موڑ پر وہ ضرور کام آتا ہے. اسلئے  اگر کچھ نیا سیکھنے کا موقع ملے تو یہ مت سوچیں کہ یہ تو میرے شعبے سے متعلق نہیں یا مجھے اسکا براہ راست کوئی فائدہ نہیں . ...... بس سیکھ لیں. مکمل یاد نہیں بھی رکھ پاتے تو بھی کوئی فکر نہیں.

0 comments:

برابری کے حقوق

2:40 PM 0 Comments

سوشل میڈیا پر اور حقیقی زندگی میں بھی ........ خواتین کو ایکسٹرا اہمیت اور پزیرائی نہ دیں. یہ ناصرف خواتین کے ساتھ بلکہ معاشرے کے ساتھ بھی بہت بڑی زیادتی ہے. عورت اور مرد کو اگر برابر حقوق دینے ہیں تو دونوں کو واقعی برابر کا سلوک دیں. برابری کا تقاضہ ہے کہ ان دونوں کو عزت بھی یکساں دی جائے اور بے عزتی پر افسوس کا اظہار بھی یکساں ہو.

 اپنی زندگی میں چھوٹے چھوٹے فیصلے جینڈر کی بجائے میرٹ اور میعار پر کرنے کی عادت ڈالیں. تب ہی آپ بڑے فیصلے درست کر سکیں گے. کسی بھی معاشرے میں محض عورت ہونے کی وجہ سے اسکو ایکسٹرا فیوور دینا اس معاشرے میں 
عورت ذات کو کمزور ثابت کرنے کی سب سے بڑی دلیل ہے


0 comments:

کامیاب زندگی

4:44 AM 0 Comments

کیا اچھی اور کامیاب زندگی یہ ہے کہ آپکا بچپن پرفیکٹ گزرے؟ آپ پڑھ لکھ جائیں، شکل اچھی ہو، اچھی نوکری لگ جائیں، من پسند جگہ پر شادی بھی ہو جائے، پھر بچے ہوں، ان کی تعلیم بھی اچھی ہو، انکی ہر ہر خواہش پوری ہو، پھر انکی نوکریاں، اور پھر انکی بھی شادیاں .. اور اس تمام عرصے میں پیسے کی کوئی بندش نہ ہو، دکھ نہ ملیں، سختیاں پیش نہ آئیں ، سب کچھ پرفیکٹ ہو؟؟؟
.
مگر نہیں !! یہ سب روٹین کی ایک آئیڈیل لائف تو کہلا سکتی ہے...مگر "کامیاب زندگی" شائد یہ نہیں. کامیابی یہ ہے کہ اللہ نے آپ کی زندگی کو آسان یا سخت جس بھی سچوئیشن میں ڈال رکھا ہے، اس کا مردانہ وار سامنا کیا جائے، درپیش سچویشن میں اپنی شخصیت کا بیسٹ پازیٹو اور پریکٹیکل چہرہ سامنے لے کر آئیں ... اس زندگی کے سٹیج پر جو بھی کردار اللہ نے آپ کو سونپا ہے، اسے پہچانیں، اس کردار کو عمدگی سے نبھائیں .... نہ کہ اپنے لئے من پسند آئیڈیل کردار اور اوتار ڈھونڈتے پھریں جن کے لئے آپ بنے ہی نہیں.
.
"اہم یہ نہیں کہ ہم نے دنیا سے کیا لیا؟ بلکہ اہم یہ ہے کہ ہم نے اس دنیا کو کیا دیا؟"
اور اس سے بھی زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ ہم نے اپنی زندگی سے ابھی تک اس دنیا میں کیا بدلا ہے؟ ..... ہم آئے دن بات تو کرتے ہیں تبدیلی کی لیکن سب سے بڑی تبدیلی "سوچ کی تبدیلی" ہے جو محض گفتار، رونے دھونے اور کسی بھی قسم کی جارحیت سے ممکن ہی نہیں .... اگر ہم اپنے رویے، لائف سٹائل اور ہُنر سے کسی کی سوچ بدل سکیں، وہ سوچ جو ہمارے بعد بھی جاری رہے اور ہماری یاد دلائے، تو یہی ہے سب سے بڑی کامیابی.
-----------
- خرّم امتیاز


0 comments:

قومی نفسیات

10:15 AM 1 Comments


یہ نادر تصویر لاہور میں دریائے راوی کے کنارے واقعی کامران کی بارہ دری کے اندر کی ایک دیوار کی ہے. یہ دیوار بحیثیت مجموعی ہمارے قومی شعور اور نفسیات کی نمائندگی کرتی ہے
 آپ اس تصویر کو زووم کر کے دیکھ سکتے ہیں، صرف یہی نہیں بلکہ بارہ دری کی کوئی دیوار اور کوئی کونہ ایسا نہیں تھا جسے ہماری عوام الناس نے اپنے جلے کٹے اشعار، تصویر کشی، اپنے فون نمبرز ،انجان خواتین کے رابطہ نمبرز اور گمنام اظہار محبت کے پیغامات درج کرنے سے محفوظ رکھا ہو.

اس تصویر کو اگر آپ غور سے دیکھیں تو اندازہ ہو گا کہ گزشتہ بہت سی تخلیقی کاوشوں کو مٹایا گیا مگر پھر بھی نئی کاوشیں کرنے سے کسی کو روکا نہ جا سکا.
جب کسی تاریخی ورثے کی یہ حالت دیکھتے ہیں تو دل بہت دکھتا ہے ... کہ ہم کیا قوم ہیں؟؟

1 comments:

کونیکشن

12:16 AM 0 Comments

سنہ 2002 میں  بڑی بہن کے ولیمہ میں شرکت کے بعد ہم سب فیملی والے ایک کرائے کی کوچ (بس) میں بہاولپور سے واپس فیصل آباد آ رہے تھے. مکلاوے کی رسم کے تحت دلہا دلہن بھی ہمارے ہمراہ فیصل آباد جا رہے تھے اور ہم سب فیملی والے اور کزنز وغیرہ اپنے اپنے شغل اور خوش گپیوں میں  لگے ہوئے تھے.
.
دوران سفر رات ہوئی تو ڈرائیور نے خود کو نیند کے غلبے سے بچانے کیلئے گانے چلا دیے. ہماری فیملی ٹھہری باذوق پرانے گانے اور غزلیں سننے والی تو ڈرائیور کا لگایا ہوا شور شرابے سے بھرپور  سنگیت صحیح معنوں میں ہماری برداشت کا امتحان بنا ہوا تھا.
.
اسی اثناء  میں میری نظر اپنی ممانی (اللہ انہیں غریق رحمت کرے، بڑی زندہ دل مگر انتہائی دیندار خاتون تھیں) پر پڑی جو ڈرائیور سے پچھلی سیٹ پر بیٹھی تسبیح کیے جا رہی تھیں. انکی نظریں سامنے کے شیشے سے ہائی وے سڑک کی رواں ٹریفک پر تھی، کبھی ڈرائیور ذرا کوئی کٹ شٹ مارتا یا سامنے سے آتی کوئی گاڑی فراٹے بھرتی ہماری بس کے انتہائی قریب سے ہو کر گزرتی تو ممانی فورا کلمہ پڑھتیں. اب سنگل روڈ تھی، اور ممانی کا کلمہ ہر ایک دو منٹ بعد سننے کو مل رہا تھا.
.
سب بڑے اور بچے دبی دبی ہنسی ہنس رہے تھے. کہ ممانی لگتا ہے پہلی بار بس میں سفر کر رہی ہیں. میں نے مسکراتے ہوئے اپنی ممانی کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہوئے پوچھا کہ "ممانی! آپ اتنے گانوں کے شور میں کیا تسبیح کیے جا رہی ہیں؟"
ممانی نے جواباً حیرانی سے مجھے پوچھا ... "ہائیں !! کیا واقعی گانے چل رھے ہیں؟"


0 comments:

عنبرین خان

10:57 PM 1 Comments

عنبرین خان بیٹھک گروپ کی نامور اور لاہور کی گمنام شاعرہ ہیں ... کالج کی بچیوں کو جیوگرافی پڑھاتی ہیں، لیکن اپنا قبلہ ... او سوری .. اپنا جغرافیہ انہوں نے کتابوں سے نہیں بلکہ اوکاڑہ / لاھور کی بسوں میں سفر کر کر کے درست کیا ہے .... ان کا ماننا ہے کہ کسی کی نظروں میں گرنے سے بہتر ھے کہ انسان خود ہی لڑھک کر فرش پر گر پڑے .. یہی وجہ ہے کہ جب دوسرا فریق بے اعتنائی کیساتھ انہیں دل سے نکالنے کا ابھی ارادہ ہی کرتا ہے تو یہ فورا رمین بوس ہوتی نظر آتی ہیں، جسے دوسرا فریق اپنی قدم بوسی خیال کرتے ہوئے اسی لمحے ساری رنجشیں بھلا ڈالتا ہے ...
.
بڑی سخت اور اصول پسند استاد ہیں. کالج کی لڑکیاں جن کے نام سے تھر تھر کانپتی ہیں. یہ سٹوڈنٹ سے زیادہ خود انکے لئے فکرمند رہنے والی استاد ہے.
.
میٹرو بس سے انکی دوستی کی داستانیں زبانِ زد عام ہیں. جب بھی میٹرو میں سفر کیا، کوئی داستان ضرور رقم کی. میٹرو بس سے جتنا پیار انہیں ہے، اتنا تو شہباز شریف کو بھی نہ ہو گا.
.
علمِ جیوگرافی پر ان کی گرفت اتنی مظبوط ہے کہ بڑے بڑے جنگلات، صحرا، دریا اور سمندر انکی فنگر ٹپس پر پائے جاتے ہیں. اور یہ ہرکولیس کی طرح ساری دنیا اپنے ہاتھ میں لئے گھومتی ہیں. انہی کیلئے غالب نےلکھا تھا :

بازیچہءِ  اطفال ہے دنیا میرے آگے
ہوتا ہے شب و روز تماشا میرے آگے
ہوتا ہے نہاں گرد میں صحرا میرے ہوتے
گھِستا ہے جبیں خاک پہ دریا میرے آگے

زمین کا ارتقاء گویا انہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہو. بِگ بینگ  کے  بعد جب زمین اور دوسرے سیارے  الگ ہو کر سورج کے گرد گھومنے لگے  تو عنبرین نے اس کرشمے پر بڑی تالیاں بجائی تھیں. اپنے جذباتی تلاطم ،  خیالی مدوجزر اور پے درپے زمین بوس ہونے جیسے تجربات  کی روشنی میں یہ  زلزلہ آنے سے پہلے ہی اس کی شدت بتا دیتی ہیں. زمین کی اندرونی ساخت پر انکی گہری نظر ہے. زمین کی اندرونی پرتوں کا تذکرہ تو یوں کریں گی جیسے بچپن میں وہاں آنکھ مچولی کھیلتی رہی ہوں.
.
بیشتر خواتین کی طرح یہ بھی اکثر اداس ہی پائی جاتی ھیں. اور بذریعہ شاعری دوسروں کو بھی اداس کرنے کی کوشش کرتی ھیں. باتیں کم اور شعر زیادہ کہتی ھیں. بچوں سے انکے فرینڈشپ کا اندازہ اسی بات سے کر لیں کہ میری بیٹی حلیمہ کو گروپ کی جن دو خواتین کے نام یاد ہیں ان میں سے پہلے نمبر پر عنبرین آنٹی ہیں.
.
اکثر پروفیشنل خواتین کے برعکس یہ اچھا کھانا بنانے کی صلاحیت بھی رکھتی ہیں. جو بھی بناتی ھیں، کافی زیادہ مقدار میں بناتی ہیں. جس سے اندازہ ھوتا ھے کہ یا تو ان کی شخصیت بہت وسیع القلب ھے یا پھر ان کا ٹَبر (خاندان) بہت بڑا ھے. بائی بلڈ "خان" لیکن طبیعتا "بٹ" واقع ہوئی ھیں. انتہائی تخلیقی ذھن کی مالک ھیں. فیس بک پر اپنے باڈی بلڈر بھائیوں کی تصویریں شیئر کرتی رھتی ھیں جو کہ بلاشبہ فیس بک کے نوخیز منچلوں کو اِن-ڈائریکٹ وارننگ دینے کا ایک انوکھا انداز ھے.
.
- خرّم امتیاز



1 comments: