فرقان احسان وٹو

10:32 PM 0 Comments

میرے ذھن میں فرقان احسان وٹو کا بھاری بھرکم خاکہ بہت مذہبی نوعیت کا تھا، اور میرے ناقص کردار کے ساتھ مجھے لگتا تھا کہ شائد ان کیساتھ میں زیادہ وقت نہ گزار پاؤں گا، کیونکہ اکثر مولوی قسم کے حضرات اچھے دل کے ملک ہونے کے باوجود پرانے زمانے میں جی رھے ہوتے ھیں، بات بات پر انکے لیکچر سٹارٹ ہو جاتے ھیں اور ایسے لوگوں کے درمیان میں کافی کمیونیکشن گیپ محسوس کرتا ہوں ، لیکن فرقان سے ملاقات پر رائے یکسر غلط ثابت ہوئی.


پہلی ملاقات ایسی تھی کہ وقت گزرنے کا احساس بھی نہیں ہوا ... نہ ہی کوئی اجنبیت محسوس ہوئی ..... چند گھنٹے کیسے گزر گئے پتا بھی نہ چلا ... اور مذہبی وہ بلاشبہ ھیں .. اسلامی رنگ میں مکمل رنگے ہوئے .. لیکن بہت کھلے دل کے .. خود مدلل گفتگو فرماتے ھیں لیکن دوسرے کی بات کو سن کر وزن دینے والے. خاصے خوش خوراک ، ٹیکنالوجی سے ھم آھنگ، ان کی تصویر میں وہ جتنے بھاری بھرکم نظر آتے تھے .. ان کی شخصیت اس کے برعکس ھلکی پھلکی محسوس ہوئی. بڑی دلکش مسکراھٹ کے مالک ھیں، میں تو کہتا ہوں وہ بات نہ بھی کریں، محض مسکراتے ہی رھیں تو بھی کام چلے گا.


 اسکے بعد تایا جی کے گھر مینگو پارٹی پر ملاقات میں ان کی جگتیں سن کر دل باغ باغ ہو گیا ... انکا مجھے 'خرّم بھائی' کی بجائے 'بھائی خرّم' کہہ کر مخاطب کرنے کا انداز بہت اچھا لگتا ہے.


انہوں نے پہلی ملاقات میں مجھے کہا کہ: "بھائی خرّم !! میں پہلی ہی ملاقات میں یا تو دل سے اتر جاتا ہوں .. یا پھر دل میں اتر جاتا ہوں."


میں نے اسی لمحے اپنے دل میں جھانکا، تو وہ جناب پہلے ہی دل میں اتر چکے تھے.

--
نومبر 2014

0 comments:

میری 'صِلہ' اور میڈیکل سائنس

10:34 PM 0 Comments

میری کوشش ہوتی ھے کہ دوست احباب کیساتھ ہمیشہ کوئی پازیٹو یا خوشی کی بات شئیر کی جائے. اس لئے یہ بیٹی کی وفات کا تذکرہ گروپ پر کبھی نہیں کیا. لیکن یہ ایک کڑوی حقیقت ھے. اور صبح آفس آتے ہی پوسٹ دیکھی، لیکن سوچا آفس کی افراتفری میں اس پوسٹ پر کمنٹ نہیں کروں گا.

2008 میں فیصل آباد کے سِول ہسپتال میں CBC کو مد نظر رکھے بغیر میری 13 مہینے کی بیٹی 'صِلہ' کو anesthesia کا انجکشن لگا دیا گیا جس سے وہ کوما میں چلی گئی. اور پھر کچھ دن بعد اس کے تمام نظام آہستہ آھستہ کام کرنا چھوڑ گئے .. وہ وینٹیلیٹر پر چلی گئی اور جانبر نہ ھو سکی.... اس وقت شاید مجھے اور میری فیملی کو زیادہ میڈیکل شعور بھی نہیں تھا اور انتہائی دکھ کے ساتھ ھم نے اس واقعے کو خدا کی مرضی سمجھ کر قبول کر لیا، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ سمجھ لگی کہ اس سارے سانحے میں بنیادی وجہ غلط میڈیکل ٹریٹمنٹ تھا

یہ بہت دلخراش واقعہ ھے میری زندگی کا. ہمیں بہت وقت سنبھلنے میں لگا .... اور مجھے اپنی بیوی کو واپس زندگی میں انٹرسٹ لینے کے لئے بہت محنت کرنا پڑی. یہ سب کسی کو سمجھانا بھی بہت مشکل ھے کہ والدین کس کیفیت سے گزرتے ھیں. اپنی مری ہوئی اولاد بھی کبھی نہیں بھولتی 

میرے میڈیکل سائنس کے بارے میں بہت مکسڈ قسم کے تجربات رھے ھیں ... جن میں سے زیادہ تر ناخوشگوار ہی رھے. اور یہ صرف پاکستان کے سرکاری ہسپتالوں کا مسئلہ نہیں بلکہ پرائیویٹ اور حتی کہ انٹرنیشنل سٹینڈرڈ ہسپتالوں میں بھی کوتاہیاں برتی جاتی ھیں. اگر روٹین سے ہٹ کر کوئی بیماری آ جائے، (جس کا ڈاکٹر کو نالج نہ ھو ) تو اس مریض پر تجربے ہی ہوتے ھیں پھر ..

مجھے افسوس اس بات کا ہوتا ہے کہ ڈاکٹری ایک مقدس پیشہ ھے لیکن ساتھ ہی ساتھ یہ دنیا کا سب سے بڑا بزنس بھی ھے .... پیسہ کمانے کے چکر میں زیادہ تر ڈاکٹرز اتنے مصروف ہو جاتے ھیں کہ اپنے نالج کو اپ ڈیٹ بھی نہیں کرتے . زیادہ تر کیسز میں مریض کے لواحقین کو درست انفارمیشن بھی نہیں بتاتے. اور مریض کے کم علم لواحقین کے لئے ڈاکٹر کی ہر بات حرف آخر ہوتی ہے. جس کا مریض ہسپتال میں ہوتا ہے، اس کو آپ پانچ روپے کا کیپسول پانچ سو میں بھی بیچیں گے تو وہ خریدے گا. اسکے علاوہ جعلی ادویات کو بھی مافیاز کنٹرول کر رھے ھیں. افسوس کی بات ھے کہ میڈیکل کے شعبے میں یہ سب دو نمبریاں ہو رھی ھیں. ناصرف پاکستان میں بلکہ دنیا بھر میں.

---
10 نومبر 2014

0 comments:

جنریشن گیپ

10:36 PM 0 Comments

مجھے اپنے بہن بھائیوں سمیت ساری زندگی اس بات کا گلہ رھا کہ ہمارے ابو ہمارے ساتھ فرینڈلی نہیں ہیں. ان کی نسبت ہمارے چچا اپنی اولاد کے ساتھ ساتھ ہمارے ساتھ بھی بہت فرینڈلی تھے .... ہمارا یہ عالم تھا کہ جو بات ابو کے ساتھ شیئر نہیں کر سکتے تھے ، چاچو کے ساتھ کر لیتے. چاچو کے ساتھ فلم بھی دیکھ لیتے اور ابو کے آتے ہی اگر ٹی وی چل رھا ھے تو ٹی وی بند کر دیا جاتا، میوزک چل رھا ھے تو وہ بھی بند ... اگر ابو کمرے میں آ کر بیٹھ گئے ھیں تو ھم اٹھ کر چلے جاتے ... خدا جانے یہ احترام تھا ، ڈر تھا یا کیا تھا ... لیکن ان کی شخصیت رعب و دبدبہ والی تھی، ھم ہی نہیں سارا خاندان ابو کے بھائی، بہنیں کوئی بھی ان کے آگے نہ بول پاتا تھا اور نہ ہی کوئی آرگمنٹ کرنے کی ھمت کر پاتا.معاشی حالات بھی بہت آسودہ نہیں تھے. تو دل میں شکایات کا گھر تھا اپنے والد کے لئے.

31 دسمبر 2014 کو ابو کا انتقال ھو گیا ... اس سے پچھلے تین سال بہت کربناک گزرے .. ابو کو کینسر ھو گیا تھا. ابو نے کچھ مہینے اس موزی مرض سے جنگ کرنے کے بعد ہی دل چھوڑ دیا تھا ... لیکن ھم سب نے ان کے علاج میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی، ھم ان کی ھمت بندھاتے رھے، اور وہ بھی شائد صرف ہماری خوشی کے لئے تکلیف دہ علاج کی صعوبت سے گزرتے رھے. تب ہمیں خود اندازہ ہوا کہ ھم سب اپنے والد سے کتنا پیار کرتے تھے .. صرف میں نہیں ، میری بہنیں، میرا بھائی، میرے کزن اور باقی سب فیملی والے بھی ...

میں جاب کے سلسلے میں لاہور میں ھوتا تھا اور فیملی فیصل آباد میں، تو مجھ سے زیادہ میرے کزنز نے ان کی خدمت کی، آخری وقت بھی ہسپتال مجھ سمیت میرے ساتھ میرے چار کزن اپنے تایا کی دن رات خدمت میں مصروف تھے. امی نے بھی بہت خدمت کی ... جب شوکت خانم میں زیر علاج رھے، بارہا آپریشن اور کیمو تھراپی ہوئی ...ان دنوں شائد پہلی بار ان کے بہت قریب رھنے کا موقع ملا، میں آفس سے ہسپتال جاتا اور ساری رات ہسپتال میں گزرتی ... ان کے پاس رہنے اور وقت گزارنے کا موقع ملا ، ان سے ملنے آنے والے ان کے دوستوں سے بات کرنے اور اپنے والد کے بارے میں جاننے کا اتفاق ہوا .... آخری دنوں میں ابو سے کافی باتیں ہوئیں، تب مجھے اندازہ ہوا کہ میرے والد مجھ سے کتنا پیار کرتے تھے ... لیکن بس ان کا ویژن کچھ اور تھا، جسے ھم ساری زندگی سمجھ نہ پائے، میں اس کو اپنے والد کی ناکامی تصور نہیں کرتا... انہوں نے ہمیں بہت کچھ دیا، سب سے بڑھ کر تعلیم کی دولت ... کبھی سکول کالج سے چھٹی نہیں کرنے دیتے تھے (مجھے تب اس بات پر بھی بہت غصہ آتا تھا ، بہت جنریشن گیپ محسوس ھوتا تھا .... آج لگتا ھے وہ صحیح کیا کرتے تھے )آج میں جو کچھ ھوں انہی کی وجہ سے.... اگر وہ قرض لے لے کر میری تعلیم پر خرچ نہ کرتے تو میں اس معاشرے میں کہاں سٹینڈ کرتا .. خدا جانے کس طرح وہ ہماری ضروریات اور بے جا خواہشات کو پورا کرتے رھے .. ان کی شخصیت ہی ایسی تھی، اپنا دکھ، اپنی تکلیف ظاہر نہ کرتے تھے ... جتنا بھی پریشان ہوتے، گھر پر بیوی بچوں کو نہیں بتاتے تھے. .

اپنے آخری ایام میں ہسپتال پر لاچار پڑے جب ایک دن انہوں نے اپنا ہاتھ میرے گال پر رکھ کر کہا کہ 'تو میرے لئی بڑی محنت کیتی اے ، مینوں تیرے کولوں کوئی شکایت نہیں .... میں بہت راضی چلا واں دنیا توں' .......... میں بتا نہیں سکتا اس وقت میری کیا کیفیت تھی ... آنسو تھے کہ تھمنے کا نام نہیں لیتے تھے ... اور سارا جنریشن گیپ اس ایک فقرے میں ختم ھو گیا .. وہ بہت اچھے تھے . ان کے تجربات بہت زیادہ اور سوچ ھم سے بہت اوپر کی تھی ، وہ بہت زمانہ شناس تھے، وہ اولاد کو سونے کا نوالہ کھلا کر شیر کی نگاہ سے دیکھنے کے قائل تھے .... ھم ان کی سوچ اور انداز کو نہ سمجھ پائے تو قصور انکا نہیں .... مجھے ان سے کوئی شکایت نہیں بلکہ فخر ھے

--
16 اکتوبر 2014

0 comments:

ماں کا ایک نفسیاتی کردار

12:41 AM 0 Comments

مجھے ایسا لگتا ھے کہ بچے قدرتی طور پر باپ کی طرف بہت زیادہ مائل ہوتے ہیں، مگر بچے کو نفسیاتی طور پر باپ سے دور رکھنے کا ایک سبب بذات_خود ماں کی محبت ہی ھوتی ھے. عورت کے خمیر میں شیئرنگ بہت کم ھے، نہ اپنے شوھر کو کسی کیساتھ شیئر ھوتا دیکھ پائے گی، نہ اپنی اولاد کو

 کچھ کیسز میں بیٹے کو باپ سے دور کرنے میں ماں کا بھی کردار ہوتا ھے. عموما باپ کو ماں کی طرح پروپیگنڈہ نہیں کرنا آتا .... باپ ماں کی طرح چونچلے اور ناز نہیں اٹھاتا. ..... جس کو ماں پیار پیار میں منفی پورٹرے کرنے میں کامیاب ھو جاتی ھے
بچہ غلطی کرے تو ماں سارا دن اسے باپ سے ڈراتی ھے .. کہ "آ لینے دو تمہارے ابو کو ... آج تمہاری خیر نہیں" ..... بچہ سارا دن باپ کے خوف سے کانپتا ھے ..... شام کو باپ آتا ھے ... ماں یوں شکایت لگاتی ھے جیسے بچے کی وکیل ھو ...... باپ کو غصہ آ جائے تو ماں آگے بڑھ کر بچے کو بچاتی بھی ھے، "چلئے جانے بھی دیں ... ابھی بچہ ہی تو ھے" ........................ یہ صرف ایک مثال ھے ... ایسی ہی بہت سے دوسری مادرانہ شفقت سے بھرپور حرکات سے ماں لاشعوری طور پر بچے کو باپ سے دور کرنے کا باعث بنتی ھے

0 comments:

غیر مکمل رشتے

12:52 AM 0 Comments

میرے خیال میں کوئی بھی محبت بھرا تعلق، جو ہماری اپنی چھوٹی چھوٹی غلطیوں کی نذر ھو جاتا ھے، جب ھم خود اپنی نادانیوں کے باعث کسی کو خود سے دور کر بیٹھتے ھیں، تو ایسی محبت غیر مکمل رہ جاتی ھے. اس پیارے شخص کو ھم کھو چکتے ھیں، مگر ہماری اپنی غلطیوں کے باعث ادھورا رہ جانے والا وہ تعلق ہمیشہ اک پچھتاوے بھرا احساس بن کر ہمیشہ ہمارے ساتھ رہتا ھے. ھم خود اس ادھوری محبت کو اکثر یاد کرنا پسند نہیں کرتے، کیونکہ اسکی یاد ہماری انا کو کچوکے لگاتی ھے... اگر زندگی میں آگے بڑھنا ھے تو ایسی ادھوری کاوشوں کو بھول جانا ہی بہتر ھوتا ھے، لیکن زندگی میں بھولتا تو کچھ بھی نہیں. ہاں ھم جان بوجھ کر کچھ یاد نہ کرنا چاھیں، خود کو کہیں اور مصروف کر لیں، تو الگ بات ھے

0 comments:

ورائٹی

12:26 AM 0 Comments

دودھ کی لسی میں پانی ڈال کر بڑھاتے جاؤ. بڑھاتے جاؤ ___ ایک وقت آتا ھے جب اخیر ہو جاتی ھے. اسی طرح جب ایک ہی بات ، ٹاپک اور ایشو کو پکڑ کر کئی کئی دن تک گھسیٹا جائے تو لوگ ناچاہتے ہوئے بھی اکتانا شروع ہو جاتے ہیں. اور بریک چاھنے لگتے ہیں.


میری خواہش ھے کہ میرے حلقہ احباب کے لوگ ناصرف اپنی سنجیدہ گفتار میں، بلکہ اپنے طنزو مزاح اور حتی کہ سوشل میڈیا پر بھی اپنے موڈ اور ایکٹیویٹیز میں Variation لے کر آنا سیکھیں. Variation کائنات کا خمیر ھے. اوپر اوپر سے ہر کوئی تغیرات (تبدیلیوں) کی مخالفت کرتا ھے، مگر دل سے ہر کوئی تغیرات ہی سے محبت کرتا ھے.

0 comments:

حاصلِ سفر

3:00 PM 0 Comments

کوشش" ، "سعی"، "محنت" کے بارے میں یہی سادہ سی بات سیکھی ھے کہ حاصلِ سفر کوئی "منزل" نہیں ھوتی، بلکہ "سفر" ھی ھوتا ھے.

 کامیابی ملی یا سفر رائیگاں گیا؟  "کامیابی" اور "رائیگاں" کی تعریف بھی ہر کسی کی اپنی اپنی الگ ہی ہوتی ھے. کیونکہ ہو سکتا ھے کہ وھی سفر جو دیکھنے والے کو رائیگاں لگ رھا ھے، مسافر کے لئے رائیگاں نہ ھو

0 comments:

زبیر محمد

4:00 PM 0 Comments

میرے پیارا دوست اور سابقہ آفس کولیگ ، بلکہ اگر آل ٹائمز بیسٹ آفس کولیگ کہوں تو غلط نہ ھو گا. بہت ہی ھنس مکھ اور زندہ دل انسان ھے. خوش لباس، خوش خوراک، کھیلوں کا شوقین، جذبہ حب الوطنی سے سرشار، بھرپور انداز میں رشتے نبھانے والا، دوسروں کی مدد فرض سمجھ کے کرنے والا اور بہت زیادہ پازیٹو اور پراُمید انسان ہے. بُرے سے بُرے واقعہ میں بھی امید کا پہلو ڈھونڈ نکالتا ھے. میں دوستی کے آغاز میں اس بات کو زبیر کا انتہائی مثبت پواینٹ سمجھتا تھا، لیکن زبیر میں یہ خصوصیت ضرورت سے کچھ زیادہ ہی پائی جاتی ھے. اس نے اپنی ہی ایک تخیلاتی دنیا بنا رکھی ھے، اور زیادہ تر اپنی اسی دنیا میں خوش رھتا ھے، اور کبھی کبھی مابدولت کا دل کرے تو ہماری دنیا میں آ کر ہمیں بھی لفٹ کرا دیتے ھیں.

زبیر میں بہت سی خوبیاں ایسی ہیں جو میرے کسی دوست میں نہیں پائی جاتیں..... مثلا کھانا (serve) پیش کرنے کی خوبی، جب کبھی ھم سب دوست کھانے کو بیٹھیں، یہ سب کو serve کرے گا اور خود آخر میں کھائے گا، ھم اس کو لاکھ کہتے رھیں کہ زبیر تم بھی تو کھاؤ، مگر نہیں سنتا، اور اکثر اس کے حصے میں بچا کھچا آتا ھے. اس بات پر مجھے غصہ آتا ھے، مگر یہ نہیں سدھرنے والا.زبیر کو میوزک سے بہت لگاؤ ھے، حسن پرست بھی بہت ھے. فلمز اور ڈراموں کا بھی شوقین ھے. کھیلوں کا تو بہت زیادہ شوقین ھے. حد درجہ رومانٹک بھی ھے. تخلیقی صلاحیتوں سے مالا مال ھے. زبیر بہترین کمپیوٹر پروگرامر ھے، مختصر عرصے میں بہت کچھ سیکھنے کو ملا اس سے. بقول نعمان لاشاری اور سھیل اکبر، انہوں نے زبیر سے اچھا پروگرامر اپنی زندگی میں نہیں دیکھا.

زبیر کا دل صحیح معنوں میں سونے کا ھے، ایسا کبھی نہیں ہوا کہ میں نے زبیر کو مدد کے لئے پکارا ھو اور زبیر نے انکار کیا ھو، اور حیران کن طور پر سبھی دوست اس نکتے پر متفق ھیں.

کرکٹ میچ میں 17 گیندوں پر 60 رنز چاہئے ھوں، زبیر صاحب کہیں گے، ابھی دیکھنا چھکوں چوکوں کی بارش ہو گی اور ھم میچ جیت جائیں گے.... پھر 12 گیندوں پر 45 رنزرہ جائیں تو کہیں گے.... 12 * 4 = 48 ھوتا ھے ، ھم ابھی بھی جیت سکتے ہیں..... پھر جب آخری اورر کے 6 گیندوں پر 36 رہ جائیں، تب بھی کہیں گے ... 6 * 6 = 36 .. ھم میچ جیت جائیں گے.... آخری اوور کا پہلا بال ضائع ہو جائے تو پتا ھے کیا کہیں گے.؟؟؟؟ خرم 5*6 = 30 اور دیکھنا ایک نو بال ہو گا، فری ہٹ ملے گی جس پر چھکا لگے گا اور ھم ابھی بھی جیت سکتے ہیں. خیر میچ تو ویسے بھی ہار جانا ھوتا ھے، لیکن زبیر کے ان کومنٹس کے ساتھ ہارنے میں جو فرسٹریشن اور غصہ آتا ھے، اس کا عالم مت پوچھئے. اس پر قیامت یہ کہ میچ ہارنے پر میں پیچ و تاب کھا رھا ھوتا ھوں، اور جانتے ھیں زبیر صاحب کیا فرما رھے ہوتے ہیں؟؟؟ ___ "بٹ صاحب!!! کوئی گل نہیں..فکر نہ کرو..... ہار جیت هوندی رهندی اے..... اگلا میچ اسیں ضرور جیتاں گے" ____ اور بندہ پاگلوں کی طرح زبیر کو دیکھتا رہ جاتا ھے.

اپنی ایسی ہی خصوصیات کے باعث زبیر کی زندگی میں شامل تقریبا سبھی دوستوں کو زبیر کبھی تو معصوم بچہ لگنے لگتا ھے اور کبھی انتہا درجے کا غیر حقیقت پسند انسان..... کبھی کبھی جھنجھلاہٹ بھی ھوتی ھے اور اس پر پر غصہ بھی آنے لگتا ھے، حتی کہ زبیر کے ساتھ رہ رہ کر دھیرے دھیرے انسان کو خود اپنا آپ نیگیٹو بھی لگنا شروع ھو جاتا ھے ...
زبیر ہر کسی پر اعتبار کر لیتا ھے، ہر کسی کو دوست سمجھ بیٹھتا ھے، ہر کسی کی مدد کے لئے نکل پڑتا ھے، اور اپنے بھولپن میں نقصان بھی اٹھاتا ھے. اور انہی باتوں کو لے کر میرے زبیر سے ہلکی نوعیت کے کچھ نظریاتی اختلافات بھی ھیں کیونکہ اس نے رئیل لائف میں اپنی اس ایکسٹرا پازیٹو فطرت اور خلوص کی وجہ سے بار بار دھوکے کھائے ہیں، لوگوں نے اس کو بارہا استعمال کیا اور کچھ عرصہ پہلے تو اس نے بہت ہی دلبرداشتہ قسم کی چوٹ بھی کھائی.

اب اکثر میں ارادتاً اس کے سامنے نیگیٹو اور ریلیسٹک باتیں کرتا ھوں، کوشش کرتا ھوں کہ اس کے سامنے کوئی فینٹیسی کی بات نہ کروں، تلخ حقائق اور گراؤنڈ ریالٹی کا تذکرہ کر کے اس کے ذہن میں قائم فینٹسی کی دنیا کے اثر کو تھوڑا کم کروں. اب اکثر میں اس کے سامنے سچ بولتا ھوں، جو کہ اکثر یہ سننا نہیں چاہتا... اور اسی وجہ سے مجھ سے تھوڑا دور بھی ھوتا جا رھا. لیکن ابھی بھی معاملات ہمارے مکمل کنٹرول میں ہیں، تو زبیر !!!! "جانے نہیں دیں گے تجھے"....
خدا کرے زبیر کو خود میں کوئی بھی تبدیلی کئے بغیر وہ آئیڈیل دنیا حاصل ھو جائے، جو اس کے دل میں بستی ھے... آمین

0 comments:

فضا رحمان صاحب

2:39 AM 0 Comments

زبانِ اردو اور نوابوں کے شہر لکھنؤ سے تعلق رکھنے والے ہمارے یہ گروپ ممبر اپنی وضح قطع اور گفتگو سے ہر صورت اک نواب ہی دِکھائی دیتے ھیں. اردو ادب بالخصوص شاعری ان کی رگ رگ میں خون بن کر دوڑ رھی ھے. اعلی ادبی پیمانوں سے نیچے کا کوئی بھی شعر اور شاعر ان کی برداشت سے باہر ھے، اکثر نئے شعراء ان کی کھری کھری تنقید کے نشتر سہنے کے بعد گروپ سے غیر حاضر رھنے لگتے ھیں. اور جس شاعر کے کلام سے یہ خوش ھو جائیں، اس کی اسقدر خوبصورت انداز میں حوصلہ افزائی فرماتے ھیں کہ وہ شاعر خود کو اردو ادب کی اھم ضرورت خیال کرنے لگے. جمالیاتی وعشقیہ شاعری ان کی پسندیدہ ترین ھے. فارسی سے بھی اردو ہی کی طرح محبت فرماتے ھیں.

انھیں ولی دکنی سے لے کر احمد فراز تک سبھی کلاسیک شعراء کے حالات زندگی یوں ازبر ھیں جیسے کسی کو اپنے قرض خواہوں کے نام. لگ بھگ سبھی پرانے شعراء کے دیوان انھیں زبانی یاد ھیں. فیس بک پر اپنے ہر ہر کمنٹ کے آخر میں ایک عدد شعر اور اپنے موجودہ شہر کا پتا بتانا لازمی خیال کرتے ہیں. شعر اصلاح و محبت میں جبکہ ایڈریس اس لئے کہ اگر کوئی بدلہ لینا چاھے تو اسے کوئی مشکل پیش نہ آئے. موصوف نے اپنے گھر پر ایک لائبریری کی صورت بیش بہا نایاب کتب کا ذخیرہ کر رکھا ھے. کتابیں صرف جمع نہیں کرتے، پڑھتے بھی ھیں. صرف دیوان غالب کے کوئی سترہ مختلف نسخے ان کے پاس موجود ھیں. اکثر کوئی غالب کے شعر کی تصحیح مانگ لے توفورا سبھی نسخوں سے جانچ کر بتا دیتے ھیں کہ سبھی نسخوں میں ایک سا لکھا ھے ان کی پسندیدہ فلمیں 'مغل اعظم' ، 'پاکیزہ' اور 'اُمراؤ جان' ان کی شخصیت کی صد فیصد درست عکاسی کرتی ہیں، اور ان فلموں کے تمام ڈائیلاگ انہیں ازبر ہیں. فلم "امراؤ جان" کے ڈائریکٹر سے تو بالمشافہ مل بھی چکے. اپنے گھر پر مشاعرے اور شعراء کی بیٹھک منعقد کرانا ان کا پسندیدہ مشغلہ ھے. سینس آف ھیومر انتہائی نفیس، مذاق بھی شاعری ہی میں کرنا پسند کرتے ھیں. غرض کہ ان کی شخصیت کا ہر ہر انگ شاعرانہ ھے.

اندازِ تکلم اور اندازِ طعام مخصوص نوابوں والا، نوابوں ہی کی طرح کا لباس زیب تن کرتے ھیں، انہی کی طرح نوادرات کی پرکھ اور سمجھ بھی. قرونِ اولیٰ کے دور کے برتن اکٹھے کرنے کا شوق ھے. انہی برتنوں میں گھر آئے مہمانوں کا سواگت عربی مٹھائیوں اور میٹھی گفتگو سے کرتے ھیں. نرم دِل اتنے ھیں کہ جن دنوں ارادتاً بھی فیس بک سے غائب ھوں، تب بھی کسی کی بیماری کی خبر سن کر دعائیہ کمنٹ ضرور کرتے ھیں. انکی زندہ دلی کا اس سے بڑھ کر ثبوت بھلا کیا ھو گا کہ یہ ہم جیسے غیر سنجیدہ حضرات کے درمیان اردو گفتگو پر ناصرف موجود ھیں بلکہ گفتگو بھی فرماتے ھیں. نڈر ایسے کہ رانا جیزی اور نعمان لاشاری کو ایک ساتھ مل کر بھی حواس باختہ نہ ہوئے
 
یہ ھستی دوسروں کی غلطیوں پر انہیں دل سے معاف کرنے کے عظیم جذبے سے سرشار ھے. اک خاص عہد کی نمائندگی کرتا یہ وہ لیجنڈ ھے جو اپنی شخصیت میں اپنا تمام گزرا دَور اور کلچر ساتھ ساتھ اُٹھائے پھرتا ھے. ایسی شخصیت اگلی پیڑیوں میں ناپید ھے. پچھلے سالوں میں یہ کینسر جیسے موزی مرض سے نبرد آزما بھی رھے. اللہ ان کو مکمل صحت دے اور ان کا مشفق سایہ اور بزرگانہ دستِ شفقت ہمیشہ ہمارے سروں پر قائم رکھے.... آمین

0 comments:

حرفِ راز

2:36 AM 0 Comments

اردو گروپ کی بلاشبہ سب سے منفرد، دلبربا اور لائٹ ویٹ پرسنالٹی .... "جس میں وہ خاص بات ھے، جو کسی اور میں کہاں" .... جی نہیں میں کینڈی بسکٹ کی بات نہیں کر رھا، بلکہ اپنے حرف راز صاحب کا تذکرہ ھو رھا ھے، جو ھر گز کسی بسکٹ سے کم میٹھے نہیں.

موصوف بِنا کسی شک و شبہ کے، ان گنت خوبیوں کا مرکب ھیں. اول اور نمایاں ترین خصوصیت تو یہ ھے کہ ماشااللہ سے انتہائی خوبرو اور سمارٹ آدمی ھیں. غلطی سے اکاؤنٹس کے شعبے میں آ گئے. ورنہ یہ پیدا تو شوبز کی دنیا کے لئے ہوئے تھے ........ ان کا شمار ان مرد حضرات میں ھوتا ھے جو برملا اپنے حسن کا اقرار کرتے ھیں. اس ضمن میں اکثر کمنٹس میں خود اپنی بیوی کو خوش قسمت قرار دیتے بھی پائے گئے ھیں........ ستم یہ کہ موصوف کو اپنی خود کی فوٹو گرافی کا جنون کی حد تک شوق ھے. اپنی تصویر بنوانے کا کوئی لمحہ ضائع نہیں کرتے، جبھی فیس بک پر ان کی دفتری اوقات کے دوران لی گئی پروفیشنل تصاویر سے لے کر بارش میں بھیگے ہوئے بدن والی تصویریں تک موجود ھیں. چلو مانا بھئی کہ بندہ کسی لطیف جذبے کے زیر اثر اپنی خود کی تصویر فیس بک پر لگانے کا حق رکھتا ھے. لیکن یہ محترم نجانے اپنے حسن کو لے کر کس شبے کا شکار ھیں جو اپنی تصویروں میں اپنے ھمراہ ایسے ایسے حبشی نژاد افریقن حضرات کو لا کھڑا کرتے ھیں، جن کے ساتھ کھڑے ھو کر کوئی بھی خوامخواہ ہی زائد از ضرورت خوبصورت لگنے لگے....... اس پر دبئی کی تپتی دھوپ میں انکا رنگ ایسا سنہری گورا کہ خواتین تک ان کی فوٹو دیکھ دیکھ کر حسد میں مبتلا ھوتی رھتی ھیں. اکثر تو جل کر پوچھ بھی لیتی ھیں کہ "پائن !! تُسی ایڈے گورے کِنج ھو گئے؟" مجال ھے جو اس سوال پر ایک فیصد بھی کونفیوز ھوں، فورا بڑی ڈھٹائی سے جواب دیتے ھیں: ___"او میرے نانکے بٹ ہوندے نیں ناں .... ایس لئی"____ انکے اس جواب پر بیچارے بٹوں کی جو حالت زار ھوتی ھے، اسکو تو یہ دیکھنا بھی گوارا نہیں کرتے کہ موصوف اپنے کسی بھی جواب کے فورا بعد کالا چشمہ پہن کر ارد گرد کے جہان سے غافل ھو جاتے ھیں.

خدا نے ذھانت سے بھی خوب نوازا ھے. ادبی محافل میں اقبال ، فراز اور ن م راشد کی شاعری میں چھپے فلسفے ببانگ دُہل یوں بیان کرتے ھیں کہ ان تینوں شعراء کی روحیں بھی عالم ارواح میں انگشت بدنداں ھوتی ھیں کہ یہ باتیں تو انہوں نے بھی وہ اشعار لکھتے ہوئے نہ سوچی تھیں...... حافظہ کمال کا پایا ھے (کاش اپنا پایا ھوتا) .... جناب کو اتنی نظمیں اور اشعار زبانی یاد ھیں کہ شرطیہ یہی وہ فردِ واحد ھے، جو بیت بازی میں فضا رحمان صاحب کو مقابلے کی ٹکر دے سکتا ھے.
کھانے کے اتنے ہی دشمن ھیں، جتنا کہ توصیف احمد ...... فرق صرف یہ ھے کہ توصیف صاحب غذائی دھشت گردی سے دشمن کا قلعہ قمع کرتے ھیں اور حرف راز وقتِ طعام اپنی فوٹوز فیس بک پر شیئر کر کے...... جو بھی ڈش زندگی میں ایک بار کھا لی، وہ ان کی فیورٹ قرار پائی، جبھی پسندیدہ کھانوں کی تعداد 6 درجن کے لگ بھگ ھے.

آرٹ کے رسیا ھیں، خصوصا موسیقی میں کے ایل سہگل سے لے کر جسٹن بیئبر تک کوئی بھی ان کی سماعت کو چھوۓ بغیر نہیں گزر سکا. بہت سے گلوکاروں اور شعراء سے بالمشافہ ملاقات کا شرف بھی حاصل کر چکے. میوزک کی اتنی زیادہ سمجھ بوجھ رکھتے ھیں کہ محمد رفیع تک کے گانے میں غلطیاں ڈھونڈ لیتے ھیں. اردو گروپ میں میری پوسٹ کی ہوئی آڈیو غزلوں پر سب سے پہلا لائک اور کمنٹ انہی کا ھوتا تھا. کسی بھی گانے کے اسرار و رموز کی جانکاری رکھتے ہوئے یوں تنقید کرتے ھیں کہ گمان گزرتا ھے کہ کسی میوزکل ریالٹی شو میں جج کے فرائض نبھا رھے ھیں. اپنے چند احباب میں اکثر "اَنو ملک" کے نام سے بھی جانے جاتے ھیں.

لیکن حرف راز کی جو خوبیاں انکی سبھی خوبیوں سے ممتاز ھیں وہ یہ کہ ایک تو حد درجہ جینوئن اور مخلص شخص ھیں، اور دوسرے انتہائی مثبت اور زندہ دل انسان ھیں. ایک سال سے زائد عرصے سے ان کو نوٹس کر رھا ہوں، کبھی انکو کوئی اختلافی کمنٹ یا کسی کی دل آزاری کرتے نہیں پایا، کبھی بھی انکو کسی سے نفرت میں مبتلا محسوس نہیں کیا ..... (شعراء سے معزرت کے ساتھ) حرف راز کے لئے میں نے خود ایک شعر لکھا ھے:
علم رکھتے ہوئے بھی کبھی علم بگھارا نہیں
اس نے بُھول سے بھی کسی کا کچھ بگاڑا نہیں

ھم سب تو فیس بک پر اپنی ذات کے لئے آتے ھیں لیکن حرف راز ہمارے لئے آتے ھیں. کبھی کبھی تو صرف ہمیں ہنسانے اور چمکارنے کو آن لائن آ جاتے ھیں. اردو فیملی میں حرف راز کی کیا افادیت ھے اور ان کا کیا درجہ ھے اسکا ابھی ہمیں ادراک نہیں اور ھم اندازہ کر بھی نہیں سکتے کیونکہ جس بشر کی ہر ہر حرکت کا مقصد فقط دوسروں کی چند لمحوں کی مسکان ھو اسکا مرتبہ دوسرے بشر مقرر نہیں کرسکتے.

0 comments:

لبرل اور کنزرویٹیو سوچ

10:25 PM 0 Comments

 میرا اپنا ذاتی خیال ھے کہ لبرل یا کونزرویٹیو طرزِفکر کو ہمیشہ مذھب سے جوڑ دینے کی کوئی ضرورت نہیں. یہ ایک انسانی اندازِفکر ھے، جو کسی بھی انسان کی زندگی کے کسی بھی شعبے مثلا انٹرٹینمنٹ، سپورٹس، فکشن، فلسفہ، سفر، کاروبار، صحت، فوڈ، لباس حتی کہ مذھب میں بھی اور تقریبا روز مرہ کی زندگی میں درپیش ھر ھر معاملے میں کسی بھی انسان کے فیصلوں اور ایکشنز سے واضح ھوتا ھے.

ظاہر ھے ہر انسانی سوچ کے پس پردہ اسکا ایک بیک گراؤنڈ ھوتا ھے، جس کی حقیقت سے انکار ممکن نہیں. یہ مکمل طور پر کسی بھی انسان کی ذاتی ترجیح ھے. کہ وہ کس معاملے میں کیسا طرزِفکر رکھتا ھے.

میرا یہ بھی ماننا ھے کہ کوئی بھی مکمل کنزرویٹو یا مکمل لبرل کبھی نہیں ھوتا، ہر انسان مختلف شعبوں میں ان دونوں طرح کے اندازِفکر کا مجموعہ ھوتا ھے. کبھی لبرل چوائس فائندہ مند رہتی ھے اور کبھی کونزرویٹیو.

میں اپنی بات کروں، تو میرے دوست مجھے کونزرویٹیو خیال کرتے ھیں، اور میری فیملی مجھے لبرل سمجھتی ھے. جبکہ میرا اپنا خیال ھے کہ میں 70 فیصد کنزرویٹیو اور 30 فیصد لبرل ھوں.

  •  پرسنل پریفرینس (ذاتی ترجیج) کیا ھوتی ھے؟
یہ بالکل ویسے ہی ھے جیسے آپ کبھی پیاسے ھوں، اور آپ کے سامنے پانی کے بھرے تین گلاس پڑے ھوں، ایک شیشے کا دوسرا مٹی کا اور تیسرا سٹیل کا _____ اور یہ مکمل طور پر آپ کی ذاتی ترجیح ھو گی کہ آپ ہاتھ بڑھا کر کونسے گلاس سے پانی پیتے ھیں. لیکن اس لمحے شعوری یا پھر لاشعوری طور پر کوئی نہ کوئی سوچ آپ کے ذہن میں کارفرما ضرور ھو گی

ھو سکتا ھے کہ آپ مٹی کا گلاس اٹھائیں اور دل میں یہ سوچ ھو کہ چونکہ میرے آباؤ اجداد یا ہمارے پیارے نبی (ﷺ) نے مٹی کے برتن میں پانی پیا ھو گا________ ھو سکتا ھے شیشے کا گلاس اٹھاتے ہوئے آپکی یہ سوچ ھو، کہ شفاف پانی نظر آ رھا ھے یقینا جراثیم اور گندگی نہیں ھو گی اس گلاس میں.._______ یا ھو سکتا ھے کہ آپ سٹیل کا گلاس اٹھائیں کیونکہ آپ کو ذاتی طور پر دھاتی برتن میں پانی پی کر فرحت کا احساس ھوتا ھے.

یہ کسی بھی معاملے میں ہر انسان کی پرسنل پریفرینس ھے. چونکہ ہمارے مذھب نے ہمیں کسی ایک خاص طرح کے میٹیریل کے بنے برتن سے پانی پینے کے لئے باؤنڈ نہیں کیا، اس لئے اس معاملے میں مذھب کو لانا کم عقلی ھو گی.

0 comments:

کسی پر کس حد تک کُھلنا چاہئے؟

10:38 PM 0 Comments

کتاب اتنی ہی کھولنی چاہئے، جنتی کوئی پڑھنے کی طلب اور سکت رکھتا ھے

سکت:
ھر بندھن میں بندھے اشخاص کی اپنے شخصیت کے زیر_اثر ایک حد مقرر ھوتی ھے اور وہ حد آپ کو تب ہی پتا چلتی ھے، جب آپ اسکے ساتھ کسی نہ کسی رشتے میں منسلک ہوتے ھیں. آپکے ساتھ چلتے چلتے جو شخص کسی سٹیج پر آپ کے قیمتی راز یا آپکی کمزوریاں مزید اپنے تک سنبھال کے نہ رکھ پائے، تو سمجھو کہ اس کی سکت اتنی ہی تھی. اگلے مرحلوں کے لئے آپ ھوشیار ھو جائیں گے. کبھی بھی کسی سے آغاز میں ہی سب کچھ شیئر نہ کریں. اس کو کھلنے کا موقع دیں.

طلب:
طلب کا اندازہ دوسرے شخص کی جانب سے ملنے والے سگنلز، اشتہا ، تجسس اور اھمیت دیئے جانے کے مواقعوں سے ھو جاتا ھے. طلب اور رسد (ڈیمانڈ اینڈ سپلائی) میں بیلنس نہ ھو تو آپ دوسرے شخص کے لئے بے وقعت ھو جاتے ھیں. اگر آپ سے یہ اندازہ کرنے میں غلطی ھو جائے تو سراسر آپ ہی قصور وار ھیں، دوسرا شخص نہیں .... کیونکہ جذباتی تعلقات میں دھوکہ دینے والا نہیں، بلکہ دھوکہ کھانے والا ہی مجرم ھے. اور سزا بھی اسی کو ملتی ھے.


ایسا ھے کہ کچھ بے صبرے لوگ ناول خریدتے ہیں اور ابتدائی صفحات کے بعد فورا اچھی یا بری رائے قائم کرنے کو ناول کا اختتام پڑھنے کے لئے آخری صفحوں کا رخ کرتے ھیں.. دراصل ایسے لوگوں میں وہ کتاب پڑھنے کی سکت ھوتی ھے اور نہ ہی طلب ....... مطلب وہ کتاب درحقیقت ان لوگوں کے لئے ھوتی ہی نہیںمزے کی بات کہ ایسے لوگ کے لئے کتاب پڑھنے کا مقصد:"just for the sake of reading that book"ھوتا ھے. وہ لوگ محفلوں میں اس کتاب کو اپنی فیورٹ کتاب بھی ڈکلئیر کرتے پائے جاتے ھیں، اس پر رائے دیتے ہیں. تبصرے بھی کرتے ھیں. لیکن وہ کہانی کے تمام اتار چڑھاؤ اور حالات و واقعات سے وہ نابلد ہی ھوتے ھیں..بچپن میں ہمارے سکول کی کتابوں پر لکھا ھوتا تھا: "کتاب بہترین ساتھی ھے، اسے پیار کیجئے، اسے ضائع ہونے سے بچایئے"میرے نزدیک کتاب لائبریری میں بیکار پڑے رھنے سے ضائع نہیں ھوتی، بلکہ کتاب غلط بندے کے ہاتھ میں جانے سے ضائع ھوتی ھے. جب بہت سے لوگوں کے پڑھ لینے کے بعد بھی کتاب کا مقصد فوت ہی رھے، تو سمجھو کتاب ضائع ھو گئی. اس لئے میری کتاب کے باہر لکھا ھو گا: "اس کتاب کو غلط ھاتھوں میں جانے سے بچایئے"

---
26 اپریل 2014

0 comments:

سارہ رخسار

12:04 AM 0 Comments

خاکہ نگاری کا مقابلہ شروع ہوا تو دل میں سوچا "خرّم میاں !! آسان کام تو سبھی کر لیتے ھیں، مقابلہ اگر جیتنا ھے تو کوئی مشکل اور انہونا کام کرڈالو. تمام ممبران اپنے دوستوں کا خاکہ لکھ رھے، ایسے میں کچھ مختلف اور مشکل  کرنے کی چاہ میں اپنے دشمن کا خاکہ لکھ ڈالو."  دشمن کا نام آتے ہی فیس بک پر اپنی واحد اور اکلوتی دشمن کا نام ہی میرے ذہن میں ابھرا .... سارہ رخسار ..... دل تو بالکل نہیں چاہ رھا تھا کہ کسی بھی طرح اپنے دشمن کی مقبولیت کا باعث بنوں لیکن مرتا کیا نہ کرتا، آخر مقابلہ جیتنے کی چاہ جو تھی، تو انتہائی مجبوری کے عالم میں محترمہ سارہ رخسار کے خاکے کا آغاز کیا.

 لیکن محترمہ نے اسقدر  خشک ، ڈیپریسنگ اور کسی بھی قسم کے لطیف جذبات سے مکمل طور پر عاری طبیعت پائی ھے کہ تین دن سے ان پر اک مذاقیہ خاکہ لکھنے کی کوشش کر رھا ہوں..... مجال ھے کہ کوئی ایک بھی شگفتہ لائن سارہ کو سوچ کر دماغ میں آئی ھو. الٹا دماغ کے کونوں کھدروں میں دوسرے دوستوں کے خاکوں کے لئے جو کچھ اچھا اچھا سوچ رکھا تھا، اسکو بھی سمجھو زنگ لگ گیا ھو. اب تو خدا سے یہی دعا ھے کہ یا تو یہ ادھورا خاکہ مکمل کر دے ... یا پھر ادھوری سارہ کو پورا کر دے.

  سارہ ہر لحاظ سے ایک گھمنڈی. جھگڑالو اور اکھڑ لڑکی ھے. مردوں کی عزت کرنا تو اس نے شائد سیکھا ہی نہیں. اور لڑکیوں سے اس کی بنتی نہیں. صحیح معنوں میں بِھڑوں کا چھتہ ھے، کسی بھی لمحے کسی سے بھی جھگڑا مول لے سکتی ھے. لانگ ٹرم دشمنی قائم رکھ سکتی ھے....... سکاٹ لینڈ میں رہنے کے باوجود رَج کے پینڈو واقع ہوئی ھے. اپنے اس احساس کو اپنے چہرے پر بھاری بھرکم میک اپ کی تہیں لگا کر دور کرنے کی کوشش کرتی ھے،   وہاں کی کرنسی پاؤنڈز میں کوئی بھی خرچہ کرنے سے پہلے حساب لگاتی ھے کہ یہ کتنے پاکستانی روپے بنتے ھیں. اچھی طرح تسلی کر لینے کے بعد پھر خرچہ پاؤنڈز میں ہی کرتی ھے.  ٹھنڈے ملک میں رہ کر دماغ پر برف کی تہہ جم چکی، اس کے تمام جمالیاتی احساسات منجمد اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سُن ھو کر رہ گئی ھے. عجیب مخمصوں اور مصلحتوں کا شکار ھو کر خود کو کومپلیکیٹ بنانے کی کوششوں میں چار سال تک اپنی   شادی کو فیس بک کے دوستوں سے چھپائے رکھا، حالانکہ ارینجڈ میرج تھی.

  سارہ رخسار مجھے ایک آنکھ نہ بھانے کے باوجود بھی ہر لحاظ سے اک جینوئن شخصیت لگتی ھے، اس کی نفرت بھی  سراسر خالص ھے اور میرے نزدیک یہ بھی ایک پلس پوائنٹ ھے. انتہائی محب وطن ھے، پاکستان کی خاطر کسی سے بھی لڑ پڑے گی. تمام خامیوں کے باوجود دل کی تھوڑی سی اچھی بھی ھے،  اس لئے اس کو دل سے دور کرنا مشکل ھے... کیا کریں مجبوری ھے ایسے ایسے لوگوں کے ساتھ بھی گزارا کرنا پڑے گا صد شکر کے وہ اس خاکے کا جوابی حملہ خاکے کی شکل میں نہیں دے سکتی کیونکہ اگر خدا نے سارہ کو لکھنے کے فن سے آشنا کر رکھا ھوتا تو سوشل میڈیا پر کئی طوفان برپا ھو سکتے تھے

---
اپریل 2014

0 comments:

کیا لٹریچر کسی کی سوچ اچھی بنا سکتا ھے؟

1:28 AM 0 Comments

میں نے آج تک لٹریچر کی بدولت کسی کی سوچ بدلتے نہیں دیکھی. انسان مجموعی حثییت میں ویسا ہی رہتا ھے. یہی وجہ ھے کہ آپ کو ادباء میں بھی ہر رنگ کے نمونے مل جایئں گے. جن لوگوں کا لکھا لٹیرجر ہم پڑھ کر اپنی شخصیت سنوارنے کی بات کر رھے ہیں ، پہلے ان لکھنے والوں کی اپنی شخصیات کی صف بندی تو ذرا کیجئے.ہر طرح کی ورائٹی دستیاب ہے لٹریچر لکھنے والوں میں ہی. 

حسد کرنے والے بھی، پیار کرنے والے بھی، ٹانگ کھینچنے والے بھی، جلتی پر تیل ڈالنے والے بھی، لالچی بھی، سخی بھی، جھوٹے لوگ، سچے لوگ ، نفسیاتی الجھنوں کا شکار بھی، لبرل بھی، کنزرویٹیو بھی، دھڑے بندیاں کرنے والے بھی اور سب کو جوڑ کر مل ملا کر چلنے والے بھی، مزاروں اور صوفی بزرگوں کے پیچھے جانے والے بھی، اور صوفی ازم سے انکاری بھی، دوست بھی، دشمن بھی، مغرور بھی، مسجود بھی، نشے میں چور شرابی بھی اور زانی بھی، حاجی بھی اور دھریئے بھی....

جناب نہ ادب کی کوئی حد ھے اور نہ ہی ان ادیبوں کی رنگ برنگی ورائٹیوں کی کوئی کمی ھے.

تو جب ان پڑھ لوگوں میں بھی انہی تمام خصلتوں کے لوگ پائے جاتے ہیں، درمیانے درجے کے پڑھے لکھے لوگوں میں بھی اوپر بیان کی گئی تمام ورائٹیاں پائی جاتی ہیں اور بلند پایہ اعلی ادب پڑھنے اور لکھنے والے بھی انہی شخصیات میں بٹے نظر آتے ہیں. تو میرا نہیں خیال کہ یہ دنیاوی علم اور فکشن کسی کی بنیادی شخصیت میں رتی بھر بھی تبدیلی کا باعث بنتا ھے..... ہاں مختلف معاملات میں نالج ضرور بڑھتا ھے، انسان کو مختلف موضوعات پر چپڑ چپڑ باتیں ضرور کرنا آ جاتی ہیں. لیکن جب میں خود بلند پایہ ادبی لوگوں کو گری پڑی حرکتیں کرتا دیکھتا ہوں، تو میرا یقین اور پختہ ہو جاتا ھے، کہ یہ دنیاوی تعلیم درحقیقت انسانی خصلت کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی. یہ انسان کی اپنی زندگی کے پے درپے حالات و واقعات ہی ہیں، وہ ذاتی زندگی میں درپیش تجربہ و مشاہدہ، ٹھوکریں اور تھپکیاں، دوستیاں اور دشمنیاں، بوسے اور گالیاں ہی ہیں، جو آپ کی شخصیت بناتی ہیں.

"میں" وہ نہیں ہوں، جو میرے ہاتھ میں پکڑی کتابوں میں لکھا ھے، بلکہ میرے چہرے کے اک اک زخم اور جھریوں سے مل کر "میں" بنا ہوں


 کیا علم و ادب کی باتیں کر لینا، مختلف مضوعات پر چرب زبانی کر لینا، لمبی لمبی اور گہری گہری باتیں کر لینا، فلسفے بگھار لینا ہی شخصیت میں بہتری کی علامات سمجھی جاتی ہیں؟ اگر ایک صاحب_مطالعہ شخص بھی اپنی ذاتی زندگی میں کوئی بہتر کردار ادا کرتا نظر نہیں آتا، اور ایک ان پڑھ شخص انہی معاملات کو زیادہ بہتر انداز میں نبھاتا نظر آئے، تو شخصیت پر مطالعے کے اثرات کہاں ہیں؟ 

کیا لٹریچر صرف "دل کے خوش رکھنے کو غالب یہ خیال اچھا ھے" والا کام نہیں کرتا؟؟؟ کیا یہ اثرات صرف ذاتی تسکین کی حد تک نہیں ہیں؟ کیا مطالعہ کے بعد ایک شخص اپنی ازدواجی زندگی میں ایک ان پڑھ کی نسبت زیادہ بہتر شوھر ثابت ہو جاتا ھے؟ کیا صاحب_مطالعہ لوگ اپنے والدین کی زیادہ بہتر خدمت کرتے ہیں؟ کیا صاحب_مطالعہ لوگوں میں جذبہ حب الوطنی ان پڑھ لوگوں سے بڑھ جاتا ھے؟ کیا کتابیں پڑھ لینے سے انسان تمام ذاتی برائیوں سے دور ہو جاتے ہیں؟ شخصیت کا نکھار کہاں ھے؟


 جناب، میں تو اس اثر کو "انتہائی مختصر" یا پھر بےاثر کہوں گا. بلکہ منفی اثرات کہنا چاہئے. کیونکہ ادب کا لبادہ اوڑھ کر انسان اپنی اصل شخصیت کو چھپائے لوگوں کو بہتر ڈاج کرنا شروع کر دیتا ھے. یہ علم و ادب اور فلسفے کا wrapper انسان کو کم سٹریٹ فارورڈ، زیادہ ڈپلومیٹک اور انتہائی مخفی بنا ڈالتا ھے. مگر بحثیت_مجموعی، مختلف معاملات میں اس کی مثبت و منفی کردار پر کوئی خاص فرق نہیں پڑتا.

اشفاق احمد صاحب اپنی تحریروں میں جن بابوں کا ذکر کرتے ہیں، انہوں نے کتنی کتابیں پڑھ رکھی ہوتی ہیں؟ اور بانو قدسیہ کا راجہ گدھ پڑھ کر کتنے قاری ہیں جنہوں نے ذاتی زندگی میں حلال و حرام کو صحیح معنوں میں امپلیمنٹ کر ڈالا ھو؟ یہ لٹریچر کا شوق دراصل صرف اور صرف مطالعہ کی حد تک اپنے نفس کی تسکین اور ادبی محافل میں بڑھ چڑھ کر نالج جھاڑنے کی دوڑ ھے، اور کچھ بھی نہیں. اور انسان کی اچھے، برے، مثبت و منفی، نفیس، درد مند، سخی، جارح یا مستقل مزاج رویوں سے ادب کا کچھ بھی لینا دینا نہیں. 

عمران خان نے خود اقرار کیا کہ وہ اپنی مصروف ترین زندگی کے باعث کتب سے دور رہا، تو کیا شوکت خانم جیسے مقصد کے حصول کے لئے اس کو کتابوں کی ضرورت کیوں نہ پڑی؟ عبدالستار ایدھی صاحب بھی فلاحی کاموں میں ایسے جتے کہ کتابوں کی دوڑ سے ہی آگے نکل گئے. راشد منہاس نے اٹھارہ سالہ زندگی میں وہ دانشوروں کا کونسا لٹریچر پڑھ لیا تھا جس نے اسے اپنا طیارہ زمین پر ٹکرا دینے کا حوصلہ دیا؟

میرا تو یہی مشاہدہ ھے کے جتنا پڑھو گے، اتنے ہی آپ کے جذبے خالص پن سے عاری ہوتے جاتے ہیں. لٹریچر پڑھنا ہمیں ہمارے جینوئن پن سے دور کرتا جاتا ھے، ھم دوسروں کی سوچ سوچنا شروع کر دیتے ہیں، دوسروں کی سوچ کو اپناتے اپناتے ہماری اپنی سوچ بھی ہماری نہیں رھتی.


کتابیں پڑھ پڑھ کر سوچ اڈاپٹ کرنا اور پھر اس کا ہر معاملے میں پرچار کرنا ایک الگ چیز ھے اور اپنی اصل شخصیت اور عقآید کو اس اڈاپٹڈ سوچ کے پیچھے چھپائے چھپائے رکھنا ایک الگ چیز. آپ کی اصل سوچ وہ ھے جو آپ کے پریکٹیکل معاملات میں سامنے آتی ھے. دوسری وہ اڈاپٹ کی ہوئی (اکثر اچھی) سوچ جس کے لبادے میں ، ہم اپنے آپ کو لپیٹ کر پیش کرتے ھیں. (اور یہ وہی کتابوں کے زیر_اثر سوچ ہوتی ھے)

مثال کے طور پر میں (کتابوں سے adopt کی ہوئی سوچ کو لے کر) سوشلی اپنے مضامین میں حقوق_نسواں کے متعلق لبرل عقائد کی باتیں کرتا پھروں. لیکن جب میرے اپنے گھر کی خواتین کو وہی آزادی درکار ھو تو میں قدامت پسند رویہ ہی ظاہر کرتے ہوئے کچھ مختلف اقدام کروں. اس سے میری ڈپلومیٹک پروان چڑھی ہوئی شخصیت سامنے آئے گی (یعنی ظاہرا میں جس مرضی سوچ کا اظہار کروں، لیکن اندر سے میں رھوں گا ایک قدامت پسند انسان ہی) .... اگر آپ نظر دوڑائیں ہمارے معاشرے میں یہی چیز وافر مقدار میں ہو رہی ھے، کیونکہ لوگوں کی اپنی شخصیت، عقل اور عقائد کے مابین ہی مڈبھیڑ جاری ھے. جیسے جیسے انسان علم حاصل کرتا جاتا ھے، شخصیت کا یہ دوغلا پن بڑھتا ہی جاتا ھے.

پڑھ پڑھ علم تے فاضل ھوییں تے کدے اپنے آپ نوں پڑھیا نھیں
بھج بھج وڑناں اے مندر مسیتی تے کدے من اپنے وچ وڑیا نھیں
لڑنا روز شیطان دے نال تے کدے نفس اپنے نال لڑیا نھیں
بلھے شاہ آسمانی اڈدیاں پھڑو نھیں، جیہڑا گھر بیٹھا اوہنوں پھڑیا نھیں

0 comments:

عمران قاضی

10:43 PM 0 Comments

عمران قاضی کا تعلق ہانگ کانگ سے ھے. وہیں پیدا ہوئے، نوجوانی میں تعلیم کی غرض سے پاکستان آئے، اور پھر بیاہ کر واپس ہانگ کانگ چلے گئے. اب وہیں زندگی کا سفر جاری رکھے ہوئے ھیں. شعبہ تدریس سے منسلک ھیں.  ہماری ابھی تک ملاقات نہیں ہوئی، لیکن بس میرا اور عمران قاضی کا ایک غائبانہ کونیکشن ھے، عمران قاضی کو شائد محسوس نہ ھوتا ھو. لیکن اتنی عادت ھو گئی ھے اس شخص کی ..... جیسے ان کی فیس بک کی نپی تلی لائف اب اپنی لائف میں بھی فِٹ ھو چکی ھو .... سب پتا ھے عمران قاضی کی روٹین، ..... اس وقت سو رھے ھیں، اس وقت جاگ رھے ھیں.... کس وقت اپنے سکول میں ہوتے ہیں، ... کس وقت موبائل فون پر آن لائن ہوتے ھیں. کس وقت گھر کے کمپیوٹر پر بیٹھے ہوئے ھیں .........دن کے کس حصے میں وہ رومن میں کمنٹ لکھتے ھیں .... کس وقت اردو رسم الخط میں لکھیں گے. کس وقت سرسری جواب دیتے ھیں. کس وقت مفصل بات کرنے کا موڈ ھوتا ھے. ان کے کھانا کھانے کا وقت بھی .... اور ان کی باتیں.... جیسے سب کچھ پہلے ہی سے مجھے پتا ھے، لیکن پھر بھی انکے ھر ھر کومنٹ میں میرے لئے نئے پن کا احساس. کسی بھی موضوع پر پہلے ہی سے اندازہ ھوتا ھے عمران قاضی کتنا بولیں گے، کیا بولیں گے ........... ان کو کیا بات پسند آئے گی .. کیا پسند نہیں آئے گی..... کس ایشو پر جذباتی ھو سکتے ھیں. کس معاملے کو اگنور کرنے کی صلاحیت رکھتے ھیں ............. ایسے لگتا ھے عمران قاضی کا سارا انفارمیشن پروگرام مجھ میں فیڈ ھو چکا ھے

-
١٩ مارچ 2014

0 comments:

میچوریٹی

10:22 AM 0 Comments


جب آپ کو خود پر اتنا کنٹرول ہو جائے کہ کسی موقع کی مناسبت اور ماحول دیکھتے ہوئے سے بات اور ردعمل ظاہر کریں یا ردعمل ظاہر کرنے سے رک سکیں. جب آپ کسی کی غلط بات کو اس کا معیارِ گفتگو سمجھ کر نظر انداز کرنے لگ جائیں، تو سمجھیں آپ میچور ھو گئے ھیں.

 میچوریٹی ایک صلاحیت ہے، جو کتابوں اور سکولوں سے حاصل نہیں ہو سکتی. میچوریٹی کوئی ایک محدود باؤنڈری والا دائرہ یا سکوپ ہرگز نہیں ھے، جس میں اک انسان اپنی صلاحیتوں کے باعث موجود ہو ، بلکہ ایک ہی انسان کے اندر مختلف معاملات میں میچوریٹی کے مختلف لیولز پائے جاتے ھیں. اس لئے عین ممکن ھے کہ ایک گھاگ اور میچور بزنس مین جذباتی رشتوں کے معاملوں میں یکسر اِمییچور طرزِعمل ظاہر کر دے، اور ایک میچور انجینئیر ھو سکتا ھے اپنے شعبے میں تو بہت میچور فیصلے کرتا ھو، مگر کورٹ کچہری کے معاملات میں امییچورٹی کا ثبوت دیتا نظر آئے. جس انسان کا کسی خاص فیلڈ میں جتنا تجربہ بڑھتا جاتا ھے، اور کسی متعلقہ شعبے میں اس نے جتنے اچھے برے حالات کا سامنا کیا ھو، اتنا ہی وہ اس فیلڈ میں میچور ہوتا چلا جاتا ھے.

 میچوریٹی ایک رویے کا نام ہے. اس رویے کا اس شخص کے فیصلوں کے نتائج سے براہ راست کوئی تعلق نہیں ھوتا. ضروری نہیں کہ میچور شخص کی ہر بات اور فیصلہ درست ثابت ہو

0 comments:

اطمینان کا لیول

10:57 AM 0 Comments

میرا ایک دوست انتہائی سادہ ھے، اس کو فاسٹ فوڈ وغیرہ بالکل پسند نہیں، اور نہ ہی وہ کبھی ان پر پیسا برباد کرتا ھے ......اس کے پاس پیسے کی کمی نہیں،لیکن بس اسکا لائف سٹائل انتہائی سادہ ھے ،اور اس بات سے میں اکثر اختلاف رکھا کرتا تھا ____ کہ یار کچھ تو اپنی ذات پر خرچ کیا کرو.  میں نے اتنے سالوں میں بہت کوشش کی کہ اس کو سمجھا سکوں کہ اے دیوانے دوست... کاش تم سمجھ سکو  کہ پیزا کتنے مزے کی ڈش ھے. مگر میں اسے قائل کرنے میں ناکام ہی رھا ______ وہ اپنی سادگی میں پیزا کھائے اور پسند کئے بغیر ہی اتنا مطمئن ھے _____ کہ کبھی کبھی مجھے اس کی سادگی اور اطمینان سے جلن ھونے لگتی ھے. .... جب اسکی روح ایک لگژری کئے بغیر ہی اتنی مطمئن ھے، اور میں وہ لگژری کر کے بھی اس قدر سکون میں نہیں، تو شاید میں ہی غلط ہوں.... ھم کسی پر اپنی سوچ اور اپنا آئیڈیل لائف سٹائل تھوپ نہیں سکتے. جو جیسے خوش اور پرسکون ھے اسکو ویسے ہی رہنے دینا چاہئے.

 ضروری تو نہیں کہ جس انداز کو آپ حاصل_زندگی سمجھ رھے ھوں، وہی اصل حقیقت ھو. ہر انسان کا پیمانہ فرق ھے، دیکھنے والی آنکھ اور محسوس کرنے والا دل فرق ھے. اور سب سے بڑھ کر ہر انسان کے ٹارگٹس فرق ھیں. جب ہر انسان کا  مطمئن ہونے کا لیول ہی فرق ھے تو ھم فیصلہ نہیں کر سکتے کہ کس کی روح اسکی موجودہ زندگی سے کس قدر سکھی اور شاد ھے.

0 comments:

بنیاد پرست

10:54 AM 0 Comments

کافی سال پہلے میں بالاکوٹ گیا، اور ایڈونچر کرتے کرتے ھم دوست پہاڑیوں پر چڑھتے گئے اور ادھر مشکل ترین پہاڑی رستوں پر آباد اکا دکا گھروں پر مشتمل گاؤں دیکھے تو بہت حیرت ہوئی کہ یہ لوگ اکیلے آبادی سے دور اتنی مشکل جگہ پر کیوں رہائش پزیر ھیں.  اپنی ہر چھوٹی موٹی ضرورت کے لئے انہیں پہاڑ سے نیچے شہر کو آنا پڑتا تھا ..... وہ لوگ نیچے وادی میں بسے شہر میں بھی تو گھر بنا سکتے تھے، __________ اپنی اسی سوچ کا اظہار میں نے ادھر گاؤں کے ایک بزرگ سے کیا تو انہوں نے مجھے اپنے گھر سے ملحقہ کچھ قبریں دکھائیں، اور بتایا کہ یہ میرے پردادا کی قبر ھے، یہ میرے دادا کی، یہ میرے باپ کی قبر ھے ......... اور ساتھ ہی پڑی خالی جگہ کی طرف اشارہ کر کے فخریہ انداز میں بتایا کہ____ "یہاں میری قبر ھو گی" ____________ اس دن مجھے سمجھ لگی کہ لفظ "بنیاد پرست" کا مطلب کیا ھوتا ھے. اس بزرگ نے شائد مجھ سے زیادہ ہی پرسکون اور اطمینان بخش زندگی گزاری ھو گی. تو میں کون ھوتا ہوں اپنی سوچ اور جدت اس پر تھوپنے والا.

0 comments:

خود ساختہ دُکھ

11:55 PM 0 Comments

آج خود ساختہ دکھوں والی بات کی تشریح کرنا چاہتا ھوں. دکھ تو ہر کسی کی زندگی میں ہوتے ہی ہیں. اس سے انکار نہیں. لیکن خود ساختہ دکھ بھی بہت بڑی حقیقت ہیں. ایسے لوگوں کی تعداد بھی کم نہیں.یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جن کی اصل زندگی دوسروں کے مقابلے میں نسبتا بہتر ہی ہوتی ھے، بظاہر کوئی مسئلہ ہوتا نہیں. لیکن وہ اپنے آپ کو نارمل زون میں رکھنے کے لئے اپنے آپ کو ان مسائل کا شکار کر لیتے ہیں. یہ اصل میں دو مسائل ہیں. یا دو مراحل کہہ لیں.

1 - پہلے مرحلے پر انسان شعوری یا لاشعوری طور پر ایسے دکھوں اور ٹینشنوں کو سوچنا شروع کر دیتا ہے، جن کی سر درد لئے بغیر بھی اسکے عمومی معاملات خاصے بہتر ہی چل رھے ہوتے ہیں ... مگر وہ خوامخواہ کے غم اپنی شخصیت سے منسوب کر کے اپنے آپ کو دوسروں کی نسبت زیادہ دکھی اور مظلوم محسوس کرنا شروع کر دیتا ہے.لاشعوری طور پر ایسا کرنے کا ایک محرک یہ بھی ہوتا ہے کے اسے لگنے لگتا ہے کہ اس کا تجربہ دوسروں کے مقابلے میں بہت زیادہ وسیع اور جذباتی معاملات میں اسکا ویژن بھی بہت زیادہ براڈ ہو گیا ہے. ایسے ہی میں کچھ لوگ اپنے آپ پر رحم کر کے خوش ہونا شروع ہو جاتے ھیں. اسی میں سکون محسوس کرنے لگتے ھیں. انھیں خود ترسی کا نشہ ہو جاتا ہے. پھر ایک وقت آتا ہے کہ خودساختہ کچھ نہیں رہتا، یہ فیکٹس ان کی زندگی اور شخصیت میں سیمنٹ کی طرح پکے ہو جاتے ھیں. 

2 - دوسرے مرحلے پر یہ لوگ اپنی ان دکھی کیفیات کو دوسرے لوگوں سے شیئر کر کے مزہ لیتے ہیں. ان کے غم سوشل ہو جاتے ہیں. اکثر و بیشتر باتوں میں دکھ کی شدت کم زیادہ کرنے کے لئے کچھ مصالحہ شامل کرنا پڑے تو وہ بھی کر لیتے ہیں. کمیونیٹیز اور حلقہ احباب میں لوگ ان کے غم اور مسائل کو ڈسکس کرتے نظر آتے ہیں. جو لوگ زیادہ ہمدردی، تسلی اور دردمندی کریں، انکے لئے آنسو بہائیں. انکو بیسٹ فرینڈز ہونے کا درجہ عنایت ہو جاتا ہے. سوشلی اپنے درد و غم کا اظہار ان کے کتھارسس کا حصہ بن جاتا ہے. انہی میں سے کچھ حد تک optimistic لوگ فنکار ، ادیب اور خصوصا شاعر بھی بن جاتے ہیں. اور نام و شہرت بھی کما لیتے ہیں.... اور باقی کے لوگ اپنے ہاتھ اپنا گلا گھونٹنے کی پوزیشن میں رکھتے ہوئے، رو دھو کر حبس زدہ ناشکری کی زندگی گزارتے رہتے ہیں. لیکن نہ یہ اپنا گلا گھونٹتے ہیں. نہ رونا بند کرتے ہیں. 
اور نہ ہی واویلا.

-
21 فروری 2014

0 comments:

بیوفائی

12:08 AM 0 Comments

میری رشتوں کی ڈکشنری میں بیوفائی، دھوکہ، جفا جیسے الفاظ موجود ہی نہیں ہیں. جذباتی رشتوں کو لے کر زیادہ تر لوگ مثبت ہی ہوتے ہیں، مثبت سوچنا چاہتے ہیں، مثبت طریقے سے ہی جینا چاہتے ہیں. میرا ماننا ھے کہ جذباتی تعلقات میں کوئی کسی کو دھوکہ نہیں دیتا، اگر دیتا ھے تو وہ انسان خود اپنے آپ کو کسی وقت میں دھوکہ دے رھا ھوتا ھے. ضرورت سے زیادہ سوچ کر، ضروت سے زیادہ جذباتی اور خوش گمانی میں مبتلا ہو کر _____ رشتے میں دوسرے فریق کی بساط سے بڑھ کر امید کرنا اصل میں خود سے دھوکہ ہے. خود سے بیوفائی ھے. جذباتی رشتے میں دوسرے فریق کو مورد_الزام ٹھہرانا میرے نزدیک کم ظرفی ھے.


ہر کوئی اپنی حدود (Limitations) کی باؤنڈری ...یعنی ایک دائرہ سا اپنے ساتھ لئے پھرتا ھے. مسئلہ تب اٹھتا ھے جب ھم اپنی باؤنڈری کو تو مقدس اور قابل_احترام مانتے ہیں، مگر دوسروں کی باؤنڈریز کو پینسل سے کھینچی لکیر سمجھ کر مٹانے کی کوشش کرتے ہیں.

0 comments: