مڈل کلاس

3:20 PM 0 Comments

وبا لاکھوں شہریوں کے روزگار کیساتھ ساتھ سلمان کی نوکری بھی کھا گئی تھی۔ تین ماہ سے بیروزگار سلمان آج بھی کرونائی گرمی میں ماسک لگائے کام کی تلاش میں شہر کے بازاروں کی خاک چھانتا پھرا۔ لگتا تھا صرف وہی نہیں پورا شہر کسی معاشی عفریت سے نبردآزما ہے۔ کوئی آٹے کو رو رہا تھا تو کوئی چینی کو اور کسی کو پیٹرول نہیں مل رہا۔ شام کو جب گھر لوٹا، اہلِ خانہ کے کسی سوال کا جواب اسکے پاس نہیں تھا۔ کافی عرصے بعد اس رات سے لوڈ شیڈنگ کی شروعات بھی ہو گئی۔ پسینے میں شرابور سلمان اور اسکی بیوی سوتے بچوں کو ہاتھ کا پنکھا جھل رہے تھے۔ تبھی سلمان نے مہینوں سے جاری اپنی چپ کا روزہ توڑتے ہوئے بیوی کو اپنے معاشی بحران سے آگاہ کیا۔ الفاظ زبان میں اٹک رہے تھے۔ اندھیرے میں پسینہ آنکھیں جھلسا رہا تھا، اشک اندر ہی اندر کہیں گر رہے تھے۔ چند بے بس سسکیاں سوالیہ نشانوں کی طرح گونج رہی تھی۔ جنکا کوئی جواب نہیں تھا
اگلی صبح ناشتہ کیے بغیر سلمان نے پھر بازار کا رخ کیا، رستے میں اچانک اس نے اپنا ماسک اتار کر جیب میں رکھ لیا اور بغیر ماسک پہنے بازار کی بھیڑ میں گھس گیا۔

0 comments:

سروائیول

3:20 PM 0 Comments

ملک صاحب آپکا بہت شکریہ کہ بوجوہ لاک ڈاؤن سکول بند ہونے پر بھی آپ ہر ماہ باقاعدگی سے بچے کی فیس جمع کراتے ہیں۔ فیس کی رسید پکڑاتے ہوئے سکول ایڈمنسٹریٹر سہیل تشکر بھرے انداز میں گویا ہوا۔
"سہیل بھائی، بھلے سکول بند ہیں، بجلی و دیگراخراجات آپکو ادا نہیں کرنا پڑ رہے، مگر سکول کی عمارت کا کرایہ تو دینا پڑ ہی رہا ہو گا ناں۔ پھر بچوں کی فیس آپکو ملنا تو اس لیے بھی ضروری ہے کہ آپ نے اپنے سٹاف کو تنخواہیں جو دینا ہوتی ہے۔ گو کہ اِس صورتحال میں ہم کاروباری اشخاض خود بڑی مشکل سے گزارہ کر رہے ہیں، مگر کوشش ہے کہ وبا ختم ہونے تک یہ سسٹم کسی طور سروائیو کرتا رہے۔ سبھی کو تنخواہ ملتی رہے۔ اساتذہ بیروزگار نہ ہوں۔ سب کے گھر کا چولہا چلتا رہے"۔
"بالکل ملک صاحب اس مشکل میں یہ بات اگر ہم پڑھے لکھے لوگ نہ سمجھیں گے تو پھر کون سمجھے گا"
فیس جمع کرا کے وہ سکول سے نکل رہے تھے تو گیٹ پر تعینات پرانا گارڈ اور سکول میں چھوٹے بچوں کو سنبھالنے والی آیا ملک صاحب کی جانب لپکے۔
"صاحب جی، کچھ ہماری بھی مدد کر دو۔ قسم سے گھرکا خرچہ چلانا دوبھر ہو گیا ہے، سکول والوں نے تین ماہ سے تنخواہ نہیں دی اور کام بھی لئے جا رہے ہیں، تنخواہ کا سوال کرو تو اس مشکل گھڑی میں نوکری سے فارغ کرنے کی دھمکی لگا دیتے ہیں"

0 comments:

ؤالدین

3:15 PM 0 Comments

زندگی بیحد مختصر ہے، یہ کوئی ریہرسل نہیں چل رہی کہ کسی کی غلطی یا غلط فیصلے کی سزا کوئی دوسرا زی روح چپ چاپ بھگت کر اپنی زندگی کو جہنم بناتا رہے۔ بزرگ بھی اکثر و بیشتر غلطیاں کرتے ہیں اور اکثر انھیں بھی درستی کی ضرورت ہوتی ہے۔ محض کسی کے احترام میں اپنی زندگی تیاگ دینا اولڈ فیشن ہو چکا ہے۔
بنیادی طور پر والدین اٹھارہ سال کی عمر تک کے بچے کو پالنے کے ذمے دار ہیں۔ اور یہ بچوں پر کوئی احسان ہرگز نہیں بلکہ یہ اُن بچوں کو اِس دنیا میں لانے کے فیصلے کا کفارہ ہے کہ انھیں اب دنیا کی باگ ڈور سنبھالنے کے قابل بنانا بھی انھی والدین کی ذمے داری ہے جو اسے دنیا میں لیکر آنے کی وجہ بنے۔
مگر ہمارے ہاں والدین خود کو بچوں کا مالک تصور کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں کا فنانشل سماجی سسٹم اسقدر کھوکھلا ہے کہ یہاں بچہ پیدا کرنے کا بنیادی محرک ہی دراصل اپنے "بڑھاپے کا سہارا" پیدا کرنا ہوتا ہے۔ جبھی ہر کسی کو لڑکا چاہئے جو کماؤ پوت بن سکے۔ وہ اپنے بڑھاپے کے اس سہارے کو اپنے بڑھاپے تک سنبھال سنبھال کے رکھنا چاہتے ہیں۔ جبھی لاشعوری طور پر بچے کو آزاد ہوتا یا فیصلے کرتا دیکھنا ہی نہیں چاہتے، اور اٹھارہ سال کے بعد بھی ان کی زندگی کا ہر فیصلہ کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں۔ انگنت زندگیاں ایسے ہی متصادم فیصلوں کی ںذر ہو جاتی ہیں
اِن شارٹ ہمارے ہاں insecurities کا کلچر رائج ہے، والدین خود بھی insecure ہوتے ہیں، اور وہ اپنی اولاد کو بھی اپنے بغیر insecure رہنے کا عادی بناتے ہیں۔

0 comments:

ڈیپریشن

3:15 PM 0 Comments

 ہم اپنے نوجوانوں کو سمجھانے میں ناکام رہے ہیں کہ زندگی اسقدر بے وقعت نہیں جتنی انھیں محسوس ہو رہی ہے۔ مزید یہ کہ ہم بھاشن دیتے ہیں کہ خدا کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں۔ بہتری آئے گی۔ امید قائم رکھو۔ محنت جاری رکھو وغیرہ وغیرہ ۔۔۔ اب اس بے حس اور اخلاقی طور پر پاتال پذیر معاشرے میں ہمیں خود اپنی یہ باتیں بے وزن معلوم ہونے لگی ہیں۔ جب بار بار کی امید کے بعد بھی مایوسی اور اندھیرا ہی مقدر دکھائی دیتا ہے تو زندگی دھندلی اور اسکے لوازمات بے معنی معلوم ہوتے ہیں

0 comments:

سگریٹ نوش کی بیوی

3:14 PM 0 Comments


کیا آپ نے کبھی اس عورت کی اذیت کا اندازہ کیا جسے سگریٹ حتی کہ اسکی تک بدبو سے بھی چڑ ہوتی ہے مگر اُسے ساری زندگی  کسی چَین سموکر کیساتھ گزارہ کرنا پڑتا ہے اورنام نہاد کمپرومائز کی بدولت وہ علیحدگی کا تصور بھی نہیں کر سکتی 

0 comments:

دوست کی موت پر

3:13 PM 0 Comments

ہم سب انسان ایک جگسا پزل (Jigsaw Puzzle) کی طرح ہیں، ہم بہت سے ٹکڑوں کیساتھ مل کر مکمل ہوتے ہیں۔ مگر اس پزل کے صرف کچھ ہی ٹکڑے ہمارے پاس ہوتے ہیں۔ بقیہ سبھی ٹکڑے ہمارے اردگرد ہمارے آشناؤں کے پاس، ہمارے کمرے، گلی محلے، شہر میں، اور جہاں جہاں ہماری اپروچ ہوتی ہے، وہاں وہاں اس پزل کے ٹکڑے جابجا بکھرے پڑے ہیں۔ ماسوائے ہمارے چاہنے والوں کے کسی کو اتنی فرصت اور دلچسپی نہیں ہوتی کہ ان ٹکڑوں کو جوڑے اور ہمیں مکمل سمجھ سکے۔
آپکی وفات کا سن کر پہلے تو مجھے سچ مچ بہت زیادہ افسوس ہو گا۔ اور شاید کچھ دن میں اس بارے میں کچھ بھی نہیں کہہ سکوں۔ پھر شاید کچھ دن بعد ایک کف افسوس ملتی پوسٹ کروں جس میں آپ سے متعلق ان تمام جذبات کا بے دھڑک اظہار ہو گا جو ابھی آپ سے کہنے کی ہمت نہیں ہے۔ مگر شاید ایک پوسٹ کر کے میری تسلی نہ ہو۔
شاید میں آپ کے قریبی دوستوں اور فیملی سے بھی رابطہ کر کے انھیں بتانے کی کوشش کروں کہ میری نظر میں آپ کیسے انسان تھے یا جس زاویے سے جسقدر بھی میں نے آپکو دیکھا اور سمجھا ہے وہ بتلا سکوں۔ شاید کہ میرے پاس آپکے پزل کا جو ٹکڑا ہے، اسے جوڑ کر کہیں کسی کی یاداشتوں میں آپکی تصویر اور کہانی مکمل ہو سکے۔

0 comments: