چھوٹے ماموں

8:57 AM 0 Comments

اس بار دورۂِ سیالکوٹ کی ایک اہم وجہ میرے چھوٹے ماموں ہیں، جو آجکل بہت بیمار بھی ھیں اور ہسپتال میں داخل ھیں. میرے کل چار ماموں تھے، چاروں درویش صفت تھے، بڑے تینوں بھائیوں کا انتقال ھو چکا.
.
چھوٹے ماموں بچپن سے ہی ھم سب کزنز کیلئے ایک انسپریشن کا درجہ رکھتے تھے. وہ کمال کے آرٹسٹ تھے. فن مصوری میں کمال رکھتے تھے. اور ستر اور اسی کی دہائی میں یو اے ای کے ارتقائی دور کے دوران ان کی جاب دبئی کے ایک فائیو سٹار ہوٹل میں تھی، جہاں ان کا کام مختلف دیواروں پر نت نئی پینٹنگز بنانا اور ڈیزائننگ آئیڈیاز کو عملی جامہ پہنانا تھا.
.
اس کے علاوہ ماموں کا دوسرا شوق فنِ گائیکی تھا، ان کی آواز بہت ہی عمدہ تھی، اور انہوں نے کلاسیکل موسیقی کی باقاعدہ تعلیم حاصل کر رکھی تھی. اونچے نچلے سروں میں انہیں کمال مہارت حاصل تھی اور جب وہ گاتے تھے تو سننے والے دل تھام کر بیٹھ جاتے. اس ضمن میں ایک بہت ہی خاص واقعہ جو ھم بچپن سے سنتے آئے کہ قیام دبئی کے دوران ایک بار محمد رفیع نے اسی ہوٹل میں قیام کیا، جہاں ماموں جاب کرتے تھے. اور کسی نجی محفل میں ہوٹل کے سٹاف نے محمد رفیع کے سامنے ماموں کو پیش کیا کہ یہ آپکا بہت بڑا پرستار ھے جو آپ کے گانے گاتا ھے. رفیع کی فرمائش پر ماموں نے اسکے سامنے رفیع ہی کا مشکل ترین گانا 'دنیا کے رکھوالے گایا' اور رفیع کو حیرت میں مبتلا کر دیا. بعد ازاں رفیع نے ماموں کو بمبئی لے جانے اور کریئر بنانے کی بات بھی کی ....... لیکن پھر اس سلسلے میں کوئی پیش رفت نہ ھو سکی.
.
لیکن پھر یکایک ماموں کا ذہن پلٹ گیا. دبئی میں رہتے ہوئے ہی مذہبی رجحانات اسقدر غالب آ گئے کہ مصوری اور موسیقی کو خیر آباد کہہ دیا. اور انہوں نے اپنی نوکری پر تصویریں بنانے سے معزرت کرلی. جس کے بغیر فائیو سٹار ہوٹل والوں کو بھی انکی ضرورت نہ رہی. ماموں سب کچھ خیر آباد کہہ کر پاکستان واپس آ گئے. اور سیالکوٹ میں پینٹر بن گئے. انہوں نے گھروں میں سفیدیاں اور پینٹ کرنے کا کام شروع کر دیا، مسجدوں میں خطاطی کا کام کرتے ، دکانوں کے سائن بورڈ پینٹ کرتے، اس کے علاوہ لکڑی کا کام بھی کرتے اور اسی محنت سے اپنا گھر چلاتے رھے. کبھی ناجائز کمائی نہیں کی، میں نے تو صرف ماموں کی خطاطی اور دیواروں پر رنگ و روغن کے کام سے ہی ان کے فن کا اندازہ کر سکتا ھوں، کیونکہ انہوں نے اپنا مصوری کا سب کام ضائع کر دیا تھا. لیکن امی مجھے پینٹنگ کرتے دیکھ کر ہمیشہ ایک ہی بات کہتی ھیں کہ خرّم ! تمہارا مصوری کا شوق تمہیں تمہارے ماموں سے ملا ھے.
.
خیر ماموں شریعت کے پابند ھو گئے، داڑھی رکھ لی، گانے چھوڑ کر نعتیں ، تلاوت شروع کر دی، ان کی آواز کے بہت چرچے تھے، ان سے فرمائش کر کے مسجد میں اذان دلوائی جاتی. نجی محفلوں میں ان کی آواز کی بہت واہ واہ ھوتی لیکن میڈیا کا دور نہ تھا اور نہ ہی ماموں مادیت پرست تھے کہ اپنے ہنر اور فن کو کیش کرواتے. انتہائی سادہ اور قناعت پسند انسان جسکے پاس اپنے ایک چھوٹے سے آبائی گھر کے علاوہ کوئی اثاثہ نہیں. مگر اسی سادگی اور قناعت کیساتھ وہ اپنے سب بچوں کی شادیاں کر کے تمام فرائض سے سبکدوش ہوئے.
.
میں ہمیشہ یہ باتیں اپنے ننھیالی کزنز سے سنا کرتا تھا لیکن میں نے جب نوے کی دھائی میں ہوش سنبھالا تو ایک بار سیالکوٹ جانے پر ماموں سے لاڈ میں فرمائش کی کہ کچھ گا کر سنا دیں. ماموں بہت پیار کرتے تھے تو انہوں نے طلعت محمود کا گیت
"زندگی دینے والے سن، تیری دنیا سے دل بھر گیا"
 گانا شروع کیا ..... وہ انتہائی اونچے سر بھی اس آسانی سے گا رھے تھے کہ جیسے کوئی مسئلہ ہی نہ ھو، آواز سن کر تیسری منزل سے میرے کزنز بھاگے بھاگے نیچے آئے، کہ یہ موقع شاذوناذر ہی آتا تھا کہ ماموں کسی کی فرمائش پر کچھ گانے پر رضامند ھو جائیں. محفل سی جم گئی. مجھ سمیت سننے والوں کے رونگٹھے کھڑے ھو گئے.  وہ ایک یادگار رات تھی، جس کا پل پل مجھے یاد ھے. ھم بہت سے لوگ ایک کھلے صحن میں چارپائیوں پر بیٹھے تھے.  ماموں نے مجھے اس گیت کے بارے میں بہت کچھ بتایا کہ یہ راگ 'مالکونس' میں بنا ھے، کس نے گآیا، اور اس گیت میں کیا کیا باریکیاں ھیں. تب وہ ساری انفارمیشن میرے سر پر سے گزر گئی. بعد میں میں نے طلعت کا یہ گیت لاتعداد مرتبہ سنا ھے ... اور میں شرطیہ کہہ سکتا ھوں کہ ماموں کے گائے ہوئے ورژن کے سامنے طلعت محمود کی آواز اور گائیکی کچھ بھی نہیں. اسی محفل میں ماموں نے "او دنیا کے رکھوالے، سن درد بھرے میرے نالے"  بھی سنایا. اور میں نے زندگی میں کسی کو بھی اتنی بلند آواز میں گاتے نہیں سنا. انکی آواز گویا ڈائریکٹ دل پر جا کر چوٹ کرتی تھی ، وہی کہانیاں جو دوسروں کی زبانی ماموں کے بارے میں سنی تھی، خود ماموں کی زبانی بھی سنیں. ..... گانے کے بعد ماموں نے کہا کہ ان کاموں میں کچھ نہیں رکھا. لیکن چونکہ سیکھا ہوا ھے تو کمبخت کچھ بھولتا بھی نہیں. اس کے بعد ہمیشہ سیالکوٹ جانے پر ماموں سے کچھ نہ کچھ فرمائش کر کے سنتا رھا. لیکن اس بار نہیں سُن سکا، کیونکہ وہ بہت بیمار ھیں. میں الفاظ میں بیان نہیں کر سکتا کہ وہ کتنے بڑے آرٹسٹ اور اس سے بھی بڑے پریکٹیکل انسان ھیں. لیکن ان ہسپتال کے بستر پر بے سدھ لیٹے دیکھ کر یہی بات ذہن میں آتی رھی کہ "کیسے کیسے ھیرے اس دنیا کی خاک میں یونہی رُل گئے"

0 comments: