کیا جنید جمشید کے پرانے دور کو فراموش کر دیا جائے؟

4:09 AM 0 Comments

 
چند دوستوں کے مطابق جنید جمشید کی زندگی کا آخری دور ہی اسکی حقیقی زندگی تھی. اسلئے اسکی وفات کے بعد صرف اسکی بطور مذہبی و تبلیغی سکالر زندگی کو ہی یاد کیا جانا چاہیے
-
میری نظرمیں جنید جمشید اپنی زندگی کے دونوں ادوار میں یادگار، کامیاب اور ہردلعزیز انسان تھا. مجھے یہ منطق بہت عجیب لگ رہی ہے کہ مرنے والے کے فلاں دور کو یاد نہ کرو اور صرف فلاں فلاں دور کو یاد کرو. یہ خواہش ہی کتنی اَن نیچرل ہے. آج اگر بل گیٹس اسلام قبول کر لے اور کل مر جائے تو کیا اس کے آخری ایک دن کو یاد کیا جائے گا اور کمپیوٹر سافٹ ویئر کی دنیا میں اس کی خدمات کو یکسر فراموش کر دیا جائے؟ یا کرکٹر محمد یوسف کی اسلام قبول کرنے سے قبل کی بطور بیٹسمین خدمات کو ڈیلیٹ کر دیا جائے؟

ہمارا کڑوا معاشرتی سچ یہ ہے کہ اگر جنید کا پہلا دور وجود نہ رکھتا اور وہ اپنے کرئیر کی ابتدا ہی بطور اک تبلیغی سکالر کے کرتا، تو آج ہم میں سے گنتی کے لوگ ہی اسکا نام بھی جانتے اور پورا ملک اسکے لئے آنسو نہ بہا رہا ہوتا.

اس دنیا سے جانے والا سب سے پہلے اک انسان تھا. بہت سی وجوہات کی بنا پر ناچاہتے ہوئے بھی میں جنید کے پہلے والے دور کا کونیکشن اپنے لڑکپن اور جوانی کی بہت سی فیلنگز کے ساتھ زیادہ پاتا ہوں. وہ روپیہ روپیہ جوڑ کر خریدے وائٹل سائنز کے کیسٹ اور ڈائری لکھ لکھ کر یاد کیے جنید کے گیتوں کو میں کیسے بھلا دوں جنکی یاد مجھے نوجوانی کے حسین اور بے فکری کے دور میں لے جاتی ہے، جنہیں یاد کر کے اب اک nostalgia کا احساس ہوتا ہے. آج مجھے محسوس ہوا ہے کہ نوجوان جنید میری نوجوانی کی حقیقتوں میں سے ایک دلفریب حقیقت تھا

اس کی مذہبی زندگی اور تبلیغ کا فیصلہ اسکا انفرادی تھا، مجھے اس فیصلے سے نہ تو کوئی اختلاف ہے نہ میں اختلاف کا حق رکھتا ہوں. میں دیو بندی نہیں ہوں، لیکن میں جنید سے محبت کرتا تھا اسلئے میں اسکے فیصلے اور تبلیغی دور کو بھی پسند ہی کرتا ہوں، وہ آخری وقت تک میرا پسندیدہ رہا، لیکن بدقسمتی سے میرا اسکی زندگی کے دوسرے پارٹ کیساتھ وہ پہلے سا کونیکشن نہ بن پایا (یہ میری خامی تو ہو سکتی ہے جنید کی نہیں) لیکن اسکی وفات پر میں بھی اتنا ہی رنجیدہ ہوں جتنا کوئی تبلیغی اور دیوبندی بھائی ہو گا. میری تمام مذہبی دوستوں سے درخواست ہے کہ برائے کرم مجھ جیسوں کے احساسات اور آنسوؤں پر اپنی مرضی کے بند مت باندھیں.
 

0 comments:

کمزور لمحے

7:18 AM 0 Comments


کمزور لمحہ وہ وقت ہوتا ہے جب ہم "ہم" نہیں ہوتے. یعنی جب ہم کسی مرحلے پر کسی بھی وجہ سے اپنی پرسنالٹی سے بالکل ہٹ کر کچھ کرنے کے مرتکب ہونے پر دوسروں کو حیرانی اور بعد ازاں خود کو شرمندگی و خفت میں مبتلا کر دیتے ہیں.

اگر ہم کسی کی زندگی کے کمزور لمحوں کا تعین نہیں کر سکتے تو اسکا مطلب یہ ہے ہم اسے سرے سے جانتے ہی نہیں نہ ہی ہمارا اسکے ساتھ کوئی تعلق ہے..... البتہ جن کیساتھ ہمارا تعلق ہوتا ہے، ان کی بنیادی شخصیت، سوچ ، کردار اور بہت سے حالات و واقعات سے یقینا ہمیں آگاہی ہوتی ہے. ایسے لوگوں کی زندگی کے کمزور لمحوں کو ہم بلاشبہ جج کر سکتے ہیں. بس ہم اپنے تعلق والوں کے کمزور لمحوں کو ہی اگنور کرنا سیکھ لیں تو بہت ہے.


0 comments:

زندگی اور موت

6:11 AM 0 Comments

 ہم سب اک گرینڈ گرینڈ ہائی فائی سافٹ ویئر کے تخلیق کردہ کردار ہیں
جی ہاں ! جس طرح ایک ہی موبائل ایپلیکیشن ہر کسی کے موبائل پر اسی شخص کا ڈیٹا دکھاتی اور اسی موبائل یوزر کے مطابق چلتی ہے. اسی طرح اس گرینڈ سافٹ ویئر کی آؤٹ پٹ ان گنت زبردست تھری ڈی ویڈیوز کی صورت چل رہی ہیں جو ہر شخص (کردار) کے لئے مختلف ہیں. ہر شخص کی اپنی ویڈیوز کو "زندگی" نامی ڈرامے کا نام دیا جا سکتا ہے. ویڈیوز انتہائی اعلی قسم کی ویژؤل اور ساؤنڈ ایفیکٹس پر مبنی ہیں اور یہی انگنت ویڈیوز جو مختلف زاویوں سے ہر کسی کو نظر آ رہی ہیں وہی اس ڈرامے میں حالات و واقعات کی اصل کنجی ہیں. ان تمام ویڈیوز کے کمبینیشن سے بننے والا ڈرامہ اسقدر دلفریب اور جاندار ہے کہ ہر کسی کو لگتا ہے کہ اس ڈرامے کا مرکزی کردار وہ خود ہے :)  ہمیں لگ رہا کہ ہم وقت کیساتھ آگے بڑھ رہے ہے جبکہ ہم وہیں کے وہیں موجود ہیں اور کوئی نادیدہ طاقت اپنے اسی سافٹ ویئر کی مدد سے ہمارے اردگرد سبھی مناظر اور کرداروں کو الٹ پلٹ کر تبدیل کر رہی.

بہت سی انسٹرکشنز پہلے سے ہمارے اندر فیڈ کی گئی ہیں، یہی انسٹرکشنز ہماری سوچ ہیں، ہم ان محدود انسٹرکشنز سے ہٹ کر کچھ سوچ نہیں پاتے، کچھ کر نہیں پاتے. پھر علم کا جھانسہ موجود ہے ، کتابوں اور تجربوں کے بونس پوائنٹس ہیں جو ایکسٹرا انسٹرکشنز کے طور پر ہمیں حاصل ہوتے ہیں. اور ہم خوش ہوتے ہیں کہ ہم نے نجانے کیا سیکھ لیا، نجانے کیا پا لیا.

ہمیں روبوٹوں کی طرح کچھ محدود جسمانی صلاحیتیں دی گئی ہیں (جو ہماری انسٹرکشنز کی تعلیمات کے مطابق بہت زیادہ ہیں)، پھر ورزش، ڈائیٹ، پیچیدہ جسمانی نظام کے جھانسے سے جسمانی صلاحیتوں میں تھوڑا سا اضافہ بونس کی طرح ملتا ہے.  اور ہم اسے فٹنس کا نام دے کر خوش ہو جاتے ہیں. اسی طرح بیماریوں دواؤں کا کیمیائی سسٹم بھی موجود ہے.

سافٹ ویئرز میں موجود ان انسانی کرداروں کے اندر مزید فیلنگز، مُوڈ وغیرہ کا زبردست سسٹم انسٹال کیا گیا ہے. جن کے اتار چڑھاؤ ہماری جسمانی کیفیات ، اور اردگرد کے حالات و واقعات کیساتھ زبردست انداز سے منسلک ہے. بظاہر لگتا یہی ہے کہ یہ سب کسی خودکار نظام کی طرح کام کرتا ہے. لیکن شائد سبھی کچھ اتنا خودکار (آٹو میٹک) بھی نہیں. جسطرح ٹیپ ریکارڈر کا والیم والا نوب گھما کر آواز اونچی/ نیچی کی جاتی ہے ویسے ہی اس سسٹم کے باہر کہیں بہت سی نوبز اور بٹن موجود ہیں، جن کے استعمال سے ہماری فیلنگز کنٹرول ہو رہی ہیں . ہمیں کب خوش ہونا ہے کب غمگین؟ کب پیار کرنا ہے اور کب نفرت؟ کہاں خلوص اور کہاں سنگدلی؟ کب مجبوری اور کہاں جارحیت برتنی ہے؟ کب ہنسنا اور کب رونا ہے؟ بظاہر یہ سب کسی خود کار نظام کی طرح محسوس ہوتا ہے لیکن اس میں دھاندلی کے شبے کو نظر انداز بھی نہیں کیا جا سکتا. 😂

ہمارے اردگرد سبھی کچھ انتہائی بے ضرر ہے. لیکن سافٹ ویئر، زبردست تھری ڈی ویژؤل اینڈ ساؤنڈ ایفیکٹس ، انسٹرکشنز اور فیلنگز کے اتار چڑھاؤ کی بدولت یہ انتہائی اہم محسوس ہوتا ہے

اور موت ؟؟؟؟ وہ تو مسئلہ ہی کوئی نہیں. جب اتنا مافوق الفطرت نظام بنایا جا سکتا ہے وہاں ڈرامائی انداز میں کسی کردار کو کبھی بھی آن / آف کرنا کون سا مشکل کام ہے :)
"
صفحہ صفحہ گزر رہے ہیں دن
ہم ہیں کردار کسی فسانے کے
"

0 comments: