فنکار
اتوار کی شب تمام گھر والوں کو فیصل آباد روانہ کرنے کے بعد فوڈ سٹریٹ سے رکشہ پکڑا اور اپنے فلیٹ کی جانب روانہ ہوا، رستے میں حسب معمول رکشہ والے (عمر تقریبا پینتالیس سال) سے گپ شپ کا آغاز ہوا، لاہور کی نئی سڑکوں سے گفتگو شروع ہوئی اور پھر سیاست، نواز شریف، عمران خان سے ھوتی ہوئی پتا نہیں کہاں نکل رہی تھی ... کہ رکشہ والے نے کہا، جناب آپ مجھے لاہور کے نہیں لگتے __ میں نے کہا ، درست اندازہ ھے آپکا، میں فیصل آباد سے ھوں، یہاں جاب کرتا ھوں._____ اس کی اگلی بات قدرے مختلف تھی، مجھ سے پوچھنے لگا کہ آپ پرانے گانے سنتے ھو ناں ؟؟ ___ میں نے اثبات میں جواب دیا تو پوچھنے لگا کہ آپ کو کون سا گلوکار بہت پسند ھے؟ (یہ تو میرا انٹرویو ہی سٹارٹ ھو گیا) ___ میں نے جواب دیا : محمد رفیع" ____ یہ سن کر وہ جیسے کِھل اٹھا ____ کہنے لگا کہ مجھے آپ کی باتوں سے ہی اندازہ ھو گیا تھا کہ آپ بھی محمد رفیع کے پرستار ھیں ___ (اب میں سوچوں کہ آخر میں نے ایسی کیا بات کی تھی جس کا ناطقہ محمد رفیع کی پسندیدگی سے جا ملتا ھو) __ خیر میں نے کہا، آپ "بھی" سے کیا مطلب؟ ... یعنی کیا آپ بھی رفیع صاحب کے فین ھیں؟ .... وہ کہنے لگا "جی بالکل، رفیع صاحب جیسا سنگر تو آج تک پیدا ہی نہیں ہوا" ___ اب محمد رفیع پر گفتگو شروع ھو گئی. وہ واقعی بہت دیوانہ فین تھا اور اس کے پاس کافی زیادہ انفارمیشن تھی محمد رفیع کے فن کے متعلق
.
پھر اس نے انکشاف کیا کہ وہ خود بھی گلوکار ھے، مجھ سے اجازت طلب کرنے کے بعد اس نے رکشہ چلاتے چلاتے ہی محمد رفیع کا مشکل ترین گانا "او دنیا کے رکھوالے" کا انترہ گانا شروع کر دیا. حیرت انگیز طور پر وہ بہت ہی اچھا گا رھا تھا
.
اس کی آواز واقعی سریلی اور خوبصورت تھی اور اس کا یہ فن بلاشبہ قابل تعریف تھا. انتہائی خوشی کیساتھ لہک لہک کر گاتے ہوئے وہ دنیا سے بےنیاز اونچے نچلے سُروں کی خوبصورت ادائیگی کرنے میں مصروف تھا. میں نے رکشے کے سامنے کے شیشے سے اسکا چہرہ دیکھا، وہ جیسے گانا گانے میں مست تھا. اس پل اس غریب شخص کے چہرے کے جینوئن تاثرات گویا ہمیشہ کے لئے میری میموری میں فِٹ سے ھو گئے. میں بھی انجوائے کر رھا تھا اسکی شخصیت اور فن کو. رکشے کے بھر ٹریفک اور گاڑیوں کا ہنگام برپا تھا مگر رکشے کے اندر سر سنگیت کی محفل جمی تھی :)
.
مزید گفتگو کرنے پر معلوم ہوا کہ رکشہ والے کے پاس خطاطی کا فن بھی موجود ھے، اور وہ نستعلیق اردو رسم الخط سمیت دیگر انداز کی خطاطی میں مہارت رکھتا ھے، وہ مصوری اور خطاطی کے بارے میں بھی بہت کچھ جانتا تھا. مگر اس کے تمام فن اور ھنر اسکا پیٹ بھرنے کے لئے ناکافی تھے، اور وہ رکشہ چلانے پر مجبور تھا، مگر اس پروفیشن پر بھی اسے بالکل کوئی افسوس نہیں تھا، اس نے بتایا کہ وہ خوش ھے. مست ھے اپنے حال میں
.
میں اس شش و پنچ میں تھا کہ اس سے اسکا موبائل نمبر لوں یا نہیں، فلیٹ کے سامنے پہنچ کر میں رکشے سے نکلا پیسے ادا کئے، اس نے کہا ایک مصرع اور سن لیں، اور رفیع صاحب کی ایک غزل "مدت ہوئی ھے یار کو مہماں کئے ہوئے" گا کر سنانے لگا. گلی سے گزرتے لوگ حیرت سے دیکھ رھے تھے کہ یہ کیا ھو رھا ھے ... اس نے غزل کا ابتدائی شعر گنگنا کر مسکراتے ہوئے مجھے داد طلب نظروں سے دیکھا اور پھر سلام کرتے ہوئے اپنا رکشہ آگے بڑھا دیا .
-------
خرّم امتیاز - 23 مارچ 2016
0 comments: