کسی پر کس حد تک کُھلنا چاہئے؟

10:38 PM 0 Comments

کتاب اتنی ہی کھولنی چاہئے، جنتی کوئی پڑھنے کی طلب اور سکت رکھتا ھے

سکت:
ھر بندھن میں بندھے اشخاص کی اپنے شخصیت کے زیر_اثر ایک حد مقرر ھوتی ھے اور وہ حد آپ کو تب ہی پتا چلتی ھے، جب آپ اسکے ساتھ کسی نہ کسی رشتے میں منسلک ہوتے ھیں. آپکے ساتھ چلتے چلتے جو شخص کسی سٹیج پر آپ کے قیمتی راز یا آپکی کمزوریاں مزید اپنے تک سنبھال کے نہ رکھ پائے، تو سمجھو کہ اس کی سکت اتنی ہی تھی. اگلے مرحلوں کے لئے آپ ھوشیار ھو جائیں گے. کبھی بھی کسی سے آغاز میں ہی سب کچھ شیئر نہ کریں. اس کو کھلنے کا موقع دیں.

طلب:
طلب کا اندازہ دوسرے شخص کی جانب سے ملنے والے سگنلز، اشتہا ، تجسس اور اھمیت دیئے جانے کے مواقعوں سے ھو جاتا ھے. طلب اور رسد (ڈیمانڈ اینڈ سپلائی) میں بیلنس نہ ھو تو آپ دوسرے شخص کے لئے بے وقعت ھو جاتے ھیں. اگر آپ سے یہ اندازہ کرنے میں غلطی ھو جائے تو سراسر آپ ہی قصور وار ھیں، دوسرا شخص نہیں .... کیونکہ جذباتی تعلقات میں دھوکہ دینے والا نہیں، بلکہ دھوکہ کھانے والا ہی مجرم ھے. اور سزا بھی اسی کو ملتی ھے.


ایسا ھے کہ کچھ بے صبرے لوگ ناول خریدتے ہیں اور ابتدائی صفحات کے بعد فورا اچھی یا بری رائے قائم کرنے کو ناول کا اختتام پڑھنے کے لئے آخری صفحوں کا رخ کرتے ھیں.. دراصل ایسے لوگوں میں وہ کتاب پڑھنے کی سکت ھوتی ھے اور نہ ہی طلب ....... مطلب وہ کتاب درحقیقت ان لوگوں کے لئے ھوتی ہی نہیںمزے کی بات کہ ایسے لوگ کے لئے کتاب پڑھنے کا مقصد:"just for the sake of reading that book"ھوتا ھے. وہ لوگ محفلوں میں اس کتاب کو اپنی فیورٹ کتاب بھی ڈکلئیر کرتے پائے جاتے ھیں، اس پر رائے دیتے ہیں. تبصرے بھی کرتے ھیں. لیکن وہ کہانی کے تمام اتار چڑھاؤ اور حالات و واقعات سے وہ نابلد ہی ھوتے ھیں..بچپن میں ہمارے سکول کی کتابوں پر لکھا ھوتا تھا: "کتاب بہترین ساتھی ھے، اسے پیار کیجئے، اسے ضائع ہونے سے بچایئے"میرے نزدیک کتاب لائبریری میں بیکار پڑے رھنے سے ضائع نہیں ھوتی، بلکہ کتاب غلط بندے کے ہاتھ میں جانے سے ضائع ھوتی ھے. جب بہت سے لوگوں کے پڑھ لینے کے بعد بھی کتاب کا مقصد فوت ہی رھے، تو سمجھو کتاب ضائع ھو گئی. اس لئے میری کتاب کے باہر لکھا ھو گا: "اس کتاب کو غلط ھاتھوں میں جانے سے بچایئے"

---
26 اپریل 2014

0 comments:

سارہ رخسار

12:04 AM 0 Comments

خاکہ نگاری کا مقابلہ شروع ہوا تو دل میں سوچا "خرّم میاں !! آسان کام تو سبھی کر لیتے ھیں، مقابلہ اگر جیتنا ھے تو کوئی مشکل اور انہونا کام کرڈالو. تمام ممبران اپنے دوستوں کا خاکہ لکھ رھے، ایسے میں کچھ مختلف اور مشکل  کرنے کی چاہ میں اپنے دشمن کا خاکہ لکھ ڈالو."  دشمن کا نام آتے ہی فیس بک پر اپنی واحد اور اکلوتی دشمن کا نام ہی میرے ذہن میں ابھرا .... سارہ رخسار ..... دل تو بالکل نہیں چاہ رھا تھا کہ کسی بھی طرح اپنے دشمن کی مقبولیت کا باعث بنوں لیکن مرتا کیا نہ کرتا، آخر مقابلہ جیتنے کی چاہ جو تھی، تو انتہائی مجبوری کے عالم میں محترمہ سارہ رخسار کے خاکے کا آغاز کیا.

 لیکن محترمہ نے اسقدر  خشک ، ڈیپریسنگ اور کسی بھی قسم کے لطیف جذبات سے مکمل طور پر عاری طبیعت پائی ھے کہ تین دن سے ان پر اک مذاقیہ خاکہ لکھنے کی کوشش کر رھا ہوں..... مجال ھے کہ کوئی ایک بھی شگفتہ لائن سارہ کو سوچ کر دماغ میں آئی ھو. الٹا دماغ کے کونوں کھدروں میں دوسرے دوستوں کے خاکوں کے لئے جو کچھ اچھا اچھا سوچ رکھا تھا، اسکو بھی سمجھو زنگ لگ گیا ھو. اب تو خدا سے یہی دعا ھے کہ یا تو یہ ادھورا خاکہ مکمل کر دے ... یا پھر ادھوری سارہ کو پورا کر دے.

  سارہ ہر لحاظ سے ایک گھمنڈی. جھگڑالو اور اکھڑ لڑکی ھے. مردوں کی عزت کرنا تو اس نے شائد سیکھا ہی نہیں. اور لڑکیوں سے اس کی بنتی نہیں. صحیح معنوں میں بِھڑوں کا چھتہ ھے، کسی بھی لمحے کسی سے بھی جھگڑا مول لے سکتی ھے. لانگ ٹرم دشمنی قائم رکھ سکتی ھے....... سکاٹ لینڈ میں رہنے کے باوجود رَج کے پینڈو واقع ہوئی ھے. اپنے اس احساس کو اپنے چہرے پر بھاری بھرکم میک اپ کی تہیں لگا کر دور کرنے کی کوشش کرتی ھے،   وہاں کی کرنسی پاؤنڈز میں کوئی بھی خرچہ کرنے سے پہلے حساب لگاتی ھے کہ یہ کتنے پاکستانی روپے بنتے ھیں. اچھی طرح تسلی کر لینے کے بعد پھر خرچہ پاؤنڈز میں ہی کرتی ھے.  ٹھنڈے ملک میں رہ کر دماغ پر برف کی تہہ جم چکی، اس کے تمام جمالیاتی احساسات منجمد اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سُن ھو کر رہ گئی ھے. عجیب مخمصوں اور مصلحتوں کا شکار ھو کر خود کو کومپلیکیٹ بنانے کی کوششوں میں چار سال تک اپنی   شادی کو فیس بک کے دوستوں سے چھپائے رکھا، حالانکہ ارینجڈ میرج تھی.

  سارہ رخسار مجھے ایک آنکھ نہ بھانے کے باوجود بھی ہر لحاظ سے اک جینوئن شخصیت لگتی ھے، اس کی نفرت بھی  سراسر خالص ھے اور میرے نزدیک یہ بھی ایک پلس پوائنٹ ھے. انتہائی محب وطن ھے، پاکستان کی خاطر کسی سے بھی لڑ پڑے گی. تمام خامیوں کے باوجود دل کی تھوڑی سی اچھی بھی ھے،  اس لئے اس کو دل سے دور کرنا مشکل ھے... کیا کریں مجبوری ھے ایسے ایسے لوگوں کے ساتھ بھی گزارا کرنا پڑے گا صد شکر کے وہ اس خاکے کا جوابی حملہ خاکے کی شکل میں نہیں دے سکتی کیونکہ اگر خدا نے سارہ کو لکھنے کے فن سے آشنا کر رکھا ھوتا تو سوشل میڈیا پر کئی طوفان برپا ھو سکتے تھے

---
اپریل 2014

0 comments: