خدا

4:24 AM 0 Comments

 جس طرح سائنس و دیگر مضامین میں رٹا لگا کر نمبر مل جاتے ہیں۔ اسلامیات میں بھی کانسیپٹ بلڈنگ کی بجائے رٹے پر ہی فوکس ہوتا ہے۔ اسلامی ہسٹری کی غیر متنازعہ چیزیں فلٹر کر کر کے نصاب بنا لیا جاتا۔ بچہ یاد کر کے نمبر لے لیتا، مگر جب وہی بچہ معاشرے میں مذہب اور مسلک کے نام پر وبال برپا دیکھتا تو کتابی دین اور معاشرے میں اسکا امپیکٹ اور اثرات اسے کنفیوز کرتے ہیں۔ نتیجتا وہ یاں تو شدت پسندی اڈاپٹ کر لیتا ہے یا پھر مذہب بیزار بن جاتا۔

مذہبی تعلیمات اور خدا بارے کانسیپٹس جو کتابوں میں سکھلائے جاتے ہیں ان میں سے اکثریتی کانسیپٹس کو عہدِ حاضر کیلئے obsolete اور غیر متعلقہ بنانے میں خود وہ کتابیں کردار ادا کرتی ہیں جو سینکڑوں ہزاروں برس قبل کسی مخصوص زمان و مکاں و حالات کے زیرِ اثر تحریر ہوئی تھیں۔ ہزاروں برس قبل عرب کے صحرائی کلچر کی مثالیں یا قرونِ اولی کے قصے آج ٹیکنالوجی بھری جدید لائف سٹائل کی حامل دنیا اور کائنات پر لاگو کرنا ممکن دکھائی نہیں دیتا۔ چند پسماندہ ممالک کے سوا کوئی انکو فکشن سے بڑھ کر اہمیت نہیں دیتا۔ اور یہ بات دنیا کے سبھی مذاہب پر صادق آتی ہے۔
ایک طرف ہم کہتے ہیں کہ اللہ انسانوں جیسی خصوصیات نہیں رکھتا، مگر آپ جس مرضی عالم کو پڑھ/سُن لیں، آپکو اندازہ ہو گا وہ خود خدا کو ایک بہت طاقتور اور بڑے انسان جیسی ہی کوئی جذباتی مخلوق تصور کرتے ہے، جو دور اُوپر کہیں بس حساب کتاب کرنے اور انعام و اکرام بانٹنے کیلئے بیٹھا ہے۔ میرے بھیا حساب کتاب تو بذاتِ خود ایک انسانی اور مادی شے ہے۔ خالقِ کائنات و جن و انس کی ذات تو ان میٹیریلسٹک محرکات، ذاتیات اور جذبات سے مبرا ہے۔ ہزاروں برس قبل رائج محدود نالج کے مطابق اگر کچھ مثالوں سے خدا کے تصور کو سمجھانے کی کوشش کی گئی تھی تو اسکا یہ مطلب تو نہیں کہ اب اگلے ہزاروں سال انہی پرانی محدود مثالوں پر ہی کانسیپٹ پکا کیے رکھیں۔
ہم بچپن میں کوئی سوال اٹھاتے تو ہمارے بڑے بزرگ ہمیں ڈانٹ ڈپٹ کے چپ کرا دیتے تھے (اور ہم احتراما خاموش رہتے) کہ ایسا سوچنے سے بھی گناہ ہوتا۔ اب میں سمجھ سکتا ہوں کہ جب بڑوں کے پاس کسی سوال کا جواب نہیں ہوتا تب پہلے مرحلے پر ڈانٹ ڈپٹ ہی ہوتی، پھر ڈراوے سے، خوف اور مار سے سوالات کا گلا گھونٹا جاتا ہے۔
آج ایک طرف ہم اپنے بچوں کو جدید علم کی دنیا میں فری تھنکرز بنانے کیلئے کوشاں ہیں، دوسری جانب ان کے اٹھائے ننھے سے سوالات کا جواب بھی دینے سے قاصر ہیں۔ میری دس سالہ بیٹی پوچھتی ہے کہ اسے سمجھ نہیں آتی کہ
Why all the times God is so personal and judgmental about his own creatures؟
ایک حقیر سے انسان کی کسی حرکت پر خدا غبضبناک کیونکر ہو سکتا ہے؟ اسی طرح خدا کا انسان پر صدقے واری ہونا یا ماؤں جیسا پیار کرنا بھی سمجھ سے بالاتر ہے۔
بس جی بزرگوں نے کہہ دیا، کتابوں میں لکھا ہے تو یقینا ایسا ہی ہو گا۔ مگر جب آپ اپنی پوری زندگی میں ایک بار بھی اسکی عملی مثال دیکھ نہیں پاتے تو ایسے کانسیپٹ ساری زندگی کیسے اپنے ساتھ باندھ کر رکھ سکتے ہیں؟

0 comments:

دعائیں

10:34 AM 0 Comments

 دعاؤں پر یقین اور اللہ کے ہوتے ہوئے کیا اچھا ہوسکتا تھا مگر نہیں ہوا، اور کیا برا نہیں ہونا چاہئے تھا مگر وہ ہو گیا۔
اس بارے میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ خدا کی ذات ان سبھی چھوٹی انسانی سوچوں اور منطقوں سے مبرا اور کہیں اوپر ہے۔

اس نے ہمیں ایک بہت بڑے اور انٹیلیجنٹ سسٹم میں اتارا ہے، جہاں ہر شے لاجیکل اور قوانینِ فطرت کے ماتحت ہے۔ ایک خوردبینی جاندار کی کارستانیوں سے لیکر بین الاقوامی سیاست اور اس سیارے سے باہر کی لامتناہی دنیا بھی قوانینِ فطرت کے عین مطابق چل رہی۔
جو ان قوانین کے مطابق حالات کو دیکھتا اور سمجھتا ہے، اس کیلئے کچھ بھی اچنبھے کی بات نہیں۔
میرا نہیں خیال کہ اسقدر انٹیلیجنٹ سسٹم کو بنانے کے بعد بھی خدا ہم چیونٹی سے بھی بے ضرر انسانوں کے ننھے منے انفرادی مسائل اور پریشانیوں کی گتھیاں سلجھانے کا کام کرتا ہو گا۔ جو ہونا ہے اسی سسٹم کے تحت اور کسی کوشش اور حرکت کے نتیجے میں ہی ہونا ہے۔
دعاؤں کو شاید ہم نے ایک ٹُول سمجھ رکھا ہے، کہ جب مکمل بے بسی اور معاملات آؤٹ آف کنٹرول دکھائی دیں تو ہم قوانینِ فطرت کے الٹ اپنی کسی ڈیمانڈ کو دعا کی صورت پورا ہوتے دیکھنے کے متمنی ہو جاتے۔ سنی سنائی معجزاتی روایات اس سلسلے اور یقین کو بڑھاوا دینے کا کام کرتے ہیں۔ مگر آج تک اپنی گنہگار آنکھوں سے کچھ بھی غیر منطقی اور قوانینِ فطرت کے الٹ ہوتا نہیں دیکھا۔ دعاؤں کی کامیابی و ناکامی خدا کی ذات کو جانچنے کا کوئی پیمانہ ہرگز نہیں ہو سکتی۔

0 comments: