(صرف مردوں کے لئے)
---------------------------
بیچارے
شوھر کی زندگی اتنی آسان ھرگز نہیں ہوتی، جتنی نظر آتی ھے. کیونکہ ازدواجی
زندگی کے پرپیچ سفر میں صرف اور صرف جذبات سے کام نہیں چلتا، بلکہ اپنے
معاشی، سوشل اور پروفیشنل سٹیٹس سے بالا تر ہو کر کس طرح، ہر اک شوھر کو
روزانہ کی بنیاد پر نفسیات اور مشاھدات سے سیکھنے کے اک ارتقائی عمل سے
گزرنا پڑتا ھے. اور کس طرح ھر شوھر کو اپنے تئیں جینئس بنتے ہوئے روزانہ ہی
کی بنیاد پر انتہائی ہوشیاری اور چالاکی سے کن کن چیلنجز سے نبرد آزما
ہونا پڑتا ھے، یہ تو کوئی شادی شدہ حضرات ہی سے دریافت کرے
ھمارے
کنوارے دوستوں سے جب شادی شدہ زندگی کے مسائل کی لسٹ دریافت کی جاتی ھے تو
اکثر کے خیال میں شادی شدہ شخص کے گھمبیر ترین مسائل میں بیوی کو آئے دن
شاپنگ پر لے جانا، اس کی من مانی خواہشات پر اخراجات، اس کو میکے چھوڑ کر
آنا اور میکے سے واپس بھی لے کر آنا، بیوی کے رشتے داروں کے سامنے اپنے موڈ
اور شخصیت کے برخلاف ایکٹنگ کرتے ہوئے انتہائی حسن_سلوک سے پیش آنا، بچوں
سے متعلقہ ڈھیروں ذمے داریاں اور ایسے ہی کچھ دیگر مسائل شامل ہیں
لیکن
آج ہم اپنے ان کنوارے دوستوں کی سوچ پر پانی پھیرنے جا رہے ہیں، انہیں یہ
بتا کر کہ جناب! مرد اتنا کمزور ہرگز نہیں ہوتا کہ اسقدر باآسانی
تندہی_باد_مخالف سے گھبرا جائے. بیشک ان مندرجہ بالا مسائل کی حقیقت سے
انکار ممکن نہیں، اور وہ سب کام تو شوھر حضرات ہنسی خوشی کر لیتے ہیں. اور
ان مسائل کی شدت تو اصل میں اس تشویش، اس کوفت اور ان ناگہانی کیفیات کے
سامنے کچھ بھی نہیں جو بیوی کی جانب سے شوھر کو وقتا فوقتا پوچھے جانے والے
سوالات پر درپیش ہوتی ھیں. جی ہاں جناب !!! ہر بیوی کی طرف سے پوچھے جانے
والے ایسے ان گنت سوالات ہیں جو سننے میں بہت عام فہم، آسان اور سادہ ترین
لگتے ہیں. لیکن جو ناصرف شوھر حضرات کو بیک وقت تشویش، لاچارگی اور بیچارگی
سے دو چار کر دیتے ہیں بلکہ ان کے متوقع غلط جوابات انکی آنے والے دنوں کی
ازدواجی پریشانیوں کا سبب بھی بنتے ہیں
انہی
سوالات کو لے کر کچھ عرصہ پہلے اک سروے ہوا جس میں پاکستانی بیویوں کی
جانب سے اپنے شوہروں سے پوچھے جانے والے ٹاپ فائیو سوالات اخذ کئے گئے. یہ
سوالات شادی شدہ مردوں کے لئے بالکل بھی نئے نہیں، البتہ کنوارے بھائیوں کے
لئے شائد مضحکہ خیز انکشافات سے کم نہ ہوں، اور خواتین کی جانب سے یہ شائد
صرف تردید ہی کما سکیں. لیکن آئیے آج ہم ان سوالات کو جانتے ہیں اور ان سے
پیدا ہونے والی متوقع صورتحال اور اس سے بچاؤ کی تدابیر پر غور و خوض
فرماتے ہیں
-------------1------------------
پہلا
سوال جو بیویوں کی جانب سے بکثرت پوچھا جاتا ھے وہ ھے: "آپ اس وقت کیا سوچ
رھے ہیں؟" یہ فقرہ پل بھر میں ناصرف شوھر کو اس کے خیالات کی طلسماتی دنیا
سے بیدار کر کے رکھ دیتا ھے، بلکہ اکثر وہ خود بھی سوچنے پر مجبور ہو جاتا
ھے کہ آخر وہ ابھی سوچ کیا رہا تھا؟
حضرات!
اس سوال کو آسان ہرگز مت سمجھئے. وہ دوست جو اپنی سادہ لوحی کے باعث اس
سوال کا درست جواب دینے کی کوشش کرتے ہیں، اکثر نقصان اٹھاتے ہیں. آپ کے
ذھن میں اس وقت کیا چل رھا ھے. یا آپ کی لمحہ بھر پہلے کی سوچ اور خیال کا
ادراک آپ کی بیوی کو اگر ہو جائے تو یہ بات آپ کی سوچ سے بھی بہت نقصان دہ
ہو سکتی ھے. اس لئے یا تو اپنے ذھن اور سوچ کو پاک صاف رکھئے یا پھر سوچ
سمجھ کر کوئی سیاسی جواب دیجئے. ظاہر ھے آپکو سیاسی جواب والا کام ہی آسان
لگ رھا ھو گا
اکثر رومانٹک اور ناتجربہ کار
شوھر اس سوال کا یہ سیاسی جواب تجویز کرتے ہیں. _____ "بیگم! میں تو ابھی
تمہارے بارے میں ہی سوچ رھا تھا"____ ہماری ایکسپرٹ رائے کے مطابق یہ جواب
کبھی نہیں دینا چاہئے. کیونکہ صرف انتہائی غیر حقیقت پسند بیویاں ہی اس
جواب کو ہضم کر پاتی ھیں، اور وہ بھی صرف چند ایک بار. ورنہ بیشتر بیویاں
آپ کے چہرے کے بدلتے رنگ اور بوکھلاہٹ ہی سے اصل جواب بھانپ لیتی ہیں. اکثر
تو آپ کو بےخیالی میں مسکراتے دیکھ کر بھی بخوبی اندازہ لگا لیتی ہیں کہ
آپ کم از کم اس نیک بخت کے بارے میں ھرگز نہیں سوچ رھے. مناسب جوابات یہ ہو
سکتے ہیں کہ ____"بیگم ! میں سوچ رہا تھا، آج اپنی پتلون رات میں ہی استری
کر کے سوؤں، صبح لوڈشیڈنگ کے باعث مجھے دفتر سے دیر بھی ہو سکتی ھے."
_____ یا پھر یہ____ "میں سوچ رہا ہوں کہ کبھی کبھی بچوں کو اسکول کے لئے
میں تیار کیا کروں" ____ ایک خوبصورت جواب یہ بھی ہو سکتا ھے___ "تمہاری
امی اور بھائی کافی دن سے نہیں آئے..... سوچ رہا تھا کسی دن انکو اپنے ہاں
کھانے پر بلا لیں."
خبردار اس موقع
پر اپنے سیاسی جواب کو طول مت دیجئے اور نہ ہی کسی ایسے کام کا ارادہ کیجئے
جس پر عمل بعد از وقت آپ پر فرض ہی ہو جائے. سو محض سوچ کا اظھار کافی ھے
-------------2------------------
دوسرا
سوال جو ہر بیوی، ہر کچھ دن کے بعد اپنے شوھر سے پوچھتی ھے وہ ھے: "کیا آپ
مجھ سے محبت کرتے ہیں؟" اگر آپ سوچ رھے ہیں کہ یہ تو انتہائی آسان سوال ھے
جس کا جواب "ھاں" کے سوا اور کچھ ھو ہی نہیں سکتا، تو آپ سراسر غلط سوچ
رھے ہیں. بیویوں کی ڈکشنری میں اس سوال کے جواب میں "ہاں" کا مطلب "نہ" ھے
اور مان لیں اگر وہ اس "ہاں" کو "ہاں" بھی سمجھ لے تب بھی اس ایک "ہاں" سے
اس کی تشفی ھرگز نہیں ہوتی
سب سے اھم پوائنٹ
اس سوال کے بارے میں یہ ھے کہ اگر آپ نے اس سوال کا جواب دینے میں ذرا سی
بھی دیر لگائی، آپ کچھ پل کے لئے بھی اگر خاموش رھے یا آپ نے کچھ سوچنے کی
ایکٹنگ بھی کی تو سمجھو نمبر کٹ گئے اور بیوی نے ازخود نوٹس لیتے ہوئے آپ
کا جواب نفی میں اخذ کر لینا ھے. نکتہ اسکا یہ ہو گا کہ اگر آپ محبت کرتے
ہیں تو سوچنے کی ضرورت ہی کیوں پڑی؟ اس بات پر اچھی خاصی ناراضگی ہونے کا
اندیشہ ہوتا ھے جسکا دورانیہ ہر شادی شدہ جوڑے کے لئے مختلف ہوتا ھے
ھماری
ایکسپرٹ رائے کے مطابق اس سوال کے جواب میں فورا ماضی قریب کا کوئی بھی
خوشگوار لیکن مختصر واقعہ سنا کر آخر میں یہ الفاظ جوڑے جائیں ___ " ....تو
بیگم! اگر میں تم سے پیار نہ کرتا، تو بھلا یہ سب کیسے ممکن ہوتا"؟ وقت
اور موڈ کو مد نظر رکھتے ہوئے واقعہ کو طول دیا جا سکتا ھے، ایک سے زیادہ
واقعات بھی باور کرائے جا سکتے ھیں لیکن اپنی بات کو ڈرامائی انداز مت
دیجئے گا ورنہ سب کچھ "فیک" کے زمرے میں آ کر ضائع ہونے کا احتمال ھے
-------------3------------------
تیسرا
سوال: "اگر میں مر گئی تو آپ کیا کریں گے؟" یہ سوال اکثر اس وقت پوچھا
جاتا ھے جب بیوی کو گھر پر کوئی دوسرا کام نہیں ہوتا. سو آپ یقینا سوچ رھے
ہوں گے کہ اس مشکل سوال کا جواب بھی آپ کو بغیر عجلت کے سوچ سمجھ کر دینا
ہو گا. یا آپ سوچ رھے ہیں کہ دوسری شادی کا ذکر نہیں کروں گا، اور بیگم کے
گزر جانے کے بعد شوھر کے ساری زندگی تنہا گزارنے کا تصور آپکی شریک حیات کو
تسکین بخشے گا، تو نہیں میرے بھائیو! نہیں. آپ تو ایک بار پھر غلط سوچ
رھے. اس سوال کے جواب میں کچھ بھی سوچنا گناہ_کبیرہ ھے. ادھر آپ نے سوچنا
شروع کیا ادھر نیک بخت کی آنکھیں نم، کہ آخر آپ نے تصور بھی کیسے کر لیا کہ
آپ کے جیتے جی وہ نیک بخت اس دار_فانی سے کوچ فرما جایئں گی. دوسری شادی
اور آپ کی تنہائ کا تصور تو بہت انہونی بات ھے ، مگر آپ یہ سوچ بھی کیسے
سکتے ہیں کہ وہ مر جایئں گی؟ پڑھی لکھی یا فلسفیانہ سوچ رکھنے والی بیویاں
آپ کی یہ سوچ جان کر اس نتیجے پر پہنچنے میں ایک منٹ بھی نہیں لگاتیں کہ آپ
دل ہی دل میں ان کے مرنے کی آرزو رکھ کر جی رھے ہیں
ھماری
ایکسپرٹ رائے کے مطابق اس سوال کا کوئی جواب ھے ہی نہیں، ہاں البتہ اس
سوال کے نازل ہوتے ہی آپ کو تھوڑی سی جسمانی مشقت ضرور کرنا ہو گی. یعنی
جیسے ہی یہ سوال بیگم کے منہ سے نازل ہو، فورا سے پہلے بازو بڑھا کر ان کے
منہ پر ہاتھ رکھ دیا جائے، پھر دوسرا ہاتھ ہولے سے انکے کندھے پر رکھتے
ہوئے، آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر تھوڑی سی نمی آنکھوں میں لانے کی کوشش کریں
اور گردن نفی میں ہلائیں، جسکا مطلب یہ ہوگا کہ یہ بات نہ تو کرنی ھے اور
نہ ہی سوچنی ھے. اسے اپنے تاثرات سے ہی باور کروائیے کہ بیگم کے مرنے کا آپ
تصور بھی نہیں کر سکتے، اور اسکے بغیر کی پہاڑ جیسی زندگی کو سوچ کر ہی آپ
جذباتی ہو گئے ہیں. بیگم کے منہ پر ہاتھ رکھنا اس لئے بھی ضروری ھے تاکہ
اس ضمن میں وہ مزید کوئی بات اگل ہی نہ سکے اور نہ آپ کو مزید جواب کے لئے
پریشانی کا سامنا کرنا پڑے
-------------4------------------
چوتھا
اور اھم ترین سوال: "کیا میں آپ کو موٹی لگتی ھوں؟". اس سوال کی سنجیدگی
کا اندازہ ہر شادی شدہ شخص بخوبی لگا سکتا ھے. عموما یہ سوال اس وقت پوچھا
جاتا ھے جب بیگم صاحبہ خوب رومانٹک موڈ میں ہوں، ویسے سوچا جائے تو اس سوال
اور رومانس کا کوئی کونیکشن بنتا نہیں، لیکن بیویوں کی نفسیات کے مطابق وہ
کسی بھی نیک مقصد سے پہلے اس مقصد کو ہی فوت کرنے کی پوری کوشش ضرور کرتی
ہیں. اسلئے یہ سوال اس زمرے میں بالکل بامعنی تصور کیا جانا چاہئے. تو
جناب !! اس سوال کا کوئی بھی غلط جواب نہ صرف آپ کے قیمتی لمحات برباد کر
سکتا ھے، بلکہ آئندہ کے لئے بھی ایک نیگیٹو سوچ آپ کے بارے میں ہمیشہ ہمیشہ
کے لئے قائم کی جا سکتی ھے. یعنی اس جواب کا خمیازہ آپ کو تب تک بھگتنا پڑ
سکتا ھے جب تک بیگم کی صحت واقعی کم نہیں ہوجاتی. یا آپ خود فربہ ہو کر اس
ریس میں ان سے آگے نہیں نکل جاتے.
ھماری
ایکسپرٹ رائے کے مطابق بیویاں تمام تر حقیقت کا ادراک رکھتے ہوئے اس سوال
کا کوئی حقیقت پسندانہ جواب سننا بالکل پسند نہیں کرتیں. تو آپ بھی حتی
المقدور دوغلا پن اور ڈپلومیسی اپنے اوپر نازل کر کے اس سوال کا جواب دیں.
مثال کے طور پر کچھ خوبصورت جواب مندرجہ ذیل ہیں
"جھنجلا کر ) کیا یہ چیز رشتوں میں اھم ھوتی ھے؟)"
"نہیں آپ ماشااللہ اچھی صحت کی مالک ہیں، __(سوچتے ہوئے)__ لیکن __ آپ کو موٹی ہرگز نہیں کہا جا سکتا"
"کوئی میری نظر سے دیکھے ہاں؟ مجھے تو کہیں سے موٹی نہیں لگتیں "
"آپ
میری صحت بھی تو دیکھیں!! میں بھی کونسا شاہ رخ خان ہوں. رب نے جوڑی ہی
ایسی بنائی ھے کہ ساتھ کھڑے جچتے ہیں دونوں، اور کیا چاہئے؟"
"غصے سے) کس نے کہا ھے کہ آپ موٹی ہیں، میں منہ توڑ دوں اسکا، مجھے کسی کے کمنٹ سے فرق نہیں پڑتا)"
"بہت لاڈ سے) تمھیں ایک دل کی بات بتاؤں، مجھے ہمیشہ ہی سے موٹی لڑکیاں پسند تھیں)"
-------------5------------------
پانچواں
اور آخری سوال جس کے الفاظ مختلف سیچوویش میں مختلف ہو سکتے ہیں لیکن مدعا
ایک ہی ھے. سوال یہ "ھے کہ "فنکشن میں وہ دوسری عورت کیسی لگ رہی تھی؟ یہ
بہت گھمبیر سوال ھے. آپ کو رائے بھی دینی ھے اور یہ تاثر بھی نہیں دینا کہ
آپ محفل میں دوسری خواتین پر نظریں جمائے بیٹھے رہتے ہیں. یاد رکھئے گا، کہ
اس دوسری خاتون کا کسی بھی قسم کا مفصل تجزیہ آپ کو مشکلات سے دو چار کر
سکتا ھے. اور اگر آپ کہیں گے کہ ___کون___کس کی یات کر رہی ہیں___یا
__دیکھا ہی نہیں___ تو وہ بھی جھوٹ گردانا جائے گا.
بغیر
توقف کے ہم ایک بار پھر اپنی ایکسپرٹ رائے سے آپ کو بتا دیں کہ ان پانچ
سوالوں میں سے یہ وہ واحد سوال ھے جس کے جواب کے لئے آپ نے بالکل جلدی نہیں
کرنی، یعنی کہ واقعی سوچنا ھے یا پھر سوچنے کی بھرپور ایکٹنگ کرنی ھے. اگر
آپ نے دوسری عورت کے بارے میں فورا اپنی رائے پیش کرنا شروع کر ڈالی تو
سمجھیں کہ آپ نے اپنی بیوی کے مردوں کے متعلق اس یونیورسل تاثر کو مضبوط کر
ڈالا کہ "سب مرد ایک جیسے ہوتے ہیں". سو جواب میں بالکل جلدی نہیں کرنی
جواب
کے آغاز میں، لمحہ بھر کو آپ رومانٹک انداز میں مسکراتے ہوئے یہ فقرہ بول
سکتے ہیں کہ __"ارے ہمیں تو محفل میں آپ ہی آپ دکھتی رہیں__ ہر جگہ آپ ہی
چھائی ہوئی تھیں"__اسکے بعد ذرا توقف دے کر سر دھنتے ہوئے اس دوسری خاتون
کو یاد کریں، ساتھ ہی چہرے پر خفیف سی ناگواری کے تاثرات رکھیں. اور پھر جو
بھی جواب دیں، اس میں ہر حال میں اس دوسری عورت کو ایک عمومی عورت ہی ظاہر
کریں. کیونکہ اسی میں آپکا اور آپکے کنبے کا امن پوشیدہ ھے
0 comments: