ؤالدین

3:15 PM 0 Comments

زندگی بیحد مختصر ہے، یہ کوئی ریہرسل نہیں چل رہی کہ کسی کی غلطی یا غلط فیصلے کی سزا کوئی دوسرا زی روح چپ چاپ بھگت کر اپنی زندگی کو جہنم بناتا رہے۔ بزرگ بھی اکثر و بیشتر غلطیاں کرتے ہیں اور اکثر انھیں بھی درستی کی ضرورت ہوتی ہے۔ محض کسی کے احترام میں اپنی زندگی تیاگ دینا اولڈ فیشن ہو چکا ہے۔
بنیادی طور پر والدین اٹھارہ سال کی عمر تک کے بچے کو پالنے کے ذمے دار ہیں۔ اور یہ بچوں پر کوئی احسان ہرگز نہیں بلکہ یہ اُن بچوں کو اِس دنیا میں لانے کے فیصلے کا کفارہ ہے کہ انھیں اب دنیا کی باگ ڈور سنبھالنے کے قابل بنانا بھی انھی والدین کی ذمے داری ہے جو اسے دنیا میں لیکر آنے کی وجہ بنے۔
مگر ہمارے ہاں والدین خود کو بچوں کا مالک تصور کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں کا فنانشل سماجی سسٹم اسقدر کھوکھلا ہے کہ یہاں بچہ پیدا کرنے کا بنیادی محرک ہی دراصل اپنے "بڑھاپے کا سہارا" پیدا کرنا ہوتا ہے۔ جبھی ہر کسی کو لڑکا چاہئے جو کماؤ پوت بن سکے۔ وہ اپنے بڑھاپے کے اس سہارے کو اپنے بڑھاپے تک سنبھال سنبھال کے رکھنا چاہتے ہیں۔ جبھی لاشعوری طور پر بچے کو آزاد ہوتا یا فیصلے کرتا دیکھنا ہی نہیں چاہتے، اور اٹھارہ سال کے بعد بھی ان کی زندگی کا ہر فیصلہ کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں۔ انگنت زندگیاں ایسے ہی متصادم فیصلوں کی ںذر ہو جاتی ہیں
اِن شارٹ ہمارے ہاں insecurities کا کلچر رائج ہے، والدین خود بھی insecure ہوتے ہیں، اور وہ اپنی اولاد کو بھی اپنے بغیر insecure رہنے کا عادی بناتے ہیں۔

0 comments: