دھوبی گھاٹ کا مسلک

6:04 AM 0 Comments

میرا بچپن اور لڑکپن فیصل آباد کے بیچوں بیچ پرانے محلوں میں گزرا ہے. یہاں بہت مکسڈ قسم کا سیاسی و مذہبی کلچر پایا جاتا ہے. اسے سمجھنا اتنا آسان نہیں، خاندانوں کے نسل در نسل روابط و مراسم ہیں. ہر گلی کے موڑ پر مختلف رنگ و نسل اور انواع و اقسام کی شخصیات سے سامنا ہوتا ہے. ہمارا محلہ 'اسلام پورہ' فیصل آباد شہر کے تقریبا مرکز میں آٹھ بازاروں سے ملحقہ علاقے میں واقع ہے. محلے کے ایک جانب تاریخی گورنمنٹ کالج و یونیورسٹی ہے تو دوسری جانب دھوبی گھاٹ کی تاریخی گراؤنڈ جہاں قیامِ پاکستان سے لے کر اب تک ہر سیاسی و مذہبی قائد نے شعلہ بیانی سے محلے کی سماعتوں میں اپنا حصہ ڈالا. اسی گراؤنڈ کی نسبت سے محلے کا نام بھی 'دھوبی گھاٹ' ہی پڑ گیا. محلے کے ایک جانب شہر کی سب سے بڑی امام بارگاہ ہے تو محلے کے وسط میں دیوبند کی تاریخی مسجد، محلے کے جنوب میں اک سینما گھر بھی ہے. جہاں اب تھیٹر پروگرام چلتا ہے. اور ایک طرف عیسائیوں کی پرانی بستی ہے. محلے میں ہر مسلک و مذھب کے لوگ پائے ہیں. یہاں ہر فیملی کی باقاعدہ ایک ہسٹری ہے. دیوبندی، وہابی، شیعہ، بریلوی، مرزائی، عیسائی گویا ہر فیملی یہاں موجود ہے. ہماری ہوش سے قبل سکھ فیملیاں بھی یہاں رہائش پزیر رہیں. بچپن سے دیکھا کہ ہر کوئی اپنے اپنے عقآئد پر کاربند ہے. مگر کوئی کسی کو چھیڑتا نہیں. سوسایٹی میں سب کے ساتھ مل کر چلنا پڑتا تھا. اختلافات اور جھگڑے تو ہر جگہ کا معمول ہیں مگر میں نے محلے میں کسی کو کم از کم مسلک و مذھب کی بنیاد پر لڑتے نہیں پایا.
.
میری فیملی کا ایک پلس پوائنٹ یہ رہا کہ ہمآرا محلے میں سب کے ساتھ ہمیشہ اچھا اور دوستانہ سمبندھ رہا، میرے والد مرحوم کوئی بہت پریکٹیکل مذہبی شخصیت نہیں تھے لیکن وہ ناصرف محلے بلکہ شہر کی ہر دلعزیز شخصیت تھے. معاشی طور پر آسودہ نہیں تھے لیکن پھر بھی نجانے کیوں ہر کوئی انکو بزرگ مانتا اور عزت دیتا تھا، میں نے انہیں ہر طرح کے لوگوں کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے دیکھا حیران کن طور پر وہ ہر کسی کے ساتھ مخلص تھے. مجھے بچپن ہی سے ان سے شکوہ تھا کہ وہ گھر والوں سے زیادہ محلے والوں کو ترجیح دیتے ہیں. محلے میں کوئی بھی مسئلہ و جھگڑا ہوتا تو امتیاز بٹ صاحب پنچایت کا فیصلہ کرتے، ابو کا فیصلہ حتمی سمجھا جاتا تھا، حیران کن طور پر ہر کوئی انکا فیصلہ مان بھی لیتا تھا. اب انکے جانے کے بعد انکی جگہ لینے والا محلے میں ایسا کوئی نہیں جس کی بات سب مان لیں :( میں جب ادھر فیصل آباد آؤں، جو بھی پرانا شخص مجھے ملتا ہے یہی کہتا ہے، "تیرے پیو ورگا بندہ نہیں ویکھیا" اور میں حیران ہوتا ہوں، کیونکہ میں نے ساری زندگی ابو کو بہت عام مڈل کلاس انسان سمجھا. مگر مجھے ان کی شخصیت کی سمجھ ہی انکی وفات کے بعد آنا شروع ہوئی جب ان کی زندگی کے حالات و واقعات ان کے دوستوں کی زبانی سنے. میں حیران ہوتا ہوں کہ ایک شخص اتنے بہت سے لوگوں کے حلقہ احباب میں کیسے یکسوئی رکھ پاتا تھا. اور مختلف طبقات و حلقہ فکر کے لوگوں میں اچھی شہرت کا حامل بھی تھا.
.
اگرچہ ابو خود تو بیحد مذہبی نہیں تھے، مگر ابو سے ایک غلطی ہو گئی،انہوں نے ہمیں کبھی بتایا ہی نہیں کہ ہمارا مسلک کیا ہے؟ اور سچ تو یہ ہے کہ زندگی میں کئی مواقعوں پر باوجود کوشش کے میں آج تک فیصلہ ہی نہیں کر پایا کہ ہماری فیملی کا مسلک کیا ہے؟
چچا پانچ وقت کے نمازی تھے، مگر انہوں نے بھی ہمیں کنفیوزڈ ہی رکھا وہ ایک نماز دیوبندی مسجد میں پڑھتے تو دوسری نماز بریلوی مسجد میں، عید کی نماز کے لئے اکثر وہابیوں کی عید گاہ میں لے جاتے.نہ کبھی ہمیں شیعہ دوستوں سے دوستی سے روکا گیا.
.
ہم کزنز نے بچپن ہی سے ہر مذہبی تہوار کو دل سے منایا ہے، ہم نے عید میلادالنبی کے جلوس کے لئے ٹرک سجائے ہیں، جلوس میں ٹرکوں پر سوار لہک لہک کر نعتیں پڑھیں، ٹافیاں، جوس اور سیب بانٹے ہیں تو محرم میں تازیہ کی آرائش بھی کی، دھوبی گھاٹ کی گراؤنڈ میں طاہر القادری، قاضی حسین احمد اور حافظ سعید کی جذبات بھڑکاتی تقاریرسنی اور بینظیر، نواز و عمران کے سیاسی جلسے بھی بھگتائے، محرم میں سبیلیں لگا کر پیآسوں کی پیاس بجھا کر بھی ثواب کمانے کی فیلنگ آئی تو مسجد میں ٹھہری پردیسی تبلیغی جماعت والوں کے لئے گھروں سے کھانا لے جا کر بھی نیکیاں کمائیں. میلاد پر محلے میں بنٹتے نان حلوے اور متنجن کی دیگوں پر اپنا پورا حق سمجھا تو محرم میں ہر گلی میں پکنے والی اسپیشل حلیم میں ذائقے کے اعتبار سے اول، دوئم اور سوئم نمبر پر آنے والی دیگوں کا فیصلہ بھی کیا. مولانا طارق جمیل کے بیانات پر آنسو گرائے تو امام بارگاہ میں مجلسوں اور شام غریباں میں بھی خود کو آبدیدہ پایا. وہابی دوست کے ساتھ نماز پڑھنے گئے تو اس کی خوشنودی کے لئے رفع الیدین بھی کر لیا. کسی کو بتائیے گا نہیں، میں نے تو کم عمری میں ذولجناح کو بھی عقیدت سے چوم لیا تھا . میں سمجھتا تھا کہ یہ واقعی امام حسینؓ کا گھوڑا ہے، میرے لئے یہ معجزہءِ حیرت تھا کہ یہ گھوڑا ابھی تک زندہ ہے . خیر اس تمام سفر میں بہت سے لوگ میرے ساتھ رہے جو کم و بیش میرے جیسی سوچ اور ماحول رکھتے تھے، میں ان سب کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے مجھے نفرت نہیں سکھائی.
.
خدا، مسلک اور عبادات کی بجائے میرا تعلق ہمیشہ لوگوں کے ساتھ زیادہ رہا ہے اور مجھے اس پر کبھی کوئی رنج بھی نہیں رہا.
مجھے لگتا ہے کہ جسطرح پوسٹ کیساتھ اٹیچڈ تصویر میں آپ دھوبی گھاٹ کو اونچائی سے دیکھ کر جغرافیہ سمجھ سکتے ہیں، اسی طرح اونچائی سے سبھی مذاہب و مسالک کو دیکھنے کی ضرورت ہے. ہو سکتا ہے کہ تب آپ گنگنائیں :
"
بازیچہ ءِاطفال ہے دنیا میرے آگے
ہوتا ہے شب و روز تماشا میرے آگے
"
--------------
(جاری ہے)

0 comments:

کیا نواز حکومت فیل ہو گئی ہے؟

1:55 PM 1 Comments


آئیڈیلسٹک مائنڈ سیٹ کیساتھ اگر پوائنٹ ٹُو پوائنٹ تنقیدی جائزہ کرنے بیٹھیں گے تو معلوم ہو گا کہ آج تک کوئی ایک بھی اچھی گورنمنٹ پاکستان میں نہیں آئی. مگر کسی حکومت کی پرفارمنس کا تجزیہ کرتے ہوئے ہمیں اس نکتہ کو ضرور مدنظر رکھنا چاہئے کہ انہیں کیا کیا چیلنجز درپیش تھے؟ اور وہ اپنے چیلنجز کو لے کر کس طرح آگے بڑھے. میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ نواز حکومت نے کم از کم قوم کو درپیش چیلنجز کو قبول تو کیا ہے، اوراپنے تئیں کچھ نہ کچھ اچھا کام کر رہی ہے، انہوں نے ڈویلپمنٹ کو لے کر اپنی سمت کا تعین کیا ہے، اقتصادی راہداری منصوبہ ملک میں گیم چینجر ثابت ہو گا (انشااللہ). انکی پالیسیوں سے اختلاف ہو سکتا ہے، لیکن کم از کم پالیسیاں موجود تو ہے. البتہ اس حکومت سے قبل کیا ہو رہا تھا، وہ ہم سب کو معلوم ہے.
یہ مانا کہ ہمارے ہاں مسائل اتنے زیادہ ہیں کہ ایک ایشو کو فکس کرنے نکلو تو دس دوسرے ایشو سر اٹھائے نظر آتے ہیں، مگر یہ ممکن ہی نہیں کہ چند سالوں میں سب کچھ فکس ہو جائے. دوسری بات یہ کہ منفی سوچنے والے شخص کو تو کسی طور مطمئن نہیں کیا جا سکتا. البتہ اپنے اردگرد موجود آپٹمیسٹک لوگوں کو موجودہ حکومت سے قدرے مطمئن پاتا ہوں.
اسلئے میں یہی چاہوں گا کہ یہ 2018 تک اپنا دور مکمل کریں، اس کے بعد عوام اپنی قسمت کا فیصلہ جمہوری انداز میں کرے ، اگر اس حکومت نے واقعی تسلی بخش کام نہیں کیا اور اگر عوام کی اکثریت کی نظر میں یہ حکومت فیل ہے تو اس کا  نتیجہ خودبخود ہمیں اگلے انتخابات میں نظر آ جائے گا



1 comments: