ایک چاند رات

1:34 PM 0 Comments

زندگی کی مصروف ترین چاند راتوں میں اک اور کا اضافہ ھو گیا. چاند رات کا آغاز ایک سفر سے ھوا، جب میں اپنا آفس نمٹا کر لاہور سے فیصل آباد کی طرف روانہ ہوا. آج کل کچھ ایسی روٹین ھے کہ مجھے ہر جمعہ کو لاہور سے فیصل آباد آنا پڑتا ھے. فیملی ادھر فیصل آباد میں ھے اور نوکری لاہور میں، تو میں ھفتے کے دو دن فیصل آباد میں فمیلی کے ساتھ پایا جاتا ھوں، اور باقی کے پانچ دن لاہور میں.

خیر گھر پہنچ کر گھر کی افطاری کی جو چاہ تھی، وہ تو کرن (میری اہلیہ) نے شاپنگ شاپنگ کی رٹ سے ویسے ہی فوت کر دی. جھٹ پٹ سے افطاری کی، اور اپنے آپ کو ایک خونخوار اور تھکا دینے والی شاپنگ کے لئے ذہنی طور پر تیار کر چکا، تو اچانک کرن نے ایک ڈرامائی فرمائش کا اظہار کر دیا کہ آئیے دونوں چھت پر چاند دیکھ کر آئیں. فرمائش سراسر بے معنی تھی، یعنی جو چاند کبھی وقت پر رویت_حلال کمیٹی کو اپنی بھاری بھرکم دوربینوں اور سائنسی مشینری سے نظر نہیں آتا. وہ ہم گنہگاروں کو انسانی آنکھ سے کیونکر نظر آنے لگا. تو وجدان میں اک خیال بجلی کی سی تیزی سے کوندا کہ یقینا کرن نے کسی ٹی وی ڈرامہ سیریل میں ہیرو اور ہیروئن کو چھت پر اکٹھے چاند دیکھتے، دعا مانگتے اور رومانٹک انداز میں "چاند مبارک" کہتے ہوئے دیکھ لیا ھو گا.  اس خیال کے ساتھ ہی، اپنی اس خوبصورت شام اور اس کے آگے جڑی عید کو ایک "میلوڈرامہ" بنںے سے بچانے کی خاطر ھم نے فورا سے پہلے اوپر کی سیڑھیوں کا رخ کیا اور  چھت پر جا کر اپنی معدوم قوت_بینائی سے فلک بینی شروع کر ڈالی، لیکن خوب زور آزمائی کے باوجود بھی مغربی افق پر وہ کمان نما چاند ھماری گستاخ اکھیوں سے اوجھل ہی رھا. ایسے میں ہماری چھٹی حس نے ہمیں خبر دی کہ دوسری اطراف میں محلے کے کچھ پردہ نشیں بھی چاند کی تلاش میں اپنی اپنی چھتوں پر موجود ھیں، اور  ان میں سے کچھ ایسے بھی ھیں، جن سے بچپن میں ھم کافی بےتکلف ھوا کرتے تھے، لیکن اب حالات کی ستم ظریفی کے باعث ان سے ملاقات کا شرف برسوں میں بھی حاصل نہ ھو سکا تھا. چناچہ ہم تو مغرب کے علاوہ اب دوسری اطراف میں بھی چاند ڈھونڈنے کا ارادہ رکھتے تھے مگر کرن کی مایوسی بھری آواز نے یہ اعلان کر کے ہماری سعی_لاحاصل کے آگے جیسے فل سٹاپ ہی لگا دیا کہ "چلئے  عید بیشک کل ھو نہ ھو لیکن شاپنگ تو گویا آج بھی ضرور ہی کرنی ھے"

خیر جتنی لمبی کرن کی شاپنگ کی لسٹ تھی، اسے دیکھ کر لاشعوری طور پر دل میں یہی آرزو جنم لے رھی تھی کہ عید کل کی بجائے پرسوں کی ھو جائے. لیکن ٹی وی چینلز دیکھ کر اندازہ ھو رہا تھا جیسے پاکستانی میڈیا فیصلہ کر چکا ھے کہ کل ہر حال میں عید کر کے چھوڑنی ھے. اور پھر ہوا بھی وہی، یعنی عید کا اعلان ھو گیا. مبارکبادوں کے سلسلے شروع ، ایس ایم ایس کی بوچھاڑ اور فیس بک پر مبارکباد بھرے میسیجز، یہ سب کچھ ساتھ ساتھ جل رہا تھا اور ہم شاپنگ کو بھی نکل رھےتھے. شاپنگ میں دو چیزیں سر فہرست تھیں، ایک ہمارا اپنا ہی سوٹ جو عید کی نماز پر پہننا تھا، اور دوسرے ہماری دو سالہ بیٹی حلیمہ کے جوتے جن کے بغیر گویا یہ عید نامکمل رہتی.


مارکیٹ پہنچنے سے پہلے پہلے، راستے ہی میں ریڈ سگنلز موصول ھونا شروع ھو گئے تھے کہ جناب، جتنا آسان آپ سمجھ رھے تھے، آج یہ مرحلہ اسقدر آسان ہرگز نہ ھو گا، کیونکہ ایک ہی سال میں آبادی جیسے دوگنی ھو چکی تھی، جس کے باعث سڑکوں پر ٹریفک کی دھینگا مشتی تو جاری ہی تھی، ساتھ ہی ساتھ ہر دکان پر گنجائش سے کوئی چار گنا زیادہ افراد بھرے دیکھ کر یقین ھو گیا کہ آج ہی کی رات وہ اصل والی رات "چاند رات" ھے جس کا بیان روایات میں ملتا ھے. یہ بالکل ویسے ہی ھے، جیسے روایات سے طاق راتوں کی نشانیاں ڈھونڈ ڈھونڈ کر اپنی عبادات پر مہر ثابت کی جاتی ھے. خیر دکانوں کے اندر کے حبس زدہ ماحول کے باوجود عوام ،جن میں بڑی تعداد معصوم خواتین اور وحشی بچوں کی تھی، ان کا جذبہ و جنوں دیکھ کر ھم اپنی شاپنگ لسٹ بھول کر عوامی سمندر کے اس والہانہ پن میں ڈوب گئے


اگلے دو  تین گھنٹے جیسے کسی خواب میں گزر گئے، اپنے اور کرن کے ہاتھ میں بڑے بڑے شاپنگ بیگز دیکھ کر اندازہ ھو رہا تھا کہ اب شاپنگ یقینا مکمل ھو چکی ھے. لیکن محترمہ اہلیہ نے ہمارے گھر لوٹنے کی معصوم خواہشات پر اوس تو گرا ہی دی، ساتھ ہی ساتھ ہمیں مبہوت بھی کر ڈالا یہ بتا کر کہ حلیمہ کے جوتے اور ہمارا عید کی نماز والا سوٹ تو ابھی بھی نہیں لیا. حیرت کے سمندر میں گم ھم یہ سمجھنے سے قاصر تھے کہ گھر سے نکلتے وقت جن دو اشیاء کا اسقدر واویلا تھا، وھی اگر نہیں لی گئیں تو پھر ہم اپنا بٹوہ خالی کئے کونسی نوادرات ان بڑے بڑے شاپنگ بیگز میں بھر کر لے جا رھے تھے. ھم اسی کشمکش میں تھے، اور اس اثنا میں کرن ھمیں مکمل طور پر قائل کر چکی تھی کہ حلیمہ کو جوتوں کی ابھی ضرورت ہی نہیں، اس کے پاس پہلے ہی سے کچھ جوتے موجود ھیں، گزارا ھو جائے گا. اور چونکہ ابھی عید کی وجہ سے مارکیٹ میں کوالٹی کا مال دستیاب نہیں ھے تو جوتے تو عید کے بعد بھی لئے جا سکتے ھیں. مزید یہ کہ جس درزی سے سوٹ لینا ھے، اسکی دکان تو اس مارکیٹ میں ھے ہی نہیں، وہ دکان تو ہمارے گھر سے ملحقہ گلی میں واقع ھے.


اس مبارک رات جیسے ہم ہر بات پر قائل ھونے کو تیار تھے، اسی قائلانہ موڈ میں ندیم درزی کی دکان پر پہنچے، ندیم صاحب، جو پہلے ہی سے تین عدد گاہکوں سے منہ ماری میں مشغول تھے، ہمیں دیکھ کر انہوں نے پیشہ وارانہ مسکراہٹ کے سوا کسی خاص خوشگوار تاثر کا مظاہرہ نہیں کیا . اس سے پہلے کہ ہم مدعا بیان کرتے، دکان میں پہلے ہی سے جاری گفتگو سے ہمیں اندازہ ھو چکا تھا کہ عید کی نماز ہمیں اپنے کسی پرانے سوٹ میں ادا کرنا پڑ سکتی ھے، اور ھم لاشعوری طور پر اپنے آپ کو اس امر کے لئے تیار بھی کرنے لگے، اگلے مرحلے میں ندیم صاحب نے کمال پروفیشنل ازم کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہم سے کل صبح عید کی نماز کا وقت پوچھا. اس کے بعد ندیم صاھب کی وہ لازوال سٹیٹمنٹ سننے کو ملی کہ: "بٹ صاحب! عید کی نماز اگر کل صبح چھ بجکر پینتالیس منٹ پر شروع ھونی ھے تو آپکا سوٹ پورے چھ بجے آپکے گھر پر پہنچا دیا جائے گا". ندیم صاحب نے مجھے اور کرن کو کمال مہارت سے قائل کر لیا کہ وہ اور اسکے محنتی کاریگر آج کی پوری رات انتھک محنت کر کے ہمارا سوٹ تیار کر ھی لیں گے اور چاھے سورج مغرب سے نکل آئے، اسرافیل صور پھونک دیں یا چاھے کوئی اور قیامت برپا ھو جائے، لیکن عید کی نماز ھم ہر حال میں اپنے نئے سوٹ میں ہی پڑھیں گے. ندیم صاھب کی کمال پروفیشنل ازم اور ہمیں دی جانے والی اس گراں قدر فیور سے متاثرہ ھم دونوں میاں بیوی ندیم صاھب کو داد و تحسین دیتے ان کی دکان سے نکلے اور گھر آ کر ہی دم لیا.


واپسی پر سب فیملی والے اکٹھے جیسے ہمارے ہی منتظر تھے، چچا کی فیمیلیز اور ہر عمر اور سائز کے ڈھیر سارے کزنز موجود تھے. ہمیں بتایا گیا کہ ھم چونکہ لیٹ ھو گئے ھیں، اس لئے سب مزے مزے کی چیزیں وہ لوگ ہمارے آنے سے پہلے  ہی ھڑپ کر چکے اور باقی ماندہ کچھ اشیاء صلہ رحمی کے طور پر ہمارے لئے فریج میں رکھ دی گئی ھیں. اس وقت ایک بھی سیکنڈ ضائع کئے بغیر فریج کی جانب لپکنا ہمارا اولین فرض تھا. اور اسی اثناء میں تحفے تحائف کا تبادلہ شروع ھو چکا تھا، تب ہمیں شعور آیا اور ھم کرن کو داد دئیے بغیر نہ رہ سکے جب پتا چلا کہ ہمارے ان بڑے بڑے شاپنگ بیگز میں ہمارے اپنے لئے اشیاء کم اور باقی فمیلی ممبران کے لئے تحفے تحائف زیادہ تھے.  اس کے بعد فیملی والوں سے گپ شپ میں لگ گئے، تھکاوٹ اتنی تھی کہ کچھ ھوش نہیں کب سب مہمان واپس گئے. نہ کسی کے ایس ایم ایس دیکھ سکے، اور نہ ہی فیس بک پر کسی کے پیغامات کے ٹھیک سے جواب دے پائے. اگلے دن آنے والی عید، اپنی چھٹیاں اور فیملی کے ساتھ ایسے ہی قیمتی لمحات گزارنے کا خوبصورت تصور لئے کب نیند آئی اور کب چاند رات احتتام پذیر ہوئی، پتا ہی نہیں چلا.

0 comments: