سال 2015 اور میں

10:52 AM 0 Comments

اپنی تمامتر حشر سامانیوں کیساتھ یہ سال بھی اپنے اختتام کو پہنچا.

جنوری ویسا ہی سرد اور خشک رہا جس میں "خشک پتوں کی طرح لوگ اڑے جاتے ہیں ___ شہر بھی اب تو نظر آتا ہے جنگل کی طرح" سانخہءِ آرمی پبلک سکول کی اداسیاں دل پر حاوی تھیں.

جنم دن اور شادی کی سالگرہ کے کیک کے ساتھ فروری میں بہاروں سے میٹھی گفتگو رہی کہ "بہارو میرا جیون بھی سنوارو، کوئی آئے کہیں سے، یوں پکارو" .. یہ پکار سن کر نعمان لاشاری پاکستان آئے. اور پھر کچھ دن فیس بک کے اندر باہر خوب ہلچل مچی رہی.

مارچ میں سارے خاندان والوں کا دورہءِ لاہور، فوڈ سٹریٹ پر یادگار ڈنر، اور پھر کلر کہار کے نزدیک دریافت شدہ نئی "سوائیک جھیل" کے دلکش بسنتی مناظر " تمہی سے دل نے سیکھا ہے دھڑکنا، تمہی کو دوش دوں گا اے نظارو"  جیسی جذباتی سوچوں کے بیچوں بیچ مگر کچھ بچوں کو سوری اور تھینک یو سکھانے کا ایک غیر جذباتی کام بہرحال ہم سے پھر بھی سرزد ہو گیا.

اپریل سے پہلے ہی کمپنی نے اپریل فول بناتے ہوئے باوجود اصرار کے  تنخواہ نہ بڑھائی .. گویا "میرا جیون کورا کاغذ، کورا ہی رہ گیا __ جو لکھا تھا آنسوؤں کے سنگ بہہ گیا" .. مزید یہ کہ انہی دنوں فیس بک پر 100 لفظوں والی ایکٹیویٹی کے تجزئوں کا بوجھ اپنے سر لے کر بد سے بدنام ہوتے پھرے.

مئی میں ہمارے فیس بک کے چند غیر مرئی دوستوں نے انٹرنیٹ پر ہمارے بیٹھنے کو اک بیٹھک کا انتظام کیا جو ہمارے لئے فیس بک پر اُٹھک بیٹھک کا واحد ذریعہ بن گئی. مئی کا مہینہ اگلے تین مہینوں کی  گرمی کے ڈر سے خوفزدہ ہوتے ہوئے گزر گیا. صد شکر کہ اس بار لوڈشیڈنگ کم رہی اور ہم فرائی ہونے کی بجائے صرف باربی کیو ہی بن سکے. سوچا کہ "جلا ہے جسم جہاں دل بھی جل گا ہو __ کریدتے ہو جو اب راکھ، جستجو کیا ہے" .. مگر "یہ چنگاری بھی یا رب اپنی خاکستر میں تھی" کہ ان گرمی کی شاموں  میں بھی چند ایک بڑی سہانی تھیں، جن میں سے ایک مجھے یاد آ رہی ہے مسٹر بورِنگ توصیف احمد کے ساتھ باغ جناح میں بنچ پر بیٹھ کر گاتے ہوئے "کھویا کھویا چاند__ کُھلا آسمان" اور "میں یہ سوچ کر اسکے ڈر سے اٹھا تھا"

جون  میں روزے ... ان دنوں کا ذکر کرتے زبان پر پسینے آ جاتے ہیں ...لیکن پھر بھی کچھ قابل ذکر یادیں بادشاہی مسجد کے پڑوس میں بیٹھکئینز کے ساتھ یادگار افطاری. فرقان وٹو کی بغل میں رنگیلے رکشے کی سواری کے دوران ”چل چلئے دنیا دی اوس نکرے __ جتھے بندہ نہ بندے دی ذات ہووے“ ___، پھر دفتر والوں کیطرف سے رائل پالم میں گرینڈ فیملی افطار ڈنر جس میں شرکت کو ہمارے اہل خانہ فیصل آباد سے آئے. اور پھر اگلے ہی دن بیٹھک خواتین کی گرینڈ افطاری میں بیگم صاحبہ اور حلیمہ کی شرکت .. بیٹھک کے بڑھتے ہوئے احسانات "آپ کی عنایتیں، آپ کے کرم __ آپ ہی بتائیں کیسے بھولیں گے ہم" __ اسی دن شمائلہ بھابھی، عنبرین خان ، عاصمہ سلیم اور سیدہ کلثوم سے  مختصر ملاقات ہوئی

جولائی میں حبس زدہ سوچوں کا غلبہ رہا جب تک کہ عمران قاضی اور ساجد حسین کے ساتھ لگی یادگار بیٹھک کا دن نہ آ گیا..... اور یوسف لغاری سے ہوئی واحد ملاقات کی ٹوون ٹووں ٹووووں جس کے بارے میں فقط یہ تبصرہ : ”یہ کیا ہوا؟ کیسے ہوا؟ کیوں ہوا؟ کب ہوا؟ کیوں ہوا ؟____ جب ہوا، تب ہوا ___ او چھوڑو ، یہ نہ سوچو “
ارے ہاں یاد آیا اس سے اگلے ہی دن آمنہ ملک کی دعوت پر گوجرانوالہ یاترا بھی کی اور اس ون ڈے ٹوور کی ہر اک بات ذہن میں نقش ہے، بشمول اس یاد کے کہ ہماری میزبان وکیلنی سے قبل ہم خود دعوت کدے پر موجود تھے اور وہ کورٹ میں اپنے مقدمے بھگتانے میں مصروف تھیں. جس کا بدلہ ہم نے یوں لیا کہ قاضی اور آمنہ کو گفتگو میں مشغول کر کے ہم خود کھانے میں مشغول رہے.

لاہور سے گوجرانوالہ کے راستے میں قاضی صاحب کو خوب بور کیا کہ گاڑی میں میوزک سسٹم بھی نہیں تھا اور ہم انہیں ڈیڈیکیٹ کرنا چاہتے تھے "چودہویں کا چاند" .....  سچ یہ ہے کہ وہ ساعتیں کمال کی تھیں اور "یوں گماں ہوتا 'تھا' گرچہ ہے ابھی صبحِ فراق __ ڈھل گیا ہجر کا دن آ بھی گئی وصل کی رات" کی فیلنگز ابھی جاری تھی کہ وقتِ رخصت آن پہنچا. اور قاضی سے مانوس ہوتے ہوتے اتنا زیادہ وقت لگ گیا مگر " ہم کہ ٹھہرے اجننی اتنی مداراتوں کے بعد ___ پھر بنیں گے آشنا کتنی ملاقاتوں کے بعد "

اگست میں ثوبیہ ناز سے ملاقات یادگار رہی، جس کے بہانے ہم بیٹھک کی روایات کے برعکس ایک بوفے ڈنر میں جا دھمکے، پھر ہماری توجہ کی طالب مہمان تو ہمارا منہ ہی تکتی رہ گئی، کیونکہ ہماری توجہ کھانوں کی کوالٹی جانچنے پر مرکوز تھی "جس سمت بھی دیکھوں نظر آتا ہے کہ تم ہو ___ اے جانِ جہاں یہ کوئی تم سا ہے کہ تم ہو"

ماہِ ستمبر لاہور میں در در کی خاک چھانتے گزرا کہ فیملی کو فیصل آباد سے لاہور لانا مقصود تھا. بالاخر اکتوبر میں اس کارِ خیر سے سبکدوش ہوئے، مگر سبکدوش ہوئے نہیں، کیوںکہ زندگی اچانک سے یکسر تبدیل ہو گئی. ذمے داریاں !!! جن میں بچوں کو سکول پہنچانے اور لانے کی انوکھی ذمے داری، اور خواتین کی نہ ختم ہونے والی خریداری ہماری دوسری خوامخواہ کی سوشل مصروفیات کیلئے جان لیوا ثابت ہوئیں. ”کیا سے کیا ہو گیا بیوفا تیرے پیار میں ___ چاہا کیا ، کیا مِلا، بیوفا تیرے پیار میں“

اکتوبر اور نومبر میں مابدولت کی کینوس اور رنگوں سے جاری زور آزمائی میں رنگ باتیں کرتے رہے، اور ان باتوں کی خوشبو سے ہم معطر ہوا کئے. لاہور میں گھر کا پکا کھانا ملنا شروع ہوا تو اک روز بٹ کدے پر لاہوری بیٹھکئینز کو بھی ہم نوالہ و ہم پیالہ کرنے کی غرض سے  بیگم کے ہاتھ کی سپائسی بریانی کھلا کر ان معصوموں کو بے جا اشکبار کیا. اس دعوت میں فرقان بھائی نے بھی شرکت کی تھی .. جس کا بدلہ ان سے بمع سود اگلے ہی مہینے سیالکوٹ جا کر وصول کیا گیا. ”اپنا پتا ملے نہ خبر یار کی ملے ___ دشمن کو بھی نہ ایسی سزا پیار کی ملے“

دسمبر میں عاصمہ سلیم، آمنہ ملک اور عنبرین خان نے شرکت کر کے حسن کی سالگرہ کو یادگار بنایا. عاصمہ کے ہاتھ کے بنے کیک کی شیرینی  نے "ہائے دسمبر" کو "واؤ دسمبر"  کر دیا. ابوبکر جتوئی اور محمد طلحہ کی شکل میں لاہوری بیٹھکئینز کی لسٹ میں دو پیارے دوست شامل ہوئے.
 سال کا سب سے بڑا ایڈونچر ہمارے کزن عدنان بٹ کی شادی کی صورت میں برپا ہوا، جس میں میرے آفس سے بارہ چھٹیوں کے دوران بہنوں نے بچوں سمیت اپنے سسرال سے آکر فیصل آباد والے گھر میں رونق لگا دی. پکنک، عید میلادالنبی ، پیزا پارٹی، سوپ پارٹی، اور میری توقعات سے بڑھ کر ننھی ننھی بیشمار خوشیاں جن کے لئے اللہ کا جتنا شکر ادا کروں کم ہے.

اس سال کے اختتام پر زندگی کا محاسبہ کیا کریں .. کہ کیا کھویا اور کیا پایا ؟
کھویا تو شاید کچھ بھی نہیں اور اپنے وزن میں خاطر خواہ اضافے کی صورت بہت کچھ پا لیا :) مگر زندگی کی پیاس ابھی بھی ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی.
"
قطرہ قطرہ ملتی ہے
قطرہ قطرہ جینے دو
زندگی ہے !! بہنے دو
پیاسی ہوں میں پیاسی رہنے دو
"

0 comments:

16 دسمبر

4:15 AM 0 Comments

آرمی اسٹیبلشمنٹ کو چاہئے کہ سقوط ڈھاکہ سے پہلے جو حالات مشرقی پاکستان میں پیدا کر دیئے گئے تھے، ان پس پردہ حقائق اور ذمے داران کے نام منظر عام پر لائے جائیں. ہمیں بتایا جائے کہ نوے ہزار فوجیوں نے کیونکر بھارتی فوج کے آگے ہتھیار ڈال دیئے تھے؟ کیا اسکی وجہ یہ تو نہیں کہ ہمارا مقابلہ بیک وقت انڈین آرمی کے ساتھ ساتھ بنگالی عوام کے ساتھ بھی تھا؟ اگر ہم بنگالی عوام کے ساتھ بھی برسر پیکار تھے تو ایسا کیوں ہو رہا تھا؟ کیا وہ بغاوت تھی یا زبردستی تسلط قائم رکھنے کی جارحانہ پالیسی ؟ ایوب خان کا دور جس کے بارے میں ہمیں بتلایا جاتا ہے کہ بہت خوشحالی آئی اس خوشحال دورِ حکومت میں حالات سقوط ڈھاکہ کی جانب کیوں گامزن تھے ؟................ ہمیں کتابوں میں جس طرح پڑھایا گیا تو لگتا تھا کہ سقوط ڈھاکہ بس ایک دن میں ہو گیا .. اور ملک کے دو ٹکڑے ہو گئے. اب مجھے جو سمجھ آ رہی ہے وہ یہ کہ بنگالیوں نے باقاعدہ تحریک آزادی لڑی تھی پاکستانی فوج کے خلاف .

میں ملک کے تعلیم یافتہ طبقے سے تعلق کے باوجود اتنا کنفیوز ہوں تو سوچئے دوسرے کم تعلیم یافتہ اور ان پڑھ طبقہ کے اس بارے نالج کی حالت کیا ہو گی؟



آخر کب تک آرمی اسٹیبلشمنٹ سے کوئی بھی سوال پوچھنے کو فوج کی بدنامی کے زمرے میں ڈال کر خاموشی اختیار کی جائے گی؟

آرمی کو چاہئے کہ سقوط ڈھاکہ کے بعد افغان سویت یونین کی جنگ میں پاکستانی فوج کا کردار وضح کریں، طالبان کی افزائش اور افغانی معاملات میں زائد از ضرورت انوولومنٹ کی وضاحت کریں. ہماری کیا مجبوری تھی جو ہمیں وہ سب کرنا پڑا .... اسکے بعد دہشت گردی کی جنگ میں امریکا کیساتھ ملکر قبائلیوں و افغانیوں کو نیست و نابود کرنے کی پالیسی کی وضاحت کی جائے.

یقین مانئے عام آدمی پاک فوج سے محبت کرتا ہے لیکن وہ حد درجہ کنفیوزڈ ہے. مجھے ایسے شخص کو بھی معلوم نہیں کہ ہمارے ملک کی خارجہ پالیسی آخر ہے کیا؟ ہماری انڈیا کے بارے میں سوچ کلئیر نہیں، اسرائیل کے بارے میں موقف مبہم ہے. ہماری عوام امریکا سے نفرت کرتی ہے مگر ہر دور میں ہماری فوج اور حکومتیں امریکا کے تلوے چاٹتی نظر آتی ہیں... ہمیں ایشوز پر ملک کی ایک ہارڈ لائن پالیسی کیوں نہیں بتلائی جاتی؟ ہم کس بات پر اگریسیوو ہوں کس بات کو ڈیفنڈ کریں ... ہمیں کچھ نہیں معلوم .. ہم کنفیوزڈ قوم بن گئے ہیں

بینظیر قتل کی انویسٹیگیشن میں فوج اور ایجنسیوں نے نے کوئی بھی کردار کیوں ادا نہ کیا؟

عوام کو بتایا جائے کہ آگے اس ملک کی پالیسی دشمن کے بچوں کو پڑھانے کے علاوہ اور کیا ہے ؟؟

یاستدانوں کو ملک ٹھیک سے نہ چلانے پر گالی پڑتی ہے ..... مگر آپ ہسٹری پڑھیں ... جس طرح ایوب خان نے اپنی مرضی سے سب پرانے سیاستدانوں کا صفایا کرکے نئے سیاستدانوں کی پود تیار کی، آج تک ہر سیاسی جماعت میں اسی فیکٹری سے تیار کردہ سیاستدانوں کا تسلسل چلا آ رہا ہے ... اس ملک سے جمہوری سیاست کا خاتمہ اور حقیقی دھاندلی کا آغاز اسی دن ہو گیا تھا جس دن فاطمہ جناح کو دھاندلی سے ہرایا گیا تھا .........جنرل ضیاء اور پھر جنرل مشرف نے اسی ایوب والی پالیسی کو دہرا کر ہر دس سال بعد اسی ایوبی فلسفے اور سیاستدان بنانے کی فیکٹری کو جلا بخشی. ____________ جن دس سالوں میں فوج حکومت پر قابض نہیں ہوتی ان دس سالوں میں قوم کو سیاستدانوں کو گالی دینے کی نوکری پر معمور کر دیا جاتا ہے ... اسلئے موجودہ ملکی ابتری میں سیاستدانوں سے زیادہ آرمی اسٹیبلشمنٹ کو قصور وار خیال کرتا ہوں.
 

0 comments:

گاندھی دنیا میں جناح سے زیادہ مقبول کیوں؟

4:16 AM 0 Comments


پہلی بات یہ کہ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ گاندھی جی بین الاقوامی طور پر جناح سے بہت زیادہ مقبول ہیں. لیکن میرا نہیں خیال کہ اس فیکٹر کے پیچھے پاکستانیوں کی کوئی کوتاہی شامل ہے. ٹین ایج میں مجھے بھی ملال ہوتا تھا کہ ہمارے لیڈر جناح کو دنیا میں اسطرح لوگ کیوں نہیں جانتے جس طرح گاندھی کو جانتے ہیں ...

1 - قائد اعظم ہمارے لئے بہت بڑے لیجنڈ رہنما ہیں لیکن وہ صرف برصغیر کی چند ریاستوں (صوبوں) کے مسلمانوں کے لیڈر تھے، انہوں نے یہاں کے مسلمانوں کے حقوق کی جدوجہد لڑی اور مسلمانوں کے لئے الگ ملک حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے، ان ریاستوں میں بھی ان کے مسلمان مخالفین بہت اکثریت میں تھے. .......... جبکہ گاندھی پوری دنیا کے ہندوؤں کے واحد لیجنڈ لیڈر کے طور پر متعارف کروائے گئے. انہیں مہاتما گاندھی کا درجہ دیا گیا.




2 - قائداعظم کی سیاست، افکار، نظریات اور جدوجہد صرف برصغیر کے مسلمانوں کے مسائل اور پاکستان کی آزادی کے گرد گھومتی ہے. ............. جبکہ گاندھی کی جانب سے ہندوستان کی تحریک آزادی کے رہنما ہونے کے علاوہ بہت سے معاملات میں یونیورسل فلسفے کی سوچ سامنے آئی. جو ناصرف بہت حد تک عیسائیت کے بنیادی مذہبی عقائد سے مماثلت رکھتی ہے بلکہ جدید دنیا کے لئے یسوع مسیح کے وچاروں کی ارتقائی تشریح خوبصورت انداز میں کرتی ہے ... ان فلسفوں میں فلسفہءِ عدم تشدد ، انتہائی صلح جوئی، شدت پسندی کی نفی، ظلم برداشت کرنا، خاموش احتجاج ، سول نافرمانی پر عمل ، احتجاجی دھرنوں کی عملی سیاست، بھوک ہڑتال ... کسی کے پہلے تھپڑ کے جواب میں اپنا دوسرا گال بھی پیش کر دینا وغیرہ وغیرہ اور ایسی ہی بہت سی سوچیں شامل ہیں .... کرسچینز کو یہ سب باتیں اپنے مذہبی افکار سے قریب ترین محسوس ہوتی تھیں اور یہ سب باتیں قیام پاکستان سے بہت پہلے سے مغربی لٹریچر کا حصہ بننے لگی تھیں.... گاندھی نے تحریک آزادی سے پہلے نسلی تعصب (racism) کی تحریک سے شہرت پائی، جو آج ماڈرن دنیا کا ایک حقیقی ایشو سمجھا جاتا ہے ..... امریکہ میں پچاس ساٹھ کی دہائی میں کالے لوگوں کی تحریک کے روح رواں "مارٹن لوتھر کنگ" تک اپنی تحریک میں گاندھی کے اقوال کے حوالے دیا کرتے تھے. وہ تحریک بھی کامیاب ہوئی، اور امریکا میں کالوں کو حقوق ملنا شروع ہوئے نسلی تعصب کا خاتمہ شروع ہوا ..





3 - گاندھی کی شخصیت اور افکار پر انٹرنیشنل سطح پر بہت کچھ لکھا اور سراہا گیا ہے، ھالی ووڈ لیول پر ان کی شخصیت پر فلمیں بنی ہیں. 1981 میں ھالی ووڈ میں بننے والی فلم "گاندھی" نے نو آسکر ایوارڈ جیت کر پہلی بار کسی ایک ہی فلم کی جانب سے اتنے زیادہ آسکر جیت کر نئی تاریخ رقم کی تھی ....... اور یقین مانئے وہ فلم دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے ..... اس کے علاوہ دیگر قابل ذکر فلموں میں 1985 کی فلم "میں نے گاندھی کو نہیں مارا" اور 2006 میں ریلیز ہوئی فلم "لگے رہو منا بھائی" شامل ہیں. ______ اس تمام لٹریجر اور فلموں کو دیکھنے کے بعد یہ بات خود بخود سمجھ آتی ہے کہ گاندھی محض ایک فریڈم فائٹر نہیں تھے، ان کی شخصیت اور افکار کے بہت سے پہلو تھے جنہیں بین الاقوامی طور پر پسند کیا جاتا ہے ....

اس کے علاوہ میں ایک فلم "The Great Debaters" دیکھ کر حیران ہوا، جس میں چالیس کی دھائی میں امریکا میں کالج سٹوڈنٹس کے مابین تقریر بازی کے مقابلوں کا رجحان دکھایا گیا .... فلم کے آخر میں سٹوڈنٹس کی ٹیم کو فائنل تقریر کے لئے کوئی موضوع سمجھ نہیں آ رہا تھا تو انہوں نے گاندھی کے افکار کو بنیاد بناتے ہوئے اپنی تقریر لکھی ... اور وہ تقریری مقابلہ جیت لیا ... جس سے مجھے اندازہ ہوا کہ چالیس کی دھائی میں گاندھی کے فلسفے بین الاقوامی سطح پر فیشن کا درجہ حاصل کر چکے تھے
 

تو میری ذاتی رائے میں ہمیں گاندھی کو محض ہندؤں کا ایک لیڈر اور فریڈم فائٹر سمجھتے ہوئے ان کا مقابلہ قائد اعظم محمد علی جناح کیساتھ نہیں کرنا چاہئے. کیونکہ گاندھی تحریک آزادی کے رہنما سے بڑھ کر بہت کچھ تھے، وہ ہندوستان کے علاوہ بھی دنیا بھر کے لوگوں کی سوچ بدلنے کا باعث بنے، اور بن رہے ہیں ..... اور آج اگر وہ زیادہ مقبول ہیں تو یہ انکا حق بنتا ہے



ایک مزے کی بات جو میری ذاتی رائے ہے. (اگر کسی کی دل آزاری نہ ہو)

آج ہم لوگ پاکستان میں، اور ہندوستانی وہاں بھارت میں بڑی اچھل کود کرتے ہیں کہ ہم نے انگریزوں کو یہاں سے مار بھگایا، اور آزادی حاصل کر لی :) .... جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے برصغیر کے لیڈران نے زور تو بہت لگایا لیکن ان سے بن کچھ نہیں پا رہا تھا. آج ان موضوعات پر بعد میں جو فلمیں ڈرامے اور مضامین لکھے جاتے رہے ان میں اس دور کی انگریز حکومت پر ہندوؤں اور مسلمانوں کا شدید پریشر دکھایا جاتا ہے ........... جبکہ ایسا کوئی چکر نہیں تھا، انگریز حکومت آخر دم تک یہاں سٹرونگ تھی ... انگریزوں نے طاقت کے زور پر یہاں حکومت قائم کی تھی، اور وہ طاقت کے زور پر برصغیر عمدگی سے چلا رہے تھے، انہوں نے جو زبردست ترقیاتی کام اس دور کے برصغیر میں کیے انکی مثال نہیں ملتی ...... وہ ان آزادی کی تحاریک کے پریشر میں آنے والے نہیں تھے... ہاں وہ یہاں کی عوام پر ظلم بھی کرتے ہوں گے ... کیونکہ غلامی کی قیمت بہرحال غلاموں کو ادا کرنی پڑتی ہے ....

تو پھر سوال یہ ہے کہ بھارت/پاکستان کی آزادی کیوں کر ممکن ہو پائی؟ اس سوال کا عام فہم میں جواب یہ ہے کہ دوسری جنگِ عظیم کے خاتمے کے بعد جو سیاسی و معاشی حالات تھے ان حالات میں تاج برطانیہ کے لیے ممکن ہی نہ رہا تھا کہ وہ اپنے نوآبادیاتی مقبوضہ جات پر اپنا تسلط برقرار رکھ پاتا۔ انہوں نے اسی طرح برصغیر سے جان چھڑانے میں عافیت سمجھی جسطرح آج امریکا اپنے مقاصد پورے ہو جانے پر افغانستان اور عراق سے نکل رہا ہے ...برطانیہ کی معاشی اور اقتصادی بہتری کیلئے انہیں تب یہاں سے جانا ہی تھا. بہرکیف 14اور 15 اگست 1947 کی درمیانی شب پاکستان اور بھارت الگ ممالک کے طور پر معرض وجود میں آ گئے۔ برطانوی سامراج سے (سو کالڈ) آزادی مل گئی۔ اور ہم نے حقیقی عملی آزادی کی جانب گامزن ہونے کی بجائے صرف اپنے لیجنڈز کو پوجنا شروع کر دیا :)
 

0 comments:

ھم

10:00 AM 0 Comments

"ہم دوسروں میں بھی خود ہی کو تو تلاشتے ہیں، جہاں کسی میں ذرا سا اپنا پن یا "اپنا سا پن" نظر آ جائے _____ بس ہم فورا اس ذات  سے بہت سارا اپنا پن نچوڑنے کی کوشش کرنے  لگتے ہیں..... جب وہ حسب خواہش "اپنا پن" نہیں مل پاتا تو زبردستی اپنے پن کی مقدار ٹھونسنے کی کوشش کرنے لگتے ہیں .... آخر کار مایوسی اور فرسٹریشن ہمارا مقدر بننے لگتی ہے."


0 comments:

نعمان کی اماں

12:07 PM 0 Comments

میرے کولیگ  دوست نعمان خان کی اماں آجکل لندن میں نعمان کے پاس رہنے گئی ہوئی ہیں.....میں اور نعمان اکثر ایک دوسرے کی مدد سے دفتر کا کام کرتے ہیں .... ایسے ہی کچھ دن پہلے نعمان کو پروگرامنگ کے حوالے سے میری کچھ مدد درکار تھی .... ہم دونوں سکائپ پر کافی دیر سے گفتگو کر رہے تھے .... اماں بھی وہیں اسی کمرے میں نعمان کے پاس موجود تھیں.... کچھ دیر بعد میں نے سنا کہ اماں نعمان سے کہہ رہی تھیں کہ "ایہہ خرّم تیری جان کدوں چھڈے گا ؟؟" (یہ خرّم کب تمہاری جان چھوڑے گا) ............. میں نے نعمان سے مذاق میں کہہ کیا کہ اماں کو بتاؤ کہ آج کام نعمان کا ہے، اور دراصل نعمان خرّم کی جان نہیں چھوڑ رہا :) .........اور نعمان صاحب بھی ملنگ آدمی ... لفظ بہ لفظ میری بات اماں سے بول دی. اور اماں یقینا حیران ہوئیں کہ خرّم تک انکی آواز پہنچ گئی ہے

اگلے دن اماں نے مجھے لندن سے خصوصی کال کی .... مجھے کہنے لگیں.... کہ "کل میری بات تمھیں بری لگی ہو گی .. اسکے لئے میں تم سے سوری کرنا چاہتی ہوں"......... میں سخت سے سخت وقت پر بھی مضبوط بنا پھرتا ہوں ... مگر اس موقع پر بےاختیار آنکھوں میں پانی اُمڈنے لگا.... میں نے انہیں سمجھایا کہ "اماں !!! میرا نعمان کے ساتھ خوب شغل چلتا ہے .. آپ سیریس نہ لیں ... اور میں نے کوئی مائنڈ نہیں کیا، اور نہ ہی یہ کوئی اتنی بڑی بات ہے .... تو سوری کر کے آپ مجھے شرمندہ کر رہی ہیں ".........
. لیکن وہ سوری پر بضد تھیں کہ "نہیں میں نے تمھیں ہرٹ کیا ہے"
آخر بڑی مشکل سے اس شرط پر رضامند ہوئیں کہ پاکستان واپس آتے ہوئے جرمانے کے طور پر میرے لئے لندن سے چاکلیٹس لے کر آئیں گی .......
 

اب آپ ہی بتائیں کہ ایسے انسان  سے بندہ پیار نہ کرے تو پھر کیا کرے 


0 comments:

رنگ باتیں کریں

11:31 PM 0 Comments

(کچھ دن قبل شرلی انجم نے اپنی ایک مختصر نظم کے ذریعے مجھ سے اک سوال پوچھا)
کینوس پر۔۔۔۔رنگ
بکھیرتے رہتے ہو
اب
کِس کے لئے ؟

(شرلی انجُم)
----------------------------------
رنگ باتیں کریں اور باتوں سے خوشبو آئے
درد پھولوں کی طرح مہکیں اگر تو آئے


(میرے لئے اس ایک شعر کا مفہوم بیحد اہم ہے )

اس تلخ حقیقتوں بھری زندگی میں ہمیں اپنی فرصت کے لمحات کیلئے ایسی عادات اور شوق پالنے چاہئیں (اور ایسے لوگوں سے تعلق پیدا کرنا چاہئے) جو شخصیت میں نکھار اور بہتری پیدا کرنے کا باعث بنیں ، نہ کہ الٹا ہمیں ڈیپریس اور مایوس کُن بنائیں

زندگی میں کبھی نہ کبھی اک مقامِ اختیار ایسا ضرور آتا ہے جب آپکی شخصیت اور سوچ کی آبیاری آپ کے اپنے ہاتھ میں ہوتی ہے. آپ چاہیں تو جیسے مرضی مشاغل اپنا سکتے ہیں.

آپ کے مشاغل متعین کرتے ہیں کہ آپ کی شخصیت اور سوچ کِس جانب رواں دواں ہے. ڈیپریسنگ اور مایوس کن سوچ کے مالک اپنی زندگی کے ہر گزرتے واقعے کے ساتھ ایک مایوس کن تجربہ و تجزیہ نتھی کرتے چلے جاتے ہیں، اور حقیقتا وقت کے ساتھ ساتھ وہ خود بھی سوسائٹی / کمیونٹی کیلئے " ڈیپریشن اور مایوسی" کی علامت بن چکے ہوتے ہیں _____ جبکہ مثبت تعمیری سوچ کی ڈیمانڈ ہے کہ کرخت لمحوں میں بھی رنگ بھر دیئے جائیں، اپنی زندگی بلیک اینڈ وائٹ ہی کیوں نہ ہو، ہم تب بھی کسی دوسرے کی زندگی کو رنگین بنا سکتے ہیں.



0 comments:

متنازعہ آرٹ

8:32 PM 0 Comments

 (مندرجہ ذیل خیالات کا اظہار منٹو پر اعتراض اٹھائے گئی ایک پوسٹ پر کیا گیا)

میرے خیال میں لوگوں کو تنقید کرنے سے پہلے منٹو کے افسانے ضرور پڑھنے چاہئیں. اکثر لوگ تو سنی سنائی تنقید آگے ٹرانسفر کرتے رہتے ھیں.

دنیا میں آرٹ کا ایک بڑا حصہ ایسا ھے جس سے بہت کچھ سیکھنے کے ساتھ ساتھ اپنے ھم مزاج لوگوں کیساتھ تو شیئر کر سکتے ھیں، ..
..... لیکن آپ اسے کسی طور اپنے گھر والوں کے ساتھ ڈسکس بھی نہیں کر سکتے.



ھالی ووڈ کی بیشتر ٹاپ کلاس کلاسک فلمیں R-rated ھیں. پاکستان میں آپ انہیں فیملی کے ساتھ بیٹھ کر دیکھنا افورڈ نہیں کر سکتے. مگر صرف ہمارے اس رویے کی وجہ سے اُس فلم کی اہمیت و افادیت سے انکار ہرگز نہیں کیا جا سکتا. اور نہ ہی اسکا یہ مطلب ھے کہ اچھی فلم صرف وہی ھے جو فیملی فلم ھو اور اسکے علاوہ باقی تمام فلمیں بیکار ھوتی ہیں




آرٹ کی ہر صنف ہر اک شخص اور ہر بزم کے لئے تخلیق نہیں ھوتی.جیسا کہ میرا ایک دوست اکثر کہتا ھے کہ "تصوف 
میرے مطلب کی چیز نہیں ھے، یہ میرے سر پر سے گزر جاتا ھے". بیشک اُس کے لئے یہی حقیقت ھو گی.
لیکن اسکا یہ مطلب نہیں کہ تصوف موجود ہی نہیں یا اسکی طرح دوسرے بہت سوں کے لئے بھی تصوف اہمیت نہ رکھتا ھو. یہ تو آسان سی بات ھے کہ ادب/آرٹ کی فلاں فلاں چیز اگر آپ کو نہیں پسند تو آپ مت فالو کریں. مگر آپ اس کو جھٹلا نہیں 

سکتے.

منٹو بھی ایک ایسا ہی آرٹسٹ ھے جو معاشرے کے ایک خاص طبقے کی سوچ اور مائنڈ سیٹ کی عکاسی کرتا ھے. یہ اور بات کہ وہ سفاک درجے کا حقیقت نگار ھے. جسے ہر کوئی ہضم نہیں کر پاتا.

حیرت مجھے اس بات پر ھوتی ھے کہ منٹو کو بطور رائیٹر یکسر ریجیکٹ کرنے کی کوشش کی جاتی ھے. اسے سطحی رائیٹر کہہ کر پکارا جارھا ھے. حالانکہ اس کے کام کو پسند کرنے اور سراہنے والوں کی بھی کمی نہیں. تو کسی نومولود تجزیے کی کیا اہمیت رہ جاتی ھے جب کہ احمد ندیم قاسمی جیسے مایہ ناز ادیب منٹو کو "عظیم افسانہ نگار" کے الفاظ کے ساتھ یاد کیا کرتے تھے
پکاسو کو لیجنڈ لیجنڈ کہنے والوں میں سے اکثریت نے پکاسو کی بنائی پینٹنگز دیکھی ہی نہیں ہوتیں. میرا دعوی ھے کہ اگر وہ دیکھ لیں تو ان کا سر چکرا جائے. کیونکہ جس طرح منٹو کے کئی افسانے گھر میں ڈسکس نہیں ھو سکتے، اسی طرح پکاسو کی بہت سی تصویریں بھی آپ گھر والوں کو نہیں دکھا سکتے ..
اور پکاسو کی جو تصویریں گھر میں دکھائی جا سکتی ھیں ان میں سے اکثر کو دیکھ کر آپ کو لگے گا کہ 'منٹو' کی طرح 'پکاسو' بھی ایک سطحی آرٹسٹ تھا.
 
لفظ "ذوق" کا مطلب ہی یہی ھے کہ بہت سی تخلیقات میں سے اپنے مطلب کی چیزوں کو فلٹر کر کے اپنے فیورٹ کی لسٹ میں شامل کیا جائے.

ہر تخلیق کار نے اپنی ذہن، سوچ، بیک گراؤنڈ کے حساب سے کریٹیویٹی کرنی ھوتی ھے. آپ اسے روک نہیں سکتے... مگر اپنی پسند اور ناپسند کے
آرٹ کے مابین لائن قاری نے خود ڈرا کرنی ھوتی ھے. جس کو اگر کسی ایک لیول سے نیچے یا اوپر کا کام ہضم نہیں ھوتا، تو وہ اس کو اگنور کرے، اجتناب برتے. اپنے فیورٹ کی لسٹ میں شامل نہ کرے. مجھے اگر سلطان راہی کی پنجابی فلمیں لو لیول لگتی ھیں تو میں دیکھنے کیلئے سینما نہیں جاؤں گا. لیکن جو طبقہ اسکی فلمیں دیکھنا پسند کرتا ھے، میں ان کو کیوںکر روک سکتا ھوں؟


اور جب کسی ایک آرٹسٹ کو یوں ٹارگٹ کر کے تنقید کا نشانہ بنایا جانے لگے تو اس آرٹسٹ کی ریٹنگ خود بخود ہائی ھو جائے گی. منٹو کو بھی اس کے افسانوں سے بڑھ کر اس کے نقادوں نے پاپولر بنایا ھے.... مثلا اسی پوسٹ اور اس پر ہونے والے کمنٹس کے بعد کئی ممبران متجسس ھو کر منٹو کو پڑھیں گے..
 


0 comments:

فاریسٹ گمپ

3:00 PM 0 Comments



گو کہ یہ میری زندگی کا کوئی رئیل کردار نہیں ھے، لیکن میرے لئے کسی زندہ کردار سے کم بھی نہیں، کیونکہ مجھے یہ ہمیشہ سے انتہائی مکمل، بھرپور اور جاندار کردار لگتا ھے.
.
آپ میں سے جو لوگ فلموں سے شغف رکھتے ھیں وہ جانتے ھوں گے کہ 'فاریسٹ گمپ' 1992 میں آسکر ایوارڈ کے لئے نامزد ہونے والی اک فلم کا نام ھے اور اس میں اداکار 'ٹام ھینکس' نے فاریسٹ گمپ کا لازوال مرکزی کردار ادا کیا تھا.
.
فاریسٹ گمپ زمانے کیلئے ابنارمل ھے... اس میں کوئی ایک بھی خاص بات نہیں. یا پھر شائد اسے ابنارمل سمجھنے والے ھم سب خود نارمل نہیں. فاریسٹ گمپ کی نظر سے زندگی کو دیکھیں تو زندگی بہت آسان دکھائی دینے لگتی ھے. وہ بڑی سے بڑی کربناک سچویشن کو بھی اپنی سادگی کیساتھ یوں گزار دیتا ھے کہ دیکھ کر ہنسی آتی ھے او زندگی کا کوئی بھی غم اتنا دلدوز محسوس نہیں ھوتا کہ اس پر آنسو خرچ کئے جا سکیں. وہ اپنے معصوم سے فلسفے کے ساتھ زندگی میں کتنی بڑی اور یادگار کامیابیاں حاصل کر گیا، کن کن بڑے لوگوں سے ملا، کیا کیا اعزازات لئے، لیکن اسے کسی بڑے پن کا ادراک ہی نہیں. اور ہر گزرے پل کو جھٹک کر وہ بس آگے ہی بڑھتا جاتا ھے. مشکل سے مشکل وقت میں بھی زندگی اسکے لئے آسان اور سیدھی ہی رھتی ھے، کیونکہ وہ پیچیدہ سوچیں سوچتا ہی نہیں.
.
فاریسٹ پیدائشی معذور تھا ، ٹھیک سے چل بھی نہیں سکتا تھا، پڑھ نہیں سکتا تھا، مگر اسکی ماں کی کہی انتہائی سادہ سی باتیں اس کے لئے سنہری اصولوں کی مانند تھیں، جن پر وہ مرتے دم تم ایمان رکھتا ھے. ماں کے علاوہ اسکی زندگی میں ایک لڑکی "جینی" آتی ھے، جسے وہ پسند کرتا ھے وہ اسے جینے کا حوصلہ دیتی ھے، مگر شائد اس لڑکی کی اپنی زندگی میں فاریسٹ جیسے شخص کیلئے کوئی جگہ نہیں ھوتی . بچپن میں اپنے سوتیلے والد کی ہوس کا شکار ہونے والی جینی کے اپنے بہت سے مسائل ھیں، جو مرتے دم تک اسکا ساتھ نہیں چھوڑنے والے، وہ بدکاری کرتی ھے، خطرناک نشے کرتی ھے، خودکشی کی کوششیں، اور ہر وہ کام کہ جس کے بعد کوئی بھی اسے اپنانے کو تیار نہ ھو، لیکن فاریسٹ کو فرق ہی نہیں پڑتا، اسے جیسے معلوم ہی نہیں کہ برائی کیا ھوتی ھے.
.
فاریسٹ لیجنڈری راک اینڈ رول سنگر کو ڈانس کے سٹیپس سکھاتا ھے، امریکن فٹبال ٹیم میں بے مثال کامیابی حاصل کرنے پر صدر جان ایف کینیڈی سے ملتا ھے، ویت نام کی جنگ میں حصہ لیتا ھے، اور شاندار بہادری پر امریکی صدر نکسن اسے اعزاز سے نوازتا ھے، وہ پنگ پانگ (ٹیبل ٹینس) کی  چیمپئن شپ جیت لیتا ھے. جان لینن کے ساتھ ٹی وی شو میں بطور مہمان شرکت کرتا ھے، جھینگوں کی خرید و فروخت کی کمپنی کی بنیاد رکھتا ھے جو اربوں روپے کماتی ھے. وہ مشھور زمانہ 'ایپل' کمپیوٹر کمپنی کے شیئرز خریدتا ھے. وہ پورے امریکا میں دوڑنے کے ریکارڈ قائم کرتا ھے. دکھایا یہی گیا کہ اس کی ہر ہر کامیابی انجانے میں حاصل ہوئی، اور اسے خود اپنی کامیابی کا ادراک نہیں. اپنے ہر رول میں وہ لوگوں کے لئے انسپریشن کا درجہ رکھتا ھے ، لیکن اسے خود احساس ہی نہیں کہ اس میں کوئی بھی خاص بات ھے. وہ معصوم ھے، انتہائی معصوم، جس کے لئے ہر شے بے معنی ھے .. سوائے اسکی ماں اور جینی کے، جن کے پاس وہ بار بار لوٹ کے آتا ھے.
.
ایک ناقابل فراموش کردار ، جس کی نظر سے زندگی کی ہر مشکل کوئی مشکل نہیں. کبھی کبھی بہت دل کرتا ھے اس دنیا کو فاریسٹ گمپ کی عینک سے دیکھنے کو. فلسفے کے بغیر زندگی جینے کو.

0 comments:

پاپا وحید

12:41 AM 0 Comments

سیالکوٹ میں بڑے بھائی یا کزن کو اکثر 'پاپا' کہہ کر مخاطب کرتے ہیں. بڑے ماموں کا سب سے بڑا بیٹا وحید بٹ. ننھیال میں میرا سب سے بڑا کزن. مجھ سے عمر میں کوئی بیس سال بڑا ہو گا.
خاندان کا پہلا بچہ ہونے کی وجہ سے اسکے خاص ناز نخرے اٹھائے گئے، مشھور ہے کہ اس نے بچپن میں کوئی جن وغیرہ دیکھ لیے تھے، جنکا کافی اثر اس پر رہا، اور وہ مافوق الفطرت قسم کی گفتگو کیا کرتا تھا. ابھی بھی خاندان والے اپنے خوابوں کی تعبیر اسی سے پوچھتے ہیں. اور کہا جاتا ہے کہ وحید کا دیکھے ہوئے خواب سچے ہوا کرتے ہیں. مگر پاپے وحید نے تعلیم میں کبھی دلچسپی نہیں لی. موصوف کا لڑکپن محلے کے آوارہ لڑکوں کی نذر ہوا اور جوانی میں اپنے سے دگنی عمر کی خاتوں سے عشق میں مبتلا ہو گئے .. گھر والوں سے ناراضگی مول کر اسی سے شادی کی اور گھر والوں سے الگ ہو گئے.
.
چھوٹے ماموں، جو پاپے وحید کے چچا تھے، یقینا پاپے وحید کے لئے بھی انسپریشن کا درجہ رکھتے تھے، پاپے نے اپنے چچا سے بہت سیکھا تھا، بقول پاپے وحید کے، اس نے چھوٹے ماموں کا وہ آرٹ ورک بھی دیکھا ہوا ہے جو ماموں نے مذہبی رجحانات غالب آ جانے پر ضائع کر ڈالا تھا.
مصوری کا فن پاپے وحید کو بھی گویا وراثت میں ملا تھا. لیکن مناسب تعلیم اور آرٹ کا ایکسپوزر نہ ہونے کے باعث وہ آرٹسٹ بننے کی بجائے چھوٹے ماموں کی طرح ہی ایک بازار میں پینٹرز کی دکان کھول کر بیٹھ گیا، اور اسے چھوٹے موٹے کام ملنے لگے، وہ سائن بورڈ لکھنے لگا اور گھروں اور دفتروں میں رنگ روغن کے چھوٹے موٹے کاموں سے اپنا گھر چلانے لگا.
.
خدا نے اولاد کی نعمت سے محروم رکھا. ابھی کوئی پچاس برس سے اوپر کا ہو چکا، کچھ سال پہلے لاہور میں کسی اونچی عمارت پر سائن بورڈ فکس کرنے کے دوران بجلی کا جھٹکا لگنے سے سیڑھی سے گر گیا، جان بچ گئی مگر بائیں ہاتھ کی انگلیاں اور بدن کی کئی ہڈیاں ٹوٹ گئیں ، بستر پر پڑ گیا، اور بڑی مشکل سے دوبارہ چلنے پھرنے کے قابل ہوا. لیکن اب پہلے کی طرح مارکیٹ میں پروفیشنل کام کرنے کے قابل نہیں رہا. گھر والوں نے بھی بالآخر واپس قبول کر لیا، ابھی سیالکوٹ ہی میں ہوتا ہے، لیکن اس نے اپنی عمر رسیدہ بیوی کو کسی حال میں اکیلا نہیں چھوڑا. عجب عشق ہے یہ.
.
اب اس عمر میں آ کر پاپے کو اندازہ ہوا ہے کہ اس نے عمر بھر اپنے فن کو ضائع کیا، یا یوں کہہ لیں کہ اپنے اندر کے فن کی اسے سمجھ ہی اب آئی ہے . پاپے وحید کا پنسل ورک کمال کا ہے. ابھی وہ گھر بیٹھا پنسل ورک اور سکیچز بنا بنا کر وقت گزاری کرتا ہے. میں نے پچھلے کچھ مہینوں میں پاپے کا کام دیکھا، میرے خیال میں وہ بہت ڈیٹیل کیساتھ حیرت انگیز کام کرتا ہے، اس بار میں نے دورہءِ سیالکوٹ کے دوران خاص طور پر پاپے وحید کے آرٹ ورک کی تصویریں بنائی ہیں. تاکہ اس کے بنائے ہوئے سکیچز آپ لوگوں کے ساتھ شیئر کر سکوں. تاکہ آپ میرے اس گمشدہ فنکار کزن کی صلاحیتوں کا اندازہ ہو سکے.
 ------------------------------

پاپے وحید کی تصویر

ایک چڑیا کے مرنے پر دوسری چڑیوں کا ردعمل



 ایک کہانی کا منظر


فوٹوگراف سے پورٹریٹ


گھر کے نادر برتن بنانے کی کمال ٹیکنیک

چوڑی دار اوزار بنانے کی ٹیکنیک

باڈی بلڈر بنانے کی ٹیکنیک

شیشے کا گلاس ، پانی اور اسکا عکسبنانے کی ٹیکنیک

مختلف اشیا کی ڈرائنگ بنانے کی ٹیکنیک


اخبار پڑھتے شخص کا خاکہ بنانے کی ٹیکنیک

ھیرے، موتی، نگ اور انگوٹھی بنانے کی ٹیکنیک

رومانٹکپورٹریٹ

گولائی اور نوکدار اشیاء بنانے کی ٹیکنیک

یونانی دیوتا کی تصویر

فلم مغل اعظم کا ایک منظر

ایک تخیلاتی پورٹریٹ

ورکشاپ کے اوزار بنانے کی ٹیکنیک


برتنوں اور صراحیوں کا ڈھیر بنانے کی ٹیکنیک

رنگین پورٹریٹ

شیر کی پینٹنگ


0 comments:

بڑی امّاں

11:40 AM 0 Comments

کچھ منفرد کردار :: # 2 - بڑی امّاں
---------------------------------------
رشتے میں میری بڑی ممانی ھیں. لیکن ان کے ساتھ اتنے زیادہ رشتے ھیں کہ جسکے لئے پوری ایک فہرست بنانے کی ضرورت ھے. لیکن وہ ساری فیملی کی بڑی اماں ھیں. چھوٹے بڑے سبھی انکو اسی نام سے پکارتے ھیں. میری امی، میں، اور اب میرے بچے بھی انکو بڑی اماں ہی کہتے ھیں.
.
وہ میری امی کے تایا کی بیٹی ھیں، ان کے والدین اپنی جوانی ہی میں وفات پا گئے جس کے بعد یہ لڑکپن ہی میں میری نانی کو پرورش کیلئے سونپ دی گئیں. تب میری امی کی پیدائش بھی ابھی نہیں ہوئی تھی. بعد ازاں اسی گھر میں میرے بڑے ماموں کے ساتھ شادی طے پا گئی اور امی کی بھابھی بھی بن گئیں.   میری امی کے بقول امی کو بڑی اماں ہی نے پالا پوسا اور  ہماری نانی کی وفات کے بعد اصل میں بڑی اماں ہی انکی ماں اور ہماری نانی بھی ھیں.
.
صوم و صلات اور تہجد کی پابند. بہت سی عبادات وہ کرتی ھیں. ہر سال اعتکاف پر بیٹھیں گی، اور چِٹی ان پڑھ ہوتے ہوئے بھی پتا نہیں کیسے اتنی زیادہ حدیثیں اور آیتیں انکو یاد ھیں.
.
بڑی اماں جوانی میں انتہائی خوبصورت تھیں. سبز رنگ کی آنکھیں، گورا رنگ اور بھورے بال. آگے سے ان کے سبھی بچے بھی  بڑے خوبصورت. جب سے میں نے ہوش سنبھالا بڑی اماں کی خوبصورتی کے قصے سنے. ھم پوچھتے کہ بڑی اماں آپ اتنی پیاری کیسے ھو تو وہ کہتی ھیں میرے حسن کا راز ھے 'تبت سنو' کریم . اور واقعی ھم نے انہیں ہر موقع پر چہرے پر 'تبت سنو' کریم لگاتے اور آنکھوں میں ہاشمی سرمہ لگاتے ہی دیکھا.
.
بڑی اماں کے گیارہ بچے ہوئے جن میں سے صرف سات حیات ھیں، انکے ہاں چھانگے (چھ انگلیوں والے) بچوں کی پیدائش ھوتی تھی، جو بعد ازاں جانبر نہ ھو پاتے تھے. مگر جب بھی بچوں کا ذکر آئے، وہ اپنے مرحوم بچوں کا ذکر ضرور کرتی ھیں.
.
بڑی امّاں ایک ایسی انپڑھ خاتون ھیں، جنکو پڑھائی کی قدر کا بھرپور اندازہ ھے. انہوں نے اپنے بچوں کو پڑھانے کے لئے بہت محنت کی لیکن کوئی بھی بچہ پڑھائی میں آگے نہیں نکل سکا. اور پھر سوائے ایک کے کوئی بھی بیٹا ذمے دار ثابت نہ ہوا. کوئی غلط صحبت کا شکار ھو گیا، تو کوئی کسی حادثے کا شکار ھو گیا. کسی نے اپنی زندگی  باڈی بلڈنگ کی نذر کر دی تو کوئی کبوتر بازی میں ہی مگن ھو گیا، اور کوئی اپنی مرضی کی شادی کر کے الگ ھو گیا. میرے بڑے ماموں کے فنانشل حالات بھی کوئی بہت آسودہ نہیں تھے، پھر وہ طویل علالت کا شکار رھے، بڑی اماں نے انکی خوب خدمت کی پندرہ سال قبل ماموں بھی وفات چکے.
.
دیکھا جائے تو بڑی اماں کی زندگی دکھوں سے بھرپور رہی، لیکن بڑی اماں کی شخصیت کو دیکھ کر نہیں لگتا کہ انہیں کوئی پریشانی بھی لاحق ھو گی. وہ انتہائی زندہ دل خاتوں ھیں. زبردست پنجابی بولتی ھیں، اور بہت زیادہ بولتی ہیں. اکثر ھم ان کی باتوں کو سمجھے بغیر آگے سے 'ہوں ہاں' کرتے رہتے ھیں، مگر وہ بولے جاتی ہیں. پتا نہیں کون کون سے قصے کہانیاں. انتہائی فرینڈلی، اور ہر کسی کے کام آنے والی ہیں.. ایک بار ہمارے ساتھ ٹرین پر سیالکوٹ سے آئیں، تو فیصل آباد پہنچتے پہنچتے دوسری اجنبی خواتین کیساتھ اتنی دوستی گانٹھ چکی تھیں کہ سب نے ان سے ایڈریس لیا کہ وہ سیالکوٹ آ کر ضرور ملیں گی. رشتے داریاں نبھانے والی، ہر کسی کے لئے پریشان ہونے والی. ہر خوشی غمی میں سب سے پہلے پہنچنے والی. ہر شادی کا لازمی جزو. کبھی کسی سے ناراض نہیں ہوئیں. نہ ہی کوئی ان سے ناراض ھو سکا. ہمیشہ حرکت میں نظر آتی ھیں. اتنی معمر مگر ایکٹیو خاتون میں نے اپنی زندگی میں نہیں دیکھی. ھم جب سیالکوٹ جائیں، تو رات کو سب سے آخر میں وہ سوتی ھیں، اور صبح اٹھو تو وہ پہلے سے جاگ رہی ھوتی ھیں، انکے لئے کام کا کوئی وقت مقرر نہیں. ایسی خاتوں ھے جو رات کو بارہ بجے بھی کپڑے دھوتی پائی جائیں گی، اپنے چھوٹے سے گھر میں نجانے کون کون سے گملے اور پودے لگا کر باغبانی کا شوق بھی پورا کرتی ھیں. مرغیاں بھی پال رکھی ھیں، گھر میں بکری بھی ھے.
.
بڑی اماں کی سادگی بھری باتوں میں چٹکلے بھرے ہوتے ھیں. ان کے پاس بیٹھ جاؤ تو پھر ہنستے جاؤ ہنستے جاؤ. ساری اقساط دیکھ کر بھی ڈرامے کی سٹوری انکو پتا نہیں ھوتی  ___ اسی طرح کرکٹ کی کوئی سمجھ بوجھ نہیں مگر میچ شوق سے دیکھتی ھیں .. ایک بار میں نے انکے پاس بیٹھ کر کرکٹ میچ دیکھا. پاکستان کی بیٹنگ چل رہی تھی، باؤلر بھاگ کر آتا، تو اسکے رن اپ کے دوران بڑی اماں کہتی ... ھُن آؤٹ .. آؤٹ .. آؤٹ ... میرے ٹوکنے پر کہنے لگیں، "اچھا میں سمجھی اونہاں دی واری چل رہی اے" ............ سپن اور فاسٹ باولنگ پر ان کا تبصرہ کچھ یوں تھا کہ آفریدی کے اوور کے بعد شعیب اختر باولنگ کروا کے پسینے سے شرابور ھو رہا تھا .. بڑی اماں بولیں :: "گولی وجنا !! اینویں دوڑ دوڑ کے اپنیاں لتاں پئا تھکاؤندہ اے. بھلا تُو وی آفریدی وانگر کھلوتا کھلوتا گیند سُٹ لیا کر" .................. ایک پلئیر نے چھکا لگایا، گیند اسٹیڈیم سے باہر چلی گئی، جو واپس نہ آئی تو باہر سے گراؤنڈزمین گیندوں کا ڈبہ اٹھائے گراؤنڈ میں داخل ہوا .... بڑی اماں بولیں .... "اینہوں ویکھو  چھکے دی کِنی خوشی ہوئی اے، فورا ای مٹھائی دا ڈبہ چک لیایا اے"
.
بڑی اماں کو مل کر سوچتا ھوں. کہ ایسے پیارے لوگ اب اللہ نے بنانے کیوں بند کر دیئے ھیں.

0 comments:

چھوٹے ماموں

8:57 AM 0 Comments

اس بار دورۂِ سیالکوٹ کی ایک اہم وجہ میرے چھوٹے ماموں ہیں، جو آجکل بہت بیمار بھی ھیں اور ہسپتال میں داخل ھیں. میرے کل چار ماموں تھے، چاروں درویش صفت تھے، بڑے تینوں بھائیوں کا انتقال ھو چکا.
.
چھوٹے ماموں بچپن سے ہی ھم سب کزنز کیلئے ایک انسپریشن کا درجہ رکھتے تھے. وہ کمال کے آرٹسٹ تھے. فن مصوری میں کمال رکھتے تھے. اور ستر اور اسی کی دہائی میں یو اے ای کے ارتقائی دور کے دوران ان کی جاب دبئی کے ایک فائیو سٹار ہوٹل میں تھی، جہاں ان کا کام مختلف دیواروں پر نت نئی پینٹنگز بنانا اور ڈیزائننگ آئیڈیاز کو عملی جامہ پہنانا تھا.
.
اس کے علاوہ ماموں کا دوسرا شوق فنِ گائیکی تھا، ان کی آواز بہت ہی عمدہ تھی، اور انہوں نے کلاسیکل موسیقی کی باقاعدہ تعلیم حاصل کر رکھی تھی. اونچے نچلے سروں میں انہیں کمال مہارت حاصل تھی اور جب وہ گاتے تھے تو سننے والے دل تھام کر بیٹھ جاتے. اس ضمن میں ایک بہت ہی خاص واقعہ جو ھم بچپن سے سنتے آئے کہ قیام دبئی کے دوران ایک بار محمد رفیع نے اسی ہوٹل میں قیام کیا، جہاں ماموں جاب کرتے تھے. اور کسی نجی محفل میں ہوٹل کے سٹاف نے محمد رفیع کے سامنے ماموں کو پیش کیا کہ یہ آپکا بہت بڑا پرستار ھے جو آپ کے گانے گاتا ھے. رفیع کی فرمائش پر ماموں نے اسکے سامنے رفیع ہی کا مشکل ترین گانا 'دنیا کے رکھوالے گایا' اور رفیع کو حیرت میں مبتلا کر دیا. بعد ازاں رفیع نے ماموں کو بمبئی لے جانے اور کریئر بنانے کی بات بھی کی ....... لیکن پھر اس سلسلے میں کوئی پیش رفت نہ ھو سکی.
.
لیکن پھر یکایک ماموں کا ذہن پلٹ گیا. دبئی میں رہتے ہوئے ہی مذہبی رجحانات اسقدر غالب آ گئے کہ مصوری اور موسیقی کو خیر آباد کہہ دیا. اور انہوں نے اپنی نوکری پر تصویریں بنانے سے معزرت کرلی. جس کے بغیر فائیو سٹار ہوٹل والوں کو بھی انکی ضرورت نہ رہی. ماموں سب کچھ خیر آباد کہہ کر پاکستان واپس آ گئے. اور سیالکوٹ میں پینٹر بن گئے. انہوں نے گھروں میں سفیدیاں اور پینٹ کرنے کا کام شروع کر دیا، مسجدوں میں خطاطی کا کام کرتے ، دکانوں کے سائن بورڈ پینٹ کرتے، اس کے علاوہ لکڑی کا کام بھی کرتے اور اسی محنت سے اپنا گھر چلاتے رھے. کبھی ناجائز کمائی نہیں کی، میں نے تو صرف ماموں کی خطاطی اور دیواروں پر رنگ و روغن کے کام سے ہی ان کے فن کا اندازہ کر سکتا ھوں، کیونکہ انہوں نے اپنا مصوری کا سب کام ضائع کر دیا تھا. لیکن امی مجھے پینٹنگ کرتے دیکھ کر ہمیشہ ایک ہی بات کہتی ھیں کہ خرّم ! تمہارا مصوری کا شوق تمہیں تمہارے ماموں سے ملا ھے.
.
خیر ماموں شریعت کے پابند ھو گئے، داڑھی رکھ لی، گانے چھوڑ کر نعتیں ، تلاوت شروع کر دی، ان کی آواز کے بہت چرچے تھے، ان سے فرمائش کر کے مسجد میں اذان دلوائی جاتی. نجی محفلوں میں ان کی آواز کی بہت واہ واہ ھوتی لیکن میڈیا کا دور نہ تھا اور نہ ہی ماموں مادیت پرست تھے کہ اپنے ہنر اور فن کو کیش کرواتے. انتہائی سادہ اور قناعت پسند انسان جسکے پاس اپنے ایک چھوٹے سے آبائی گھر کے علاوہ کوئی اثاثہ نہیں. مگر اسی سادگی اور قناعت کیساتھ وہ اپنے سب بچوں کی شادیاں کر کے تمام فرائض سے سبکدوش ہوئے.
.
میں ہمیشہ یہ باتیں اپنے ننھیالی کزنز سے سنا کرتا تھا لیکن میں نے جب نوے کی دھائی میں ہوش سنبھالا تو ایک بار سیالکوٹ جانے پر ماموں سے لاڈ میں فرمائش کی کہ کچھ گا کر سنا دیں. ماموں بہت پیار کرتے تھے تو انہوں نے طلعت محمود کا گیت
"زندگی دینے والے سن، تیری دنیا سے دل بھر گیا"
 گانا شروع کیا ..... وہ انتہائی اونچے سر بھی اس آسانی سے گا رھے تھے کہ جیسے کوئی مسئلہ ہی نہ ھو، آواز سن کر تیسری منزل سے میرے کزنز بھاگے بھاگے نیچے آئے، کہ یہ موقع شاذوناذر ہی آتا تھا کہ ماموں کسی کی فرمائش پر کچھ گانے پر رضامند ھو جائیں. محفل سی جم گئی. مجھ سمیت سننے والوں کے رونگٹھے کھڑے ھو گئے.  وہ ایک یادگار رات تھی، جس کا پل پل مجھے یاد ھے. ھم بہت سے لوگ ایک کھلے صحن میں چارپائیوں پر بیٹھے تھے.  ماموں نے مجھے اس گیت کے بارے میں بہت کچھ بتایا کہ یہ راگ 'مالکونس' میں بنا ھے، کس نے گآیا، اور اس گیت میں کیا کیا باریکیاں ھیں. تب وہ ساری انفارمیشن میرے سر پر سے گزر گئی. بعد میں میں نے طلعت کا یہ گیت لاتعداد مرتبہ سنا ھے ... اور میں شرطیہ کہہ سکتا ھوں کہ ماموں کے گائے ہوئے ورژن کے سامنے طلعت محمود کی آواز اور گائیکی کچھ بھی نہیں. اسی محفل میں ماموں نے "او دنیا کے رکھوالے، سن درد بھرے میرے نالے"  بھی سنایا. اور میں نے زندگی میں کسی کو بھی اتنی بلند آواز میں گاتے نہیں سنا. انکی آواز گویا ڈائریکٹ دل پر جا کر چوٹ کرتی تھی ، وہی کہانیاں جو دوسروں کی زبانی ماموں کے بارے میں سنی تھی، خود ماموں کی زبانی بھی سنیں. ..... گانے کے بعد ماموں نے کہا کہ ان کاموں میں کچھ نہیں رکھا. لیکن چونکہ سیکھا ہوا ھے تو کمبخت کچھ بھولتا بھی نہیں. اس کے بعد ہمیشہ سیالکوٹ جانے پر ماموں سے کچھ نہ کچھ فرمائش کر کے سنتا رھا. لیکن اس بار نہیں سُن سکا، کیونکہ وہ بہت بیمار ھیں. میں الفاظ میں بیان نہیں کر سکتا کہ وہ کتنے بڑے آرٹسٹ اور اس سے بھی بڑے پریکٹیکل انسان ھیں. لیکن ان ہسپتال کے بستر پر بے سدھ لیٹے دیکھ کر یہی بات ذہن میں آتی رھی کہ "کیسے کیسے ھیرے اس دنیا کی خاک میں یونہی رُل گئے"

0 comments:

فنکار

6:12 AM 0 Comments


اتوار کی شب تمام گھر والوں کو فیصل آباد روانہ کرنے کے بعد فوڈ سٹریٹ سے رکشہ پکڑا اور اپنے فلیٹ کی جانب روانہ ہوا، رستے میں حسب معمول رکشہ والے (عمر تقریبا پینتالیس سال) سے گپ شپ کا آغاز ہوا، لاہور کی نئی سڑکوں سے گفتگو شروع ہوئی اور پھر سیاست، نواز شریف، عمران خان سے ھوتی ہوئی پتا نہیں کہاں نکل رہی تھی ... کہ رکشہ والے نے کہا، جناب آپ مجھے لاہور کے نہیں لگتے __ میں نے کہا ، درست اندازہ ھے آپکا، میں فیصل آباد سے ھوں، یہاں جاب کرتا ھوں._____ اس کی اگلی بات قدرے مختلف تھی، مجھ سے پوچھنے لگا کہ آپ پرانے گانے سنتے ھو ناں ؟؟ ___ میں نے اثبات میں جواب دیا تو پوچھنے لگا کہ آپ کو کون سا گلوکار بہت پسند ھے؟ (یہ تو میرا انٹرویو ہی سٹارٹ ھو گیا) ___ میں نے جواب دیا : محمد رفیع" ____ یہ سن کر وہ جیسے کِھل اٹھا ____ کہنے لگا کہ مجھے آپ کی باتوں سے ہی اندازہ ھو گیا تھا کہ آپ بھی محمد رفیع کے پرستار ھیں ___ (اب میں سوچوں کہ آخر میں نے ایسی کیا بات کی تھی جس کا ناطقہ محمد رفیع کی پسندیدگی سے جا ملتا ھو) __ خیر میں نے کہا، آپ "بھی" سے کیا مطلب؟ ... یعنی کیا آپ بھی رفیع صاحب کے فین ھیں؟ .... وہ کہنے لگا "جی بالکل، رفیع صاحب جیسا سنگر تو آج تک پیدا ہی نہیں ہوا" ___ اب محمد رفیع پر گفتگو شروع ھو گئی. وہ واقعی بہت دیوانہ فین تھا اور اس کے پاس کافی زیادہ انفارمیشن تھی محمد رفیع کے فن کے متعلق
.
پھر اس نے انکشاف کیا کہ وہ خود بھی گلوکار ھے، مجھ سے اجازت طلب کرنے کے بعد اس نے رکشہ چلاتے چلاتے ہی محمد رفیع کا مشکل ترین گانا "او دنیا کے رکھوالے" کا انترہ گانا شروع کر دیا. حیرت انگیز طور پر وہ بہت ہی اچھا گا رھا تھا
.
اس کی آواز واقعی سریلی اور خوبصورت تھی اور اس کا یہ فن بلاشبہ قابل تعریف تھا. انتہائی خوشی کیساتھ لہک لہک کر گاتے ہوئے وہ دنیا سے بےنیاز اونچے نچلے سُروں کی خوبصورت ادائیگی کرنے میں مصروف تھا. میں نے رکشے کے سامنے کے شیشے سے اسکا چہرہ دیکھا، وہ جیسے گانا گانے میں مست تھا. اس پل اس غریب شخص کے چہرے کے جینوئن تاثرات گویا ہمیشہ کے لئے میری میموری میں فِٹ سے ھو گئے. میں بھی انجوائے کر رھا تھا اسکی شخصیت اور فن کو. رکشے کے بھر ٹریفک اور گاڑیوں کا ہنگام برپا تھا مگر رکشے کے اندر سر سنگیت کی محفل جمی تھی :)
.
مزید گفتگو کرنے پر معلوم ہوا کہ رکشہ والے کے پاس خطاطی کا فن بھی موجود ھے، اور وہ نستعلیق اردو رسم الخط سمیت دیگر انداز کی خطاطی میں مہارت رکھتا ھے، وہ مصوری اور خطاطی کے بارے میں بھی بہت کچھ جانتا تھا. مگر اس کے تمام فن اور ھنر اسکا پیٹ بھرنے کے لئے ناکافی تھے، اور وہ رکشہ چلانے پر مجبور تھا، مگر اس پروفیشن پر بھی اسے بالکل کوئی افسوس نہیں تھا، اس نے بتایا کہ وہ خوش ھے. مست ھے اپنے حال میں
.
میں اس شش و پنچ میں تھا کہ اس سے اسکا موبائل نمبر لوں یا نہیں، فلیٹ کے سامنے پہنچ کر میں رکشے سے نکلا پیسے ادا کئے، اس نے کہا ایک مصرع اور سن لیں، اور رفیع صاحب کی ایک غزل "مدت ہوئی ھے یار کو مہماں کئے ہوئے" گا کر سنانے لگا. گلی سے گزرتے لوگ حیرت سے دیکھ رھے تھے کہ یہ کیا ھو رھا ھے ... اس نے غزل کا ابتدائی شعر گنگنا کر مسکراتے ہوئے مجھے داد طلب نظروں سے دیکھا اور پھر سلام کرتے ہوئے اپنا رکشہ آگے بڑھا دیا .
-------
خرّم امتیاز - 23 مارچ 2016

0 comments:

لاشعور

10:34 PM 0 Comments

"لاشعور" ایک مکمل سبجیکٹ ہے. میں آپ لوگوں سے لاکھ کہتا رہوں کہ مجھے جھوٹ پسند نہیں. ہو سکتا ہے میں سچ ہی بول رہا ہوں، کیونکہ میرے شعور میں یہی فیڈ ہو گا، یا میں نے یہی فیڈ کر رکھا ہو گا.
لیکن یہ میرا لاشعور جانتا ہے کہ کیا جھوٹ مجھے واقعی ناپسند ہے یا نہیں. اور جب ریئل لائف میں کوئی بھی پریکٹیکل موقع آتا ہے . تو ہم دو طرح کے فیصلے کرتے ہیں، شعوری یا پھر لاشعوری ___ شعوری فیصلوں میں مکمل عقل اور ایکٹنگ انوولو ہوتی ہے.___ لاشعوری فیصلوں میں عقل انوولو نہیں ہوتی.___ لاشعوری حرکات ہم تبھی کرتے ہیں جب ہم اکیلے ہوں یا پھر ہمیں ارد گرد کے ماحول کی خاص پرواہ نہ ہو، اور نہ ہی ہم تکلف سے کام لے رہے ہوں.___ اسی لئے کہا جاتا ہے کہ تنہائی میں انسان کی اصل شخصیت کا پتا چلتا ہے، یا کسی کی اصل شخصیت تب معلوم ہوتی ہے جب وہ ہمارے ساتھ بہت بے تکلف ہو جائے. یہ بھی کہا جاتا ہے کہ کسی کو جاننا ہو تو اسکے ساتھ سفر کر لو (کیونکہ دوران سفر فرینکنیس ڈویلوپ ہو جاتی ہے اور اکثر لوگ مسلسل ایکٹنگ نہیں کر پاتے) ___ اور ہمارے دین میں بھی تنہائ کو پاکیزہ رکھنے کا حکم اسی لئے ہے،

0 comments:

فلم "کالا پانی" کا کمال گیت

2:03 PM 0 Comments






ھم دونوں میاں بیوی کا پسندیدہ گیت ... بلکہ ہمارے رشتے کا تھیم سونگ کہہ لیں تو غلط نہ ھو گا. اس گانے سے ہماری بہت سی یادیں وابستہ ھیں. اور ہمارے درمیان اکثر و بیشتر ناراضگی رفع کرنے کے کام بھی آتا ھے. لیکن ہماری یادوں کے علاوہ بھی اس گانے میں بہت سی خاص باتیں موجود ھیں، جن کا ذکر کرنا چاہوں گا.
.
"اچھا جی میں ہاری چلو مان جاؤ ناں"
بلیک اینڈ وائٹ فلم "کالا پانی" (1958) کا انتہائی کم بجٹ میں تیار کیا گیا یہ گانا بیشتر پیمانوں سے ایک شاہکار  گیت ھے
.
- گانے میں چھ لیجنڈز ھیں
1 - محمد رفیع ،
2 - آشا بھوسلے ،
3 - دیو آنند ،
4 - مدھو بالا ،
5 - میوزک ڈائریکٹر : ایس ڈی برمن،
6 - فلم ڈائریکٹر : راج کھوسلہ
.
- یہ فیصلہ کرنا مشکل ھے کہ کس لیجنڈ نے اس پروجیکٹ میں سب سے زیادہ کلیدی رول پلے کیا ھے. مثلا رفیع نے اچھا گآیا، یا دیو آنند نے زیادہ اچھی ایکٹنگ کی، مدھوبالا کے ایکسپریشن زیادہ خوبصورت تھے یا آشا بھوسلے کی آواز سے چھلکتے تاثرات زیادہ پراثر تھے، ایس ڈی برمن نے گانا کمال کا بنایا یا ھدایت کار نے اس کو فلمایا زیادہ اچھا؟
.
- مجموعی طور پر یہ ایک زبردست ٹیم ائیفورٹ ھے. اور یہ گانا کسی بلان کئے ہوئے پروجیکٹ سے کم نہیں
.
- گانے کی سچویشن بہت سادہ ھے. دیو آنند کسی چھوٹی سی بات پر ناراض ھے، مدھوبالا کو غلطی کا احساس ھے اور وہ ہلکے پھلکے رومانٹک انداز میں دیو آنند کو منانے کی کوشش کر رہی ھے.
.
- اس گانے میں موڈ بار بار چینج ھوتا ھے اور بار بار ردھم بریک ھوتا ھے، لیکن گانا بے سُرا نہیں ھوتا.
.
- گانے کے ہر ہر فقرے پر یونیک ایکسپریشنز ھیں. آغاز میں مدھوبالا مکمل منانے کے موڈ میں ھے، اور آشا بھوسلے کی آواز میں ھنسی کی آمیزش 1:13 منٹ پر سنی جا سکتی ھے. آواز میں ہنسی ھے، اور مدھوبالا کے لبوں پر بھی.
.
"1:16"
منٹ پر آشا بھوسلے کی آواز میں منت سماجت کے ایکسپریشن ہیں .... گانے کی دھن میں اس موقع پر خاص تبدیلی کر کے گایا گیا .. اور مدھوبالا کی ایکٹنگ بھی منت سماجت کرتی ہوئی
.
"1:21"
منٹ پر محمد رفیع ردھم بریک کرتے ہوئے سنگنگ میں عجیب انداز میں "دل جلاؤ ناں" کہتے ھیں. اور دیو آنند بھی اس انداز کو فالو کرتے ہوئے منہ بنانے کی کمال ایکٹنگ کرتے ہیں.
.
"2:18"
منٹ پر دیو آنند اور مدھوبالا غلطی سے آپس میں ٹکرا جاتے ھیں اور جیسے دونوں گانے والے گلوکار بھی آپس میں ٹکرا گئے ھوں ... گانے کا ردھم بریک ھوتا ھے. آشا اور رفیع کی لائنیں اوپر نیچے ھو جاتی ھیں. لیکن گانا پھر بھی بے سُرا نہیں ھوتا..... اور یہ سب کچھ پلانٹڈ تھا. یعنی گانا ریکارڈ کرنے سے پہلے ہی یہ چیزیں سوچی گئی تھیں.
.
"2:34"
منٹ پر دیو آنند کو احساس ھو جاتا ھے کہ اب ضرورت سے زیادہ ناراضگی ھو گئی اور الٹا مدھوبالا کا موڈ خراب ہونے کو ھے لیکن پھر ہھی بھرپور بے اعتنائی شو کی جا رہی ھے. یہ سب ایکسپریشن صاف دیکھے جا سکتے ھیں
.
"2:38"
منٹ پر مدھوبالا واقعی ناراض ھو گئی ھے، اور دیو آنند کو بھی معلوم ھو چکا ھے کہ کام خرابی کی جانب بڑھ رھا ھے. اب مانے بنا گزارہ نہیں. مدھوبالا کے ناراضگی کے ایکسپریشن کمال ھیں. اف اف اف
.
کچھ پل کو مدھوبالا واقعی سنجیدہ ھو گئی ... لیکن دیو آنند کی طرف سے مثبت سگنلز ملتے ہی پھر موڈ واپس اچھا ھو جاتا ھے
.
"3:25"
منٹ پر آشا بھوسلے ایک بار پھر ردھم بریک کرتے ہوئے بچوں کے سے انداز میں گاتی ھے اور مدھوبالا کی ایکٹنگ آواز کے ساتھ سو فیصد جڑی ہوئی محسوس ھوتی ھے

0 comments:

فوبیا فرینڈشپ

10:50 PM 0 Comments



"فوبیا فرینڈشِپ"
اپنی زندگی میں ہم سبھی کسی ناں کسی فوبیا کا شکار ہوتے ہیں۔ اکثر ہم انھیں تمام عمر شناخت ہی نہیں کر پاتے۔ اور اکثر ہم جانتے بوجھتے انھیں ڈسکس نہیں کرتے۔ جہاں انکا تذکرہ ہونے کا احتمال ہو ہم موضوع بدل دیتے ہیں، مصنوعی ڈائیلاگز کیساتھ وقت گزار لیتے ہیں یا پھر موقع سے رفوچکر ہو لیتے ہیں۔ مگر بیشتر کیسز میں فوبیاز تمام زندگی ساتھ چلتے اور کبھی ختم نہیں ہوتے۔
اپنے فوبیاز کو ختم کرنے کی بجائے اِنکے ساتھ دوستی کرنے کی کوشش کریں پھر وہ آپ کو ڈرائیں گے نہیں. فوبیاز سے دوستی کرنے کے لئے ان کو اکثروبیشتر ڈسکس کریں. انہیں دہرائیں.. کبھی اُن کے تذکرہ کرتے ہوئے خود اپنا مذاق بنائیں۔ اپنے فوبیاز کے ساتھ کھیلیں، اُنہیں کبھی کبھار ٹچ کرنے کی کوشش کریں. اُن کے قریب قریب سے جان بوجھ کر گزریں  (بس اتنا قریب کہ جس میں کسی نقصان کا احتمال نہ ہو)
کچھ ایسا ہی کہنا ہے میرے ایک دوست کا جو اپنے فوبیاز کے ساتھ لاڈیاں کرتا ہے. مثلاً اُسے انجان فون نمبر سے کال آنے پر تشویش اور دھڑکا لگ جاتا ہے، مگر وہ فون سرہانے رکھ کر سوتا ہے۔ اسے اونچائی سے ڈر لگتا ہے مگر خود کو یہ سمجھا کر جہاز کی کھڑکی والی سیٹ پر بیٹھتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ کیا ہو جائے گا؟ خدانخواستہ کوئی حادثہ ہو گیا تو کیا فرق پڑتا ہے کہ آپ کس سیٹ پر بیٹھے ہو.
حقیقی نفسیاتی مسئلہ تب درپیش ہوتا ہے. جب آپ اپنے کسی فوبیا سے مکمل کنارہ کشی اختیار کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور تب اس فوبیا کا ذکر ہی آپ کے دل میں ڈر پیدا کرنا شروع کر دیتا ہے.
- خرم امتیاز

0 comments: