فاریسٹ گمپ

3:00 PM 0 Comments



گو کہ یہ میری زندگی کا کوئی رئیل کردار نہیں ھے، لیکن میرے لئے کسی زندہ کردار سے کم بھی نہیں، کیونکہ مجھے یہ ہمیشہ سے انتہائی مکمل، بھرپور اور جاندار کردار لگتا ھے.
.
آپ میں سے جو لوگ فلموں سے شغف رکھتے ھیں وہ جانتے ھوں گے کہ 'فاریسٹ گمپ' 1992 میں آسکر ایوارڈ کے لئے نامزد ہونے والی اک فلم کا نام ھے اور اس میں اداکار 'ٹام ھینکس' نے فاریسٹ گمپ کا لازوال مرکزی کردار ادا کیا تھا.
.
فاریسٹ گمپ زمانے کیلئے ابنارمل ھے... اس میں کوئی ایک بھی خاص بات نہیں. یا پھر شائد اسے ابنارمل سمجھنے والے ھم سب خود نارمل نہیں. فاریسٹ گمپ کی نظر سے زندگی کو دیکھیں تو زندگی بہت آسان دکھائی دینے لگتی ھے. وہ بڑی سے بڑی کربناک سچویشن کو بھی اپنی سادگی کیساتھ یوں گزار دیتا ھے کہ دیکھ کر ہنسی آتی ھے او زندگی کا کوئی بھی غم اتنا دلدوز محسوس نہیں ھوتا کہ اس پر آنسو خرچ کئے جا سکیں. وہ اپنے معصوم سے فلسفے کے ساتھ زندگی میں کتنی بڑی اور یادگار کامیابیاں حاصل کر گیا، کن کن بڑے لوگوں سے ملا، کیا کیا اعزازات لئے، لیکن اسے کسی بڑے پن کا ادراک ہی نہیں. اور ہر گزرے پل کو جھٹک کر وہ بس آگے ہی بڑھتا جاتا ھے. مشکل سے مشکل وقت میں بھی زندگی اسکے لئے آسان اور سیدھی ہی رھتی ھے، کیونکہ وہ پیچیدہ سوچیں سوچتا ہی نہیں.
.
فاریسٹ پیدائشی معذور تھا ، ٹھیک سے چل بھی نہیں سکتا تھا، پڑھ نہیں سکتا تھا، مگر اسکی ماں کی کہی انتہائی سادہ سی باتیں اس کے لئے سنہری اصولوں کی مانند تھیں، جن پر وہ مرتے دم تم ایمان رکھتا ھے. ماں کے علاوہ اسکی زندگی میں ایک لڑکی "جینی" آتی ھے، جسے وہ پسند کرتا ھے وہ اسے جینے کا حوصلہ دیتی ھے، مگر شائد اس لڑکی کی اپنی زندگی میں فاریسٹ جیسے شخص کیلئے کوئی جگہ نہیں ھوتی . بچپن میں اپنے سوتیلے والد کی ہوس کا شکار ہونے والی جینی کے اپنے بہت سے مسائل ھیں، جو مرتے دم تک اسکا ساتھ نہیں چھوڑنے والے، وہ بدکاری کرتی ھے، خطرناک نشے کرتی ھے، خودکشی کی کوششیں، اور ہر وہ کام کہ جس کے بعد کوئی بھی اسے اپنانے کو تیار نہ ھو، لیکن فاریسٹ کو فرق ہی نہیں پڑتا، اسے جیسے معلوم ہی نہیں کہ برائی کیا ھوتی ھے.
.
فاریسٹ لیجنڈری راک اینڈ رول سنگر کو ڈانس کے سٹیپس سکھاتا ھے، امریکن فٹبال ٹیم میں بے مثال کامیابی حاصل کرنے پر صدر جان ایف کینیڈی سے ملتا ھے، ویت نام کی جنگ میں حصہ لیتا ھے، اور شاندار بہادری پر امریکی صدر نکسن اسے اعزاز سے نوازتا ھے، وہ پنگ پانگ (ٹیبل ٹینس) کی  چیمپئن شپ جیت لیتا ھے. جان لینن کے ساتھ ٹی وی شو میں بطور مہمان شرکت کرتا ھے، جھینگوں کی خرید و فروخت کی کمپنی کی بنیاد رکھتا ھے جو اربوں روپے کماتی ھے. وہ مشھور زمانہ 'ایپل' کمپیوٹر کمپنی کے شیئرز خریدتا ھے. وہ پورے امریکا میں دوڑنے کے ریکارڈ قائم کرتا ھے. دکھایا یہی گیا کہ اس کی ہر ہر کامیابی انجانے میں حاصل ہوئی، اور اسے خود اپنی کامیابی کا ادراک نہیں. اپنے ہر رول میں وہ لوگوں کے لئے انسپریشن کا درجہ رکھتا ھے ، لیکن اسے خود احساس ہی نہیں کہ اس میں کوئی بھی خاص بات ھے. وہ معصوم ھے، انتہائی معصوم، جس کے لئے ہر شے بے معنی ھے .. سوائے اسکی ماں اور جینی کے، جن کے پاس وہ بار بار لوٹ کے آتا ھے.
.
ایک ناقابل فراموش کردار ، جس کی نظر سے زندگی کی ہر مشکل کوئی مشکل نہیں. کبھی کبھی بہت دل کرتا ھے اس دنیا کو فاریسٹ گمپ کی عینک سے دیکھنے کو. فلسفے کے بغیر زندگی جینے کو.

0 comments:

پاپا وحید

12:41 AM 0 Comments

سیالکوٹ میں بڑے بھائی یا کزن کو اکثر 'پاپا' کہہ کر مخاطب کرتے ہیں. بڑے ماموں کا سب سے بڑا بیٹا وحید بٹ. ننھیال میں میرا سب سے بڑا کزن. مجھ سے عمر میں کوئی بیس سال بڑا ہو گا.
خاندان کا پہلا بچہ ہونے کی وجہ سے اسکے خاص ناز نخرے اٹھائے گئے، مشھور ہے کہ اس نے بچپن میں کوئی جن وغیرہ دیکھ لیے تھے، جنکا کافی اثر اس پر رہا، اور وہ مافوق الفطرت قسم کی گفتگو کیا کرتا تھا. ابھی بھی خاندان والے اپنے خوابوں کی تعبیر اسی سے پوچھتے ہیں. اور کہا جاتا ہے کہ وحید کا دیکھے ہوئے خواب سچے ہوا کرتے ہیں. مگر پاپے وحید نے تعلیم میں کبھی دلچسپی نہیں لی. موصوف کا لڑکپن محلے کے آوارہ لڑکوں کی نذر ہوا اور جوانی میں اپنے سے دگنی عمر کی خاتوں سے عشق میں مبتلا ہو گئے .. گھر والوں سے ناراضگی مول کر اسی سے شادی کی اور گھر والوں سے الگ ہو گئے.
.
چھوٹے ماموں، جو پاپے وحید کے چچا تھے، یقینا پاپے وحید کے لئے بھی انسپریشن کا درجہ رکھتے تھے، پاپے نے اپنے چچا سے بہت سیکھا تھا، بقول پاپے وحید کے، اس نے چھوٹے ماموں کا وہ آرٹ ورک بھی دیکھا ہوا ہے جو ماموں نے مذہبی رجحانات غالب آ جانے پر ضائع کر ڈالا تھا.
مصوری کا فن پاپے وحید کو بھی گویا وراثت میں ملا تھا. لیکن مناسب تعلیم اور آرٹ کا ایکسپوزر نہ ہونے کے باعث وہ آرٹسٹ بننے کی بجائے چھوٹے ماموں کی طرح ہی ایک بازار میں پینٹرز کی دکان کھول کر بیٹھ گیا، اور اسے چھوٹے موٹے کام ملنے لگے، وہ سائن بورڈ لکھنے لگا اور گھروں اور دفتروں میں رنگ روغن کے چھوٹے موٹے کاموں سے اپنا گھر چلانے لگا.
.
خدا نے اولاد کی نعمت سے محروم رکھا. ابھی کوئی پچاس برس سے اوپر کا ہو چکا، کچھ سال پہلے لاہور میں کسی اونچی عمارت پر سائن بورڈ فکس کرنے کے دوران بجلی کا جھٹکا لگنے سے سیڑھی سے گر گیا، جان بچ گئی مگر بائیں ہاتھ کی انگلیاں اور بدن کی کئی ہڈیاں ٹوٹ گئیں ، بستر پر پڑ گیا، اور بڑی مشکل سے دوبارہ چلنے پھرنے کے قابل ہوا. لیکن اب پہلے کی طرح مارکیٹ میں پروفیشنل کام کرنے کے قابل نہیں رہا. گھر والوں نے بھی بالآخر واپس قبول کر لیا، ابھی سیالکوٹ ہی میں ہوتا ہے، لیکن اس نے اپنی عمر رسیدہ بیوی کو کسی حال میں اکیلا نہیں چھوڑا. عجب عشق ہے یہ.
.
اب اس عمر میں آ کر پاپے کو اندازہ ہوا ہے کہ اس نے عمر بھر اپنے فن کو ضائع کیا، یا یوں کہہ لیں کہ اپنے اندر کے فن کی اسے سمجھ ہی اب آئی ہے . پاپے وحید کا پنسل ورک کمال کا ہے. ابھی وہ گھر بیٹھا پنسل ورک اور سکیچز بنا بنا کر وقت گزاری کرتا ہے. میں نے پچھلے کچھ مہینوں میں پاپے کا کام دیکھا، میرے خیال میں وہ بہت ڈیٹیل کیساتھ حیرت انگیز کام کرتا ہے، اس بار میں نے دورہءِ سیالکوٹ کے دوران خاص طور پر پاپے وحید کے آرٹ ورک کی تصویریں بنائی ہیں. تاکہ اس کے بنائے ہوئے سکیچز آپ لوگوں کے ساتھ شیئر کر سکوں. تاکہ آپ میرے اس گمشدہ فنکار کزن کی صلاحیتوں کا اندازہ ہو سکے.
 ------------------------------

پاپے وحید کی تصویر

ایک چڑیا کے مرنے پر دوسری چڑیوں کا ردعمل



 ایک کہانی کا منظر


فوٹوگراف سے پورٹریٹ


گھر کے نادر برتن بنانے کی کمال ٹیکنیک

چوڑی دار اوزار بنانے کی ٹیکنیک

باڈی بلڈر بنانے کی ٹیکنیک

شیشے کا گلاس ، پانی اور اسکا عکسبنانے کی ٹیکنیک

مختلف اشیا کی ڈرائنگ بنانے کی ٹیکنیک


اخبار پڑھتے شخص کا خاکہ بنانے کی ٹیکنیک

ھیرے، موتی، نگ اور انگوٹھی بنانے کی ٹیکنیک

رومانٹکپورٹریٹ

گولائی اور نوکدار اشیاء بنانے کی ٹیکنیک

یونانی دیوتا کی تصویر

فلم مغل اعظم کا ایک منظر

ایک تخیلاتی پورٹریٹ

ورکشاپ کے اوزار بنانے کی ٹیکنیک


برتنوں اور صراحیوں کا ڈھیر بنانے کی ٹیکنیک

رنگین پورٹریٹ

شیر کی پینٹنگ


0 comments:

بڑی امّاں

11:40 AM 0 Comments

کچھ منفرد کردار :: # 2 - بڑی امّاں
---------------------------------------
رشتے میں میری بڑی ممانی ھیں. لیکن ان کے ساتھ اتنے زیادہ رشتے ھیں کہ جسکے لئے پوری ایک فہرست بنانے کی ضرورت ھے. لیکن وہ ساری فیملی کی بڑی اماں ھیں. چھوٹے بڑے سبھی انکو اسی نام سے پکارتے ھیں. میری امی، میں، اور اب میرے بچے بھی انکو بڑی اماں ہی کہتے ھیں.
.
وہ میری امی کے تایا کی بیٹی ھیں، ان کے والدین اپنی جوانی ہی میں وفات پا گئے جس کے بعد یہ لڑکپن ہی میں میری نانی کو پرورش کیلئے سونپ دی گئیں. تب میری امی کی پیدائش بھی ابھی نہیں ہوئی تھی. بعد ازاں اسی گھر میں میرے بڑے ماموں کے ساتھ شادی طے پا گئی اور امی کی بھابھی بھی بن گئیں.   میری امی کے بقول امی کو بڑی اماں ہی نے پالا پوسا اور  ہماری نانی کی وفات کے بعد اصل میں بڑی اماں ہی انکی ماں اور ہماری نانی بھی ھیں.
.
صوم و صلات اور تہجد کی پابند. بہت سی عبادات وہ کرتی ھیں. ہر سال اعتکاف پر بیٹھیں گی، اور چِٹی ان پڑھ ہوتے ہوئے بھی پتا نہیں کیسے اتنی زیادہ حدیثیں اور آیتیں انکو یاد ھیں.
.
بڑی اماں جوانی میں انتہائی خوبصورت تھیں. سبز رنگ کی آنکھیں، گورا رنگ اور بھورے بال. آگے سے ان کے سبھی بچے بھی  بڑے خوبصورت. جب سے میں نے ہوش سنبھالا بڑی اماں کی خوبصورتی کے قصے سنے. ھم پوچھتے کہ بڑی اماں آپ اتنی پیاری کیسے ھو تو وہ کہتی ھیں میرے حسن کا راز ھے 'تبت سنو' کریم . اور واقعی ھم نے انہیں ہر موقع پر چہرے پر 'تبت سنو' کریم لگاتے اور آنکھوں میں ہاشمی سرمہ لگاتے ہی دیکھا.
.
بڑی اماں کے گیارہ بچے ہوئے جن میں سے صرف سات حیات ھیں، انکے ہاں چھانگے (چھ انگلیوں والے) بچوں کی پیدائش ھوتی تھی، جو بعد ازاں جانبر نہ ھو پاتے تھے. مگر جب بھی بچوں کا ذکر آئے، وہ اپنے مرحوم بچوں کا ذکر ضرور کرتی ھیں.
.
بڑی امّاں ایک ایسی انپڑھ خاتون ھیں، جنکو پڑھائی کی قدر کا بھرپور اندازہ ھے. انہوں نے اپنے بچوں کو پڑھانے کے لئے بہت محنت کی لیکن کوئی بھی بچہ پڑھائی میں آگے نہیں نکل سکا. اور پھر سوائے ایک کے کوئی بھی بیٹا ذمے دار ثابت نہ ہوا. کوئی غلط صحبت کا شکار ھو گیا، تو کوئی کسی حادثے کا شکار ھو گیا. کسی نے اپنی زندگی  باڈی بلڈنگ کی نذر کر دی تو کوئی کبوتر بازی میں ہی مگن ھو گیا، اور کوئی اپنی مرضی کی شادی کر کے الگ ھو گیا. میرے بڑے ماموں کے فنانشل حالات بھی کوئی بہت آسودہ نہیں تھے، پھر وہ طویل علالت کا شکار رھے، بڑی اماں نے انکی خوب خدمت کی پندرہ سال قبل ماموں بھی وفات چکے.
.
دیکھا جائے تو بڑی اماں کی زندگی دکھوں سے بھرپور رہی، لیکن بڑی اماں کی شخصیت کو دیکھ کر نہیں لگتا کہ انہیں کوئی پریشانی بھی لاحق ھو گی. وہ انتہائی زندہ دل خاتوں ھیں. زبردست پنجابی بولتی ھیں، اور بہت زیادہ بولتی ہیں. اکثر ھم ان کی باتوں کو سمجھے بغیر آگے سے 'ہوں ہاں' کرتے رہتے ھیں، مگر وہ بولے جاتی ہیں. پتا نہیں کون کون سے قصے کہانیاں. انتہائی فرینڈلی، اور ہر کسی کے کام آنے والی ہیں.. ایک بار ہمارے ساتھ ٹرین پر سیالکوٹ سے آئیں، تو فیصل آباد پہنچتے پہنچتے دوسری اجنبی خواتین کیساتھ اتنی دوستی گانٹھ چکی تھیں کہ سب نے ان سے ایڈریس لیا کہ وہ سیالکوٹ آ کر ضرور ملیں گی. رشتے داریاں نبھانے والی، ہر کسی کے لئے پریشان ہونے والی. ہر خوشی غمی میں سب سے پہلے پہنچنے والی. ہر شادی کا لازمی جزو. کبھی کسی سے ناراض نہیں ہوئیں. نہ ہی کوئی ان سے ناراض ھو سکا. ہمیشہ حرکت میں نظر آتی ھیں. اتنی معمر مگر ایکٹیو خاتون میں نے اپنی زندگی میں نہیں دیکھی. ھم جب سیالکوٹ جائیں، تو رات کو سب سے آخر میں وہ سوتی ھیں، اور صبح اٹھو تو وہ پہلے سے جاگ رہی ھوتی ھیں، انکے لئے کام کا کوئی وقت مقرر نہیں. ایسی خاتوں ھے جو رات کو بارہ بجے بھی کپڑے دھوتی پائی جائیں گی، اپنے چھوٹے سے گھر میں نجانے کون کون سے گملے اور پودے لگا کر باغبانی کا شوق بھی پورا کرتی ھیں. مرغیاں بھی پال رکھی ھیں، گھر میں بکری بھی ھے.
.
بڑی اماں کی سادگی بھری باتوں میں چٹکلے بھرے ہوتے ھیں. ان کے پاس بیٹھ جاؤ تو پھر ہنستے جاؤ ہنستے جاؤ. ساری اقساط دیکھ کر بھی ڈرامے کی سٹوری انکو پتا نہیں ھوتی  ___ اسی طرح کرکٹ کی کوئی سمجھ بوجھ نہیں مگر میچ شوق سے دیکھتی ھیں .. ایک بار میں نے انکے پاس بیٹھ کر کرکٹ میچ دیکھا. پاکستان کی بیٹنگ چل رہی تھی، باؤلر بھاگ کر آتا، تو اسکے رن اپ کے دوران بڑی اماں کہتی ... ھُن آؤٹ .. آؤٹ .. آؤٹ ... میرے ٹوکنے پر کہنے لگیں، "اچھا میں سمجھی اونہاں دی واری چل رہی اے" ............ سپن اور فاسٹ باولنگ پر ان کا تبصرہ کچھ یوں تھا کہ آفریدی کے اوور کے بعد شعیب اختر باولنگ کروا کے پسینے سے شرابور ھو رہا تھا .. بڑی اماں بولیں :: "گولی وجنا !! اینویں دوڑ دوڑ کے اپنیاں لتاں پئا تھکاؤندہ اے. بھلا تُو وی آفریدی وانگر کھلوتا کھلوتا گیند سُٹ لیا کر" .................. ایک پلئیر نے چھکا لگایا، گیند اسٹیڈیم سے باہر چلی گئی، جو واپس نہ آئی تو باہر سے گراؤنڈزمین گیندوں کا ڈبہ اٹھائے گراؤنڈ میں داخل ہوا .... بڑی اماں بولیں .... "اینہوں ویکھو  چھکے دی کِنی خوشی ہوئی اے، فورا ای مٹھائی دا ڈبہ چک لیایا اے"
.
بڑی اماں کو مل کر سوچتا ھوں. کہ ایسے پیارے لوگ اب اللہ نے بنانے کیوں بند کر دیئے ھیں.

0 comments:

چھوٹے ماموں

8:57 AM 0 Comments

اس بار دورۂِ سیالکوٹ کی ایک اہم وجہ میرے چھوٹے ماموں ہیں، جو آجکل بہت بیمار بھی ھیں اور ہسپتال میں داخل ھیں. میرے کل چار ماموں تھے، چاروں درویش صفت تھے، بڑے تینوں بھائیوں کا انتقال ھو چکا.
.
چھوٹے ماموں بچپن سے ہی ھم سب کزنز کیلئے ایک انسپریشن کا درجہ رکھتے تھے. وہ کمال کے آرٹسٹ تھے. فن مصوری میں کمال رکھتے تھے. اور ستر اور اسی کی دہائی میں یو اے ای کے ارتقائی دور کے دوران ان کی جاب دبئی کے ایک فائیو سٹار ہوٹل میں تھی، جہاں ان کا کام مختلف دیواروں پر نت نئی پینٹنگز بنانا اور ڈیزائننگ آئیڈیاز کو عملی جامہ پہنانا تھا.
.
اس کے علاوہ ماموں کا دوسرا شوق فنِ گائیکی تھا، ان کی آواز بہت ہی عمدہ تھی، اور انہوں نے کلاسیکل موسیقی کی باقاعدہ تعلیم حاصل کر رکھی تھی. اونچے نچلے سروں میں انہیں کمال مہارت حاصل تھی اور جب وہ گاتے تھے تو سننے والے دل تھام کر بیٹھ جاتے. اس ضمن میں ایک بہت ہی خاص واقعہ جو ھم بچپن سے سنتے آئے کہ قیام دبئی کے دوران ایک بار محمد رفیع نے اسی ہوٹل میں قیام کیا، جہاں ماموں جاب کرتے تھے. اور کسی نجی محفل میں ہوٹل کے سٹاف نے محمد رفیع کے سامنے ماموں کو پیش کیا کہ یہ آپکا بہت بڑا پرستار ھے جو آپ کے گانے گاتا ھے. رفیع کی فرمائش پر ماموں نے اسکے سامنے رفیع ہی کا مشکل ترین گانا 'دنیا کے رکھوالے گایا' اور رفیع کو حیرت میں مبتلا کر دیا. بعد ازاں رفیع نے ماموں کو بمبئی لے جانے اور کریئر بنانے کی بات بھی کی ....... لیکن پھر اس سلسلے میں کوئی پیش رفت نہ ھو سکی.
.
لیکن پھر یکایک ماموں کا ذہن پلٹ گیا. دبئی میں رہتے ہوئے ہی مذہبی رجحانات اسقدر غالب آ گئے کہ مصوری اور موسیقی کو خیر آباد کہہ دیا. اور انہوں نے اپنی نوکری پر تصویریں بنانے سے معزرت کرلی. جس کے بغیر فائیو سٹار ہوٹل والوں کو بھی انکی ضرورت نہ رہی. ماموں سب کچھ خیر آباد کہہ کر پاکستان واپس آ گئے. اور سیالکوٹ میں پینٹر بن گئے. انہوں نے گھروں میں سفیدیاں اور پینٹ کرنے کا کام شروع کر دیا، مسجدوں میں خطاطی کا کام کرتے ، دکانوں کے سائن بورڈ پینٹ کرتے، اس کے علاوہ لکڑی کا کام بھی کرتے اور اسی محنت سے اپنا گھر چلاتے رھے. کبھی ناجائز کمائی نہیں کی، میں نے تو صرف ماموں کی خطاطی اور دیواروں پر رنگ و روغن کے کام سے ہی ان کے فن کا اندازہ کر سکتا ھوں، کیونکہ انہوں نے اپنا مصوری کا سب کام ضائع کر دیا تھا. لیکن امی مجھے پینٹنگ کرتے دیکھ کر ہمیشہ ایک ہی بات کہتی ھیں کہ خرّم ! تمہارا مصوری کا شوق تمہیں تمہارے ماموں سے ملا ھے.
.
خیر ماموں شریعت کے پابند ھو گئے، داڑھی رکھ لی، گانے چھوڑ کر نعتیں ، تلاوت شروع کر دی، ان کی آواز کے بہت چرچے تھے، ان سے فرمائش کر کے مسجد میں اذان دلوائی جاتی. نجی محفلوں میں ان کی آواز کی بہت واہ واہ ھوتی لیکن میڈیا کا دور نہ تھا اور نہ ہی ماموں مادیت پرست تھے کہ اپنے ہنر اور فن کو کیش کرواتے. انتہائی سادہ اور قناعت پسند انسان جسکے پاس اپنے ایک چھوٹے سے آبائی گھر کے علاوہ کوئی اثاثہ نہیں. مگر اسی سادگی اور قناعت کیساتھ وہ اپنے سب بچوں کی شادیاں کر کے تمام فرائض سے سبکدوش ہوئے.
.
میں ہمیشہ یہ باتیں اپنے ننھیالی کزنز سے سنا کرتا تھا لیکن میں نے جب نوے کی دھائی میں ہوش سنبھالا تو ایک بار سیالکوٹ جانے پر ماموں سے لاڈ میں فرمائش کی کہ کچھ گا کر سنا دیں. ماموں بہت پیار کرتے تھے تو انہوں نے طلعت محمود کا گیت
"زندگی دینے والے سن، تیری دنیا سے دل بھر گیا"
 گانا شروع کیا ..... وہ انتہائی اونچے سر بھی اس آسانی سے گا رھے تھے کہ جیسے کوئی مسئلہ ہی نہ ھو، آواز سن کر تیسری منزل سے میرے کزنز بھاگے بھاگے نیچے آئے، کہ یہ موقع شاذوناذر ہی آتا تھا کہ ماموں کسی کی فرمائش پر کچھ گانے پر رضامند ھو جائیں. محفل سی جم گئی. مجھ سمیت سننے والوں کے رونگٹھے کھڑے ھو گئے.  وہ ایک یادگار رات تھی، جس کا پل پل مجھے یاد ھے. ھم بہت سے لوگ ایک کھلے صحن میں چارپائیوں پر بیٹھے تھے.  ماموں نے مجھے اس گیت کے بارے میں بہت کچھ بتایا کہ یہ راگ 'مالکونس' میں بنا ھے، کس نے گآیا، اور اس گیت میں کیا کیا باریکیاں ھیں. تب وہ ساری انفارمیشن میرے سر پر سے گزر گئی. بعد میں میں نے طلعت کا یہ گیت لاتعداد مرتبہ سنا ھے ... اور میں شرطیہ کہہ سکتا ھوں کہ ماموں کے گائے ہوئے ورژن کے سامنے طلعت محمود کی آواز اور گائیکی کچھ بھی نہیں. اسی محفل میں ماموں نے "او دنیا کے رکھوالے، سن درد بھرے میرے نالے"  بھی سنایا. اور میں نے زندگی میں کسی کو بھی اتنی بلند آواز میں گاتے نہیں سنا. انکی آواز گویا ڈائریکٹ دل پر جا کر چوٹ کرتی تھی ، وہی کہانیاں جو دوسروں کی زبانی ماموں کے بارے میں سنی تھی، خود ماموں کی زبانی بھی سنیں. ..... گانے کے بعد ماموں نے کہا کہ ان کاموں میں کچھ نہیں رکھا. لیکن چونکہ سیکھا ہوا ھے تو کمبخت کچھ بھولتا بھی نہیں. اس کے بعد ہمیشہ سیالکوٹ جانے پر ماموں سے کچھ نہ کچھ فرمائش کر کے سنتا رھا. لیکن اس بار نہیں سُن سکا، کیونکہ وہ بہت بیمار ھیں. میں الفاظ میں بیان نہیں کر سکتا کہ وہ کتنے بڑے آرٹسٹ اور اس سے بھی بڑے پریکٹیکل انسان ھیں. لیکن ان ہسپتال کے بستر پر بے سدھ لیٹے دیکھ کر یہی بات ذہن میں آتی رھی کہ "کیسے کیسے ھیرے اس دنیا کی خاک میں یونہی رُل گئے"

0 comments: