میچوریٹی

10:22 AM 0 Comments


جب آپ کو خود پر اتنا کنٹرول ہو جائے کہ کسی موقع کی مناسبت اور ماحول دیکھتے ہوئے سے بات اور ردعمل ظاہر کریں یا ردعمل ظاہر کرنے سے رک سکیں. جب آپ کسی کی غلط بات کو اس کا معیارِ گفتگو سمجھ کر نظر انداز کرنے لگ جائیں، تو سمجھیں آپ میچور ھو گئے ھیں.

 میچوریٹی ایک صلاحیت ہے، جو کتابوں اور سکولوں سے حاصل نہیں ہو سکتی. میچوریٹی کوئی ایک محدود باؤنڈری والا دائرہ یا سکوپ ہرگز نہیں ھے، جس میں اک انسان اپنی صلاحیتوں کے باعث موجود ہو ، بلکہ ایک ہی انسان کے اندر مختلف معاملات میں میچوریٹی کے مختلف لیولز پائے جاتے ھیں. اس لئے عین ممکن ھے کہ ایک گھاگ اور میچور بزنس مین جذباتی رشتوں کے معاملوں میں یکسر اِمییچور طرزِعمل ظاہر کر دے، اور ایک میچور انجینئیر ھو سکتا ھے اپنے شعبے میں تو بہت میچور فیصلے کرتا ھو، مگر کورٹ کچہری کے معاملات میں امییچورٹی کا ثبوت دیتا نظر آئے. جس انسان کا کسی خاص فیلڈ میں جتنا تجربہ بڑھتا جاتا ھے، اور کسی متعلقہ شعبے میں اس نے جتنے اچھے برے حالات کا سامنا کیا ھو، اتنا ہی وہ اس فیلڈ میں میچور ہوتا چلا جاتا ھے.

 میچوریٹی ایک رویے کا نام ہے. اس رویے کا اس شخص کے فیصلوں کے نتائج سے براہ راست کوئی تعلق نہیں ھوتا. ضروری نہیں کہ میچور شخص کی ہر بات اور فیصلہ درست ثابت ہو

0 comments:

اطمینان کا لیول

10:57 AM 0 Comments

میرا ایک دوست انتہائی سادہ ھے، اس کو فاسٹ فوڈ وغیرہ بالکل پسند نہیں، اور نہ ہی وہ کبھی ان پر پیسا برباد کرتا ھے ......اس کے پاس پیسے کی کمی نہیں،لیکن بس اسکا لائف سٹائل انتہائی سادہ ھے ،اور اس بات سے میں اکثر اختلاف رکھا کرتا تھا ____ کہ یار کچھ تو اپنی ذات پر خرچ کیا کرو.  میں نے اتنے سالوں میں بہت کوشش کی کہ اس کو سمجھا سکوں کہ اے دیوانے دوست... کاش تم سمجھ سکو  کہ پیزا کتنے مزے کی ڈش ھے. مگر میں اسے قائل کرنے میں ناکام ہی رھا ______ وہ اپنی سادگی میں پیزا کھائے اور پسند کئے بغیر ہی اتنا مطمئن ھے _____ کہ کبھی کبھی مجھے اس کی سادگی اور اطمینان سے جلن ھونے لگتی ھے. .... جب اسکی روح ایک لگژری کئے بغیر ہی اتنی مطمئن ھے، اور میں وہ لگژری کر کے بھی اس قدر سکون میں نہیں، تو شاید میں ہی غلط ہوں.... ھم کسی پر اپنی سوچ اور اپنا آئیڈیل لائف سٹائل تھوپ نہیں سکتے. جو جیسے خوش اور پرسکون ھے اسکو ویسے ہی رہنے دینا چاہئے.

 ضروری تو نہیں کہ جس انداز کو آپ حاصل_زندگی سمجھ رھے ھوں، وہی اصل حقیقت ھو. ہر انسان کا پیمانہ فرق ھے، دیکھنے والی آنکھ اور محسوس کرنے والا دل فرق ھے. اور سب سے بڑھ کر ہر انسان کے ٹارگٹس فرق ھیں. جب ہر انسان کا  مطمئن ہونے کا لیول ہی فرق ھے تو ھم فیصلہ نہیں کر سکتے کہ کس کی روح اسکی موجودہ زندگی سے کس قدر سکھی اور شاد ھے.

0 comments:

بنیاد پرست

10:54 AM 0 Comments

کافی سال پہلے میں بالاکوٹ گیا، اور ایڈونچر کرتے کرتے ھم دوست پہاڑیوں پر چڑھتے گئے اور ادھر مشکل ترین پہاڑی رستوں پر آباد اکا دکا گھروں پر مشتمل گاؤں دیکھے تو بہت حیرت ہوئی کہ یہ لوگ اکیلے آبادی سے دور اتنی مشکل جگہ پر کیوں رہائش پزیر ھیں.  اپنی ہر چھوٹی موٹی ضرورت کے لئے انہیں پہاڑ سے نیچے شہر کو آنا پڑتا تھا ..... وہ لوگ نیچے وادی میں بسے شہر میں بھی تو گھر بنا سکتے تھے، __________ اپنی اسی سوچ کا اظہار میں نے ادھر گاؤں کے ایک بزرگ سے کیا تو انہوں نے مجھے اپنے گھر سے ملحقہ کچھ قبریں دکھائیں، اور بتایا کہ یہ میرے پردادا کی قبر ھے، یہ میرے دادا کی، یہ میرے باپ کی قبر ھے ......... اور ساتھ ہی پڑی خالی جگہ کی طرف اشارہ کر کے فخریہ انداز میں بتایا کہ____ "یہاں میری قبر ھو گی" ____________ اس دن مجھے سمجھ لگی کہ لفظ "بنیاد پرست" کا مطلب کیا ھوتا ھے. اس بزرگ نے شائد مجھ سے زیادہ ہی پرسکون اور اطمینان بخش زندگی گزاری ھو گی. تو میں کون ھوتا ہوں اپنی سوچ اور جدت اس پر تھوپنے والا.

0 comments:

خود ساختہ دُکھ

11:55 PM 0 Comments

آج خود ساختہ دکھوں والی بات کی تشریح کرنا چاہتا ھوں. دکھ تو ہر کسی کی زندگی میں ہوتے ہی ہیں. اس سے انکار نہیں. لیکن خود ساختہ دکھ بھی بہت بڑی حقیقت ہیں. ایسے لوگوں کی تعداد بھی کم نہیں.یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جن کی اصل زندگی دوسروں کے مقابلے میں نسبتا بہتر ہی ہوتی ھے، بظاہر کوئی مسئلہ ہوتا نہیں. لیکن وہ اپنے آپ کو نارمل زون میں رکھنے کے لئے اپنے آپ کو ان مسائل کا شکار کر لیتے ہیں. یہ اصل میں دو مسائل ہیں. یا دو مراحل کہہ لیں.

1 - پہلے مرحلے پر انسان شعوری یا لاشعوری طور پر ایسے دکھوں اور ٹینشنوں کو سوچنا شروع کر دیتا ہے، جن کی سر درد لئے بغیر بھی اسکے عمومی معاملات خاصے بہتر ہی چل رھے ہوتے ہیں ... مگر وہ خوامخواہ کے غم اپنی شخصیت سے منسوب کر کے اپنے آپ کو دوسروں کی نسبت زیادہ دکھی اور مظلوم محسوس کرنا شروع کر دیتا ہے.لاشعوری طور پر ایسا کرنے کا ایک محرک یہ بھی ہوتا ہے کے اسے لگنے لگتا ہے کہ اس کا تجربہ دوسروں کے مقابلے میں بہت زیادہ وسیع اور جذباتی معاملات میں اسکا ویژن بھی بہت زیادہ براڈ ہو گیا ہے. ایسے ہی میں کچھ لوگ اپنے آپ پر رحم کر کے خوش ہونا شروع ہو جاتے ھیں. اسی میں سکون محسوس کرنے لگتے ھیں. انھیں خود ترسی کا نشہ ہو جاتا ہے. پھر ایک وقت آتا ہے کہ خودساختہ کچھ نہیں رہتا، یہ فیکٹس ان کی زندگی اور شخصیت میں سیمنٹ کی طرح پکے ہو جاتے ھیں. 

2 - دوسرے مرحلے پر یہ لوگ اپنی ان دکھی کیفیات کو دوسرے لوگوں سے شیئر کر کے مزہ لیتے ہیں. ان کے غم سوشل ہو جاتے ہیں. اکثر و بیشتر باتوں میں دکھ کی شدت کم زیادہ کرنے کے لئے کچھ مصالحہ شامل کرنا پڑے تو وہ بھی کر لیتے ہیں. کمیونیٹیز اور حلقہ احباب میں لوگ ان کے غم اور مسائل کو ڈسکس کرتے نظر آتے ہیں. جو لوگ زیادہ ہمدردی، تسلی اور دردمندی کریں، انکے لئے آنسو بہائیں. انکو بیسٹ فرینڈز ہونے کا درجہ عنایت ہو جاتا ہے. سوشلی اپنے درد و غم کا اظہار ان کے کتھارسس کا حصہ بن جاتا ہے. انہی میں سے کچھ حد تک optimistic لوگ فنکار ، ادیب اور خصوصا شاعر بھی بن جاتے ہیں. اور نام و شہرت بھی کما لیتے ہیں.... اور باقی کے لوگ اپنے ہاتھ اپنا گلا گھونٹنے کی پوزیشن میں رکھتے ہوئے، رو دھو کر حبس زدہ ناشکری کی زندگی گزارتے رہتے ہیں. لیکن نہ یہ اپنا گلا گھونٹتے ہیں. نہ رونا بند کرتے ہیں. 
اور نہ ہی واویلا.

-
21 فروری 2014

0 comments: