کیا لٹریچر کسی کی سوچ اچھی بنا سکتا ھے؟

1:28 AM 0 Comments

میں نے آج تک لٹریچر کی بدولت کسی کی سوچ بدلتے نہیں دیکھی. انسان مجموعی حثییت میں ویسا ہی رہتا ھے. یہی وجہ ھے کہ آپ کو ادباء میں بھی ہر رنگ کے نمونے مل جایئں گے. جن لوگوں کا لکھا لٹیرجر ہم پڑھ کر اپنی شخصیت سنوارنے کی بات کر رھے ہیں ، پہلے ان لکھنے والوں کی اپنی شخصیات کی صف بندی تو ذرا کیجئے.ہر طرح کی ورائٹی دستیاب ہے لٹریچر لکھنے والوں میں ہی. 

حسد کرنے والے بھی، پیار کرنے والے بھی، ٹانگ کھینچنے والے بھی، جلتی پر تیل ڈالنے والے بھی، لالچی بھی، سخی بھی، جھوٹے لوگ، سچے لوگ ، نفسیاتی الجھنوں کا شکار بھی، لبرل بھی، کنزرویٹیو بھی، دھڑے بندیاں کرنے والے بھی اور سب کو جوڑ کر مل ملا کر چلنے والے بھی، مزاروں اور صوفی بزرگوں کے پیچھے جانے والے بھی، اور صوفی ازم سے انکاری بھی، دوست بھی، دشمن بھی، مغرور بھی، مسجود بھی، نشے میں چور شرابی بھی اور زانی بھی، حاجی بھی اور دھریئے بھی....

جناب نہ ادب کی کوئی حد ھے اور نہ ہی ان ادیبوں کی رنگ برنگی ورائٹیوں کی کوئی کمی ھے.

تو جب ان پڑھ لوگوں میں بھی انہی تمام خصلتوں کے لوگ پائے جاتے ہیں، درمیانے درجے کے پڑھے لکھے لوگوں میں بھی اوپر بیان کی گئی تمام ورائٹیاں پائی جاتی ہیں اور بلند پایہ اعلی ادب پڑھنے اور لکھنے والے بھی انہی شخصیات میں بٹے نظر آتے ہیں. تو میرا نہیں خیال کہ یہ دنیاوی علم اور فکشن کسی کی بنیادی شخصیت میں رتی بھر بھی تبدیلی کا باعث بنتا ھے..... ہاں مختلف معاملات میں نالج ضرور بڑھتا ھے، انسان کو مختلف موضوعات پر چپڑ چپڑ باتیں ضرور کرنا آ جاتی ہیں. لیکن جب میں خود بلند پایہ ادبی لوگوں کو گری پڑی حرکتیں کرتا دیکھتا ہوں، تو میرا یقین اور پختہ ہو جاتا ھے، کہ یہ دنیاوی تعلیم درحقیقت انسانی خصلت کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی. یہ انسان کی اپنی زندگی کے پے درپے حالات و واقعات ہی ہیں، وہ ذاتی زندگی میں درپیش تجربہ و مشاہدہ، ٹھوکریں اور تھپکیاں، دوستیاں اور دشمنیاں، بوسے اور گالیاں ہی ہیں، جو آپ کی شخصیت بناتی ہیں.

"میں" وہ نہیں ہوں، جو میرے ہاتھ میں پکڑی کتابوں میں لکھا ھے، بلکہ میرے چہرے کے اک اک زخم اور جھریوں سے مل کر "میں" بنا ہوں


 کیا علم و ادب کی باتیں کر لینا، مختلف مضوعات پر چرب زبانی کر لینا، لمبی لمبی اور گہری گہری باتیں کر لینا، فلسفے بگھار لینا ہی شخصیت میں بہتری کی علامات سمجھی جاتی ہیں؟ اگر ایک صاحب_مطالعہ شخص بھی اپنی ذاتی زندگی میں کوئی بہتر کردار ادا کرتا نظر نہیں آتا، اور ایک ان پڑھ شخص انہی معاملات کو زیادہ بہتر انداز میں نبھاتا نظر آئے، تو شخصیت پر مطالعے کے اثرات کہاں ہیں؟ 

کیا لٹریچر صرف "دل کے خوش رکھنے کو غالب یہ خیال اچھا ھے" والا کام نہیں کرتا؟؟؟ کیا یہ اثرات صرف ذاتی تسکین کی حد تک نہیں ہیں؟ کیا مطالعہ کے بعد ایک شخص اپنی ازدواجی زندگی میں ایک ان پڑھ کی نسبت زیادہ بہتر شوھر ثابت ہو جاتا ھے؟ کیا صاحب_مطالعہ لوگ اپنے والدین کی زیادہ بہتر خدمت کرتے ہیں؟ کیا صاحب_مطالعہ لوگوں میں جذبہ حب الوطنی ان پڑھ لوگوں سے بڑھ جاتا ھے؟ کیا کتابیں پڑھ لینے سے انسان تمام ذاتی برائیوں سے دور ہو جاتے ہیں؟ شخصیت کا نکھار کہاں ھے؟


 جناب، میں تو اس اثر کو "انتہائی مختصر" یا پھر بےاثر کہوں گا. بلکہ منفی اثرات کہنا چاہئے. کیونکہ ادب کا لبادہ اوڑھ کر انسان اپنی اصل شخصیت کو چھپائے لوگوں کو بہتر ڈاج کرنا شروع کر دیتا ھے. یہ علم و ادب اور فلسفے کا wrapper انسان کو کم سٹریٹ فارورڈ، زیادہ ڈپلومیٹک اور انتہائی مخفی بنا ڈالتا ھے. مگر بحثیت_مجموعی، مختلف معاملات میں اس کی مثبت و منفی کردار پر کوئی خاص فرق نہیں پڑتا.

اشفاق احمد صاحب اپنی تحریروں میں جن بابوں کا ذکر کرتے ہیں، انہوں نے کتنی کتابیں پڑھ رکھی ہوتی ہیں؟ اور بانو قدسیہ کا راجہ گدھ پڑھ کر کتنے قاری ہیں جنہوں نے ذاتی زندگی میں حلال و حرام کو صحیح معنوں میں امپلیمنٹ کر ڈالا ھو؟ یہ لٹریچر کا شوق دراصل صرف اور صرف مطالعہ کی حد تک اپنے نفس کی تسکین اور ادبی محافل میں بڑھ چڑھ کر نالج جھاڑنے کی دوڑ ھے، اور کچھ بھی نہیں. اور انسان کی اچھے، برے، مثبت و منفی، نفیس، درد مند، سخی، جارح یا مستقل مزاج رویوں سے ادب کا کچھ بھی لینا دینا نہیں. 

عمران خان نے خود اقرار کیا کہ وہ اپنی مصروف ترین زندگی کے باعث کتب سے دور رہا، تو کیا شوکت خانم جیسے مقصد کے حصول کے لئے اس کو کتابوں کی ضرورت کیوں نہ پڑی؟ عبدالستار ایدھی صاحب بھی فلاحی کاموں میں ایسے جتے کہ کتابوں کی دوڑ سے ہی آگے نکل گئے. راشد منہاس نے اٹھارہ سالہ زندگی میں وہ دانشوروں کا کونسا لٹریچر پڑھ لیا تھا جس نے اسے اپنا طیارہ زمین پر ٹکرا دینے کا حوصلہ دیا؟

میرا تو یہی مشاہدہ ھے کے جتنا پڑھو گے، اتنے ہی آپ کے جذبے خالص پن سے عاری ہوتے جاتے ہیں. لٹریچر پڑھنا ہمیں ہمارے جینوئن پن سے دور کرتا جاتا ھے، ھم دوسروں کی سوچ سوچنا شروع کر دیتے ہیں، دوسروں کی سوچ کو اپناتے اپناتے ہماری اپنی سوچ بھی ہماری نہیں رھتی.


کتابیں پڑھ پڑھ کر سوچ اڈاپٹ کرنا اور پھر اس کا ہر معاملے میں پرچار کرنا ایک الگ چیز ھے اور اپنی اصل شخصیت اور عقآید کو اس اڈاپٹڈ سوچ کے پیچھے چھپائے چھپائے رکھنا ایک الگ چیز. آپ کی اصل سوچ وہ ھے جو آپ کے پریکٹیکل معاملات میں سامنے آتی ھے. دوسری وہ اڈاپٹ کی ہوئی (اکثر اچھی) سوچ جس کے لبادے میں ، ہم اپنے آپ کو لپیٹ کر پیش کرتے ھیں. (اور یہ وہی کتابوں کے زیر_اثر سوچ ہوتی ھے)

مثال کے طور پر میں (کتابوں سے adopt کی ہوئی سوچ کو لے کر) سوشلی اپنے مضامین میں حقوق_نسواں کے متعلق لبرل عقائد کی باتیں کرتا پھروں. لیکن جب میرے اپنے گھر کی خواتین کو وہی آزادی درکار ھو تو میں قدامت پسند رویہ ہی ظاہر کرتے ہوئے کچھ مختلف اقدام کروں. اس سے میری ڈپلومیٹک پروان چڑھی ہوئی شخصیت سامنے آئے گی (یعنی ظاہرا میں جس مرضی سوچ کا اظہار کروں، لیکن اندر سے میں رھوں گا ایک قدامت پسند انسان ہی) .... اگر آپ نظر دوڑائیں ہمارے معاشرے میں یہی چیز وافر مقدار میں ہو رہی ھے، کیونکہ لوگوں کی اپنی شخصیت، عقل اور عقائد کے مابین ہی مڈبھیڑ جاری ھے. جیسے جیسے انسان علم حاصل کرتا جاتا ھے، شخصیت کا یہ دوغلا پن بڑھتا ہی جاتا ھے.

پڑھ پڑھ علم تے فاضل ھوییں تے کدے اپنے آپ نوں پڑھیا نھیں
بھج بھج وڑناں اے مندر مسیتی تے کدے من اپنے وچ وڑیا نھیں
لڑنا روز شیطان دے نال تے کدے نفس اپنے نال لڑیا نھیں
بلھے شاہ آسمانی اڈدیاں پھڑو نھیں، جیہڑا گھر بیٹھا اوہنوں پھڑیا نھیں

0 comments:

عمران قاضی

10:43 PM 0 Comments

عمران قاضی کا تعلق ہانگ کانگ سے ھے. وہیں پیدا ہوئے، نوجوانی میں تعلیم کی غرض سے پاکستان آئے، اور پھر بیاہ کر واپس ہانگ کانگ چلے گئے. اب وہیں زندگی کا سفر جاری رکھے ہوئے ھیں. شعبہ تدریس سے منسلک ھیں.  ہماری ابھی تک ملاقات نہیں ہوئی، لیکن بس میرا اور عمران قاضی کا ایک غائبانہ کونیکشن ھے، عمران قاضی کو شائد محسوس نہ ھوتا ھو. لیکن اتنی عادت ھو گئی ھے اس شخص کی ..... جیسے ان کی فیس بک کی نپی تلی لائف اب اپنی لائف میں بھی فِٹ ھو چکی ھو .... سب پتا ھے عمران قاضی کی روٹین، ..... اس وقت سو رھے ھیں، اس وقت جاگ رھے ھیں.... کس وقت اپنے سکول میں ہوتے ہیں، ... کس وقت موبائل فون پر آن لائن ہوتے ھیں. کس وقت گھر کے کمپیوٹر پر بیٹھے ہوئے ھیں .........دن کے کس حصے میں وہ رومن میں کمنٹ لکھتے ھیں .... کس وقت اردو رسم الخط میں لکھیں گے. کس وقت سرسری جواب دیتے ھیں. کس وقت مفصل بات کرنے کا موڈ ھوتا ھے. ان کے کھانا کھانے کا وقت بھی .... اور ان کی باتیں.... جیسے سب کچھ پہلے ہی سے مجھے پتا ھے، لیکن پھر بھی انکے ھر ھر کومنٹ میں میرے لئے نئے پن کا احساس. کسی بھی موضوع پر پہلے ہی سے اندازہ ھوتا ھے عمران قاضی کتنا بولیں گے، کیا بولیں گے ........... ان کو کیا بات پسند آئے گی .. کیا پسند نہیں آئے گی..... کس ایشو پر جذباتی ھو سکتے ھیں. کس معاملے کو اگنور کرنے کی صلاحیت رکھتے ھیں ............. ایسے لگتا ھے عمران قاضی کا سارا انفارمیشن پروگرام مجھ میں فیڈ ھو چکا ھے

-
١٩ مارچ 2014

0 comments: