خالق

7:00 AM 0 Comments

 

 میرا خدا کی ذات پر پختہ یقین ہے، اور میں خدا کو پسند بھی کرتا ہوں، مگر اسلئے نہیں کہ اس نے مجھے بنایا، یا یہ زندگی دی۔ بلکہ اسکی بنائی دنیا اور یونیورس اور اس میں چھپے انگنت راز، پیٹرن اور منطق (جتنا بھی ہم اپنی محدود عقل اور سوچ کیساتھ سمجھ پاتے ہیں) ۔۔۔ ان سب نے مجھے بیحد متاثر کیا ہے۔ بھلا میں اس خدا سے نفرت کیسے کر سکتا ہوں جس نے میوزک تخلیق کیا۔

مگر خدا کے کانسیپٹ کو لیکر دنیا اور سوسائیٹی کو جس طرح آپریٹ کیا جاتا رہا اور اب بھی کیا جا رہا ، اس سے مجھے اتفاق محسوس نہیں ہوتا۔

ہمیں خدا (اپنے خالق) سے کیا چاہئے، اسکی تو سینس بنتی ہے، مگر یہ سوال کہ خدا کو ہم سے کیا چاہئے؟  اس پر میں آج تک خود کو قائل نہیں کر پایا کہ خدا کو واقعی ہم سے وہی سب کچھ درکار ہے جو ہمیں سکھایا اور بتایا جاتا ہے۔ یعنی اس کے آگے جھکو، سجدہ کرو، فلاں فلاں حرکت روٹین سے کرو، فلاں کلمات پڑھو، اس کی خوشی کیلئے بھوکے رہو، اور اس کے غیض و غضب سے بچنے کیلئے فلاں کام نہ کرو۔ مزید یہ کہ خدا جس انسان سے محبت کرتا ہے، تم بھی اسکے ساتھ محبت کرو۔

جبکہ خدا خود کہتا ہے کہ وہ کسی کا رشتے دار نہیں نہ کوئی اسکا رشتے دار ہے۔ اسکے کوئی جذبات نہیں۔ اس کائنات کا حجم اور اسکے پیچھے چھپے راز اور ہر ہر تخلیق کی ایگزسٹنس کی منطق دیکھیں تو جسقدر بڑی ذات خدا کی ہے، ذروں جیسی انسانی مخلوق کے کسی عمل سے اس کے ہرٹ ہونے، ناراض ہونے، غیض و غضب کا شکار ہونے یا کسی کو سزا دینے کی میری نظر میں کوئی سینس نہیں بنتی۔ اسی طرح اسکے کسی بات پر خوش ہونے، محبت کرنے اور انفرادی طور پر کسی کو نوازنے کی منطق بھی نہیں بنتی۔ پھر بھلا کوئی خدا کا فیورٹ کیسے ہو سکتا ہے۔ یہ فیورٹ بننے اور بنانے والی صرف ہماری اپنی انسانی سوچ ہو سکتی ہے۔

ہم جتنا مرضی انکار کریں مگر جس بھی مذہب کو اٹھا کر دیکھ لیں، ہم انسان خدا کو اپنے ہی جیسا جذباتی مگر بہت بڑا، طاقتور انسان سمجھنے پر مصر ہیں جو انفرادی طور پر ہر انسان سے ڈیل کر رہا۔

جبکہ اس ننھی سی دنیا کے ذرے برابر انسان کے  مائکروسکوپِک عمل کے جوابی ردعمل اور ہر اِن پٹ کی منطقی آؤٹ پُٹ دینے کیلئے اتنے عظیم اور لامتناہی سسٹم کے خالق کے بنائے انگنت قوانینِ قدرت ہی کافی ہیں۔ ایسی ذات کی پسند و ناپسند بھی منطق بیسڈ ہونی چاہئے ناں کہ پرسن سپیسیفک۔

مجھے مذاہب کی جو تعلیمات متاثر کرتی ہیں، اُن میں حقوق العباد جیسے کانسیپٹس کی سوسائٹی اور معاشرت کیلئے پرفیکٹ سینس بنتی ہے۔ اور اس کی بات سبھی مذاہب کسی ناں کسی صورت کرتے ہیں۔ مگر اسکی عدم فراہمی پر بھی حساب کتاب کرنے کیلئے خدا کو خود حرکت میں آنے کی بالکل ضرورت نہیں۔ اَن دیکھی شے پر یقین کی وجہ ہمارے علم کی کمی ہے۔ اگر ہر وقوعے کے وقوع پذیر ہونے کے پیچھے کے تمام حالات و واقعات و وجوہات کی ہر لڑی کا ادراک ہمیں حاصل ہو جائے تو کسی کیساتھ بھی کچھ اچھا یا برا ہونے کی منطق بھی ہم پر واضح ہو جائے گی۔

 

جدید معاشرت بغیر کسی مذہب کو فالو کیے اِن حقوق اور انصاف کی فراہمی اور اسکے نفاذ میں آگے بڑھ ہے، اور میری سوچ کو خوراک خوراک اور بڑھاوا اس فیکٹر سے ملتا ہے کہ اوورآل دنیا کی ترقی (اگر زندگی کے مختلف شعبہ جات میں پراگریس کرنا، علم و ٹیکنالوجی کی گروتھ، ھیومن رائٹس، سِوِک سینس، کمیونٹی سٹینڈرڈز، Gender equality، قوانین کی بالادستی اور انصاف کے نفاذ وغیرہ کو ترقی سمجھا جائے تو اِس ترقی) میں فی الحال مذاہب کا کردار یا کارفرمائی نہ ہونے کے برابر دکھائی دیتی ہے۔ بالخصوص مذہب کا بینر اٹھانے والوں یا مذہب کی اجارہ داری والے علاقوں کی صورتحال اور بھی زیادہ مخدوش دکھائی دیتی ہے۔

0 comments:

اسلام - ایک لبرل دین

1:20 AM 0 Comments

 اسلام کی شروعات میں یہ اُس زمانے کے حساب سے تبدیلی کا دین تھا۔ ایک ایسا لبرل مذہب تھا جس نے چودہ سو برس پرانی قدامت پسند روایات کی حوصلہ شکنی کی تھی۔ اِس کے انقلابی پن اور مقبولیت کی سب سے اہم وجہ اسکا ہلکا پھلکا ہونا اور عام آدمی کے مطلب اور آسانی کیلئے سیدھی سادی بات کرنا تھا۔ جو ایک بَدو کو بھی سمجھ آ جاتی تھی۔

مگر وقت گزرنے کیساتھ اس میں اکابرین کا بوجھ شامل ہوتا گیا۔ آج کے مسلمان کو اپنے ایمان کیلئے اللہ کے احکامات کیساتھ ساتھ صدیوں پر محیط اسلامک ہسٹری، اکابرین کے کردار، انکے طرزِ عمل، طرزِ زندگی پھر انکی رنگ برنگی تشریحات (جنہیں عہدِ حاٖٖٖٖٖٖضر کے مسائل پر میپ کرنا جوئے شیر لانے کی مترادف ہے) کو بھی ساتھ ساتھ اٹھائے رکھنا اور اکثر انکا دفاع بھی کرنا پڑتا ہے۔ آج خود کو مذہبی کہلوانے والا طبقہ ہی قدامت پسند روایات کا سب سے بڑا محافظ بنا دکھائی دیتا ہے۔
دوسری جانب مُلا نے اپنی افادیت اور ضرورت کو ناگزیر بنانے کی خاطر مذہبی علم کی ایسی دیوار کھڑی کر دی ہے کہ آج ایک پڑھے لکھے شخص کو بھی دین کی بات سمجھنے کیلئے علماء کی مدد درکار ہے۔

0 comments:

خدا

4:24 AM 0 Comments

 جس طرح سائنس و دیگر مضامین میں رٹا لگا کر نمبر مل جاتے ہیں۔ اسلامیات میں بھی کانسیپٹ بلڈنگ کی بجائے رٹے پر ہی فوکس ہوتا ہے۔ اسلامی ہسٹری کی غیر متنازعہ چیزیں فلٹر کر کر کے نصاب بنا لیا جاتا۔ بچہ یاد کر کے نمبر لے لیتا، مگر جب وہی بچہ معاشرے میں مذہب اور مسلک کے نام پر وبال برپا دیکھتا تو کتابی دین اور معاشرے میں اسکا امپیکٹ اور اثرات اسے کنفیوز کرتے ہیں۔ نتیجتا وہ یاں تو شدت پسندی اڈاپٹ کر لیتا ہے یا پھر مذہب بیزار بن جاتا۔

مذہبی تعلیمات اور خدا بارے کانسیپٹس جو کتابوں میں سکھلائے جاتے ہیں ان میں سے اکثریتی کانسیپٹس کو عہدِ حاضر کیلئے obsolete اور غیر متعلقہ بنانے میں خود وہ کتابیں کردار ادا کرتی ہیں جو سینکڑوں ہزاروں برس قبل کسی مخصوص زمان و مکاں و حالات کے زیرِ اثر تحریر ہوئی تھیں۔ ہزاروں برس قبل عرب کے صحرائی کلچر کی مثالیں یا قرونِ اولی کے قصے آج ٹیکنالوجی بھری جدید لائف سٹائل کی حامل دنیا اور کائنات پر لاگو کرنا ممکن دکھائی نہیں دیتا۔ چند پسماندہ ممالک کے سوا کوئی انکو فکشن سے بڑھ کر اہمیت نہیں دیتا۔ اور یہ بات دنیا کے سبھی مذاہب پر صادق آتی ہے۔
ایک طرف ہم کہتے ہیں کہ اللہ انسانوں جیسی خصوصیات نہیں رکھتا، مگر آپ جس مرضی عالم کو پڑھ/سُن لیں، آپکو اندازہ ہو گا وہ خود خدا کو ایک بہت طاقتور اور بڑے انسان جیسی ہی کوئی جذباتی مخلوق تصور کرتے ہے، جو دور اُوپر کہیں بس حساب کتاب کرنے اور انعام و اکرام بانٹنے کیلئے بیٹھا ہے۔ میرے بھیا حساب کتاب تو بذاتِ خود ایک انسانی اور مادی شے ہے۔ خالقِ کائنات و جن و انس کی ذات تو ان میٹیریلسٹک محرکات، ذاتیات اور جذبات سے مبرا ہے۔ ہزاروں برس قبل رائج محدود نالج کے مطابق اگر کچھ مثالوں سے خدا کے تصور کو سمجھانے کی کوشش کی گئی تھی تو اسکا یہ مطلب تو نہیں کہ اب اگلے ہزاروں سال انہی پرانی محدود مثالوں پر ہی کانسیپٹ پکا کیے رکھیں۔
ہم بچپن میں کوئی سوال اٹھاتے تو ہمارے بڑے بزرگ ہمیں ڈانٹ ڈپٹ کے چپ کرا دیتے تھے (اور ہم احتراما خاموش رہتے) کہ ایسا سوچنے سے بھی گناہ ہوتا۔ اب میں سمجھ سکتا ہوں کہ جب بڑوں کے پاس کسی سوال کا جواب نہیں ہوتا تب پہلے مرحلے پر ڈانٹ ڈپٹ ہی ہوتی، پھر ڈراوے سے، خوف اور مار سے سوالات کا گلا گھونٹا جاتا ہے۔
آج ایک طرف ہم اپنے بچوں کو جدید علم کی دنیا میں فری تھنکرز بنانے کیلئے کوشاں ہیں، دوسری جانب ان کے اٹھائے ننھے سے سوالات کا جواب بھی دینے سے قاصر ہیں۔ میری دس سالہ بیٹی پوچھتی ہے کہ اسے سمجھ نہیں آتی کہ
Why all the times God is so personal and judgmental about his own creatures؟
ایک حقیر سے انسان کی کسی حرکت پر خدا غبضبناک کیونکر ہو سکتا ہے؟ اسی طرح خدا کا انسان پر صدقے واری ہونا یا ماؤں جیسا پیار کرنا بھی سمجھ سے بالاتر ہے۔
بس جی بزرگوں نے کہہ دیا، کتابوں میں لکھا ہے تو یقینا ایسا ہی ہو گا۔ مگر جب آپ اپنی پوری زندگی میں ایک بار بھی اسکی عملی مثال دیکھ نہیں پاتے تو ایسے کانسیپٹ ساری زندگی کیسے اپنے ساتھ باندھ کر رکھ سکتے ہیں؟

0 comments:

دعائیں

10:34 AM 0 Comments

 دعاؤں پر یقین اور اللہ کے ہوتے ہوئے کیا اچھا ہوسکتا تھا مگر نہیں ہوا، اور کیا برا نہیں ہونا چاہئے تھا مگر وہ ہو گیا۔
اس بارے میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ خدا کی ذات ان سبھی چھوٹی انسانی سوچوں اور منطقوں سے مبرا اور کہیں اوپر ہے۔

اس نے ہمیں ایک بہت بڑے اور انٹیلیجنٹ سسٹم میں اتارا ہے، جہاں ہر شے لاجیکل اور قوانینِ فطرت کے ماتحت ہے۔ ایک خوردبینی جاندار کی کارستانیوں سے لیکر بین الاقوامی سیاست اور اس سیارے سے باہر کی لامتناہی دنیا بھی قوانینِ فطرت کے عین مطابق چل رہی۔
جو ان قوانین کے مطابق حالات کو دیکھتا اور سمجھتا ہے، اس کیلئے کچھ بھی اچنبھے کی بات نہیں۔
میرا نہیں خیال کہ اسقدر انٹیلیجنٹ سسٹم کو بنانے کے بعد بھی خدا ہم چیونٹی سے بھی بے ضرر انسانوں کے ننھے منے انفرادی مسائل اور پریشانیوں کی گتھیاں سلجھانے کا کام کرتا ہو گا۔ جو ہونا ہے اسی سسٹم کے تحت اور کسی کوشش اور حرکت کے نتیجے میں ہی ہونا ہے۔
دعاؤں کو شاید ہم نے ایک ٹُول سمجھ رکھا ہے، کہ جب مکمل بے بسی اور معاملات آؤٹ آف کنٹرول دکھائی دیں تو ہم قوانینِ فطرت کے الٹ اپنی کسی ڈیمانڈ کو دعا کی صورت پورا ہوتے دیکھنے کے متمنی ہو جاتے۔ سنی سنائی معجزاتی روایات اس سلسلے اور یقین کو بڑھاوا دینے کا کام کرتے ہیں۔ مگر آج تک اپنی گنہگار آنکھوں سے کچھ بھی غیر منطقی اور قوانینِ فطرت کے الٹ ہوتا نہیں دیکھا۔ دعاؤں کی کامیابی و ناکامی خدا کی ذات کو جانچنے کا کوئی پیمانہ ہرگز نہیں ہو سکتی۔

0 comments: